اسلام آباد ( رپورٹ :،رانا مسعود حسین، صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے90کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد پی پی پی کی سربراہ ،بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کی سازش سے متعلق مشہور’’اصغر خان کیس‘‘ میں ’’سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم عملدرآمد سے متعلق مقدمہ‘‘ کی سماعت کے دوران آئندہ سماعت تک سیکرٹری دفاع سے فوجی افسران کے خلاف جبکہ ڈی جی ایف آئی اے سے سویلین ملزمان کے خلاف کی جانے والی کارروائی سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 4ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھاکہ آئندہ سماعت پر پیشرفت چاہیئے کیونکہ لمبا عرصہ کیس کو نہیں چلا سکتے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے پر من و عن عمل ہونا چاہیے۔ ایف آئی اے عمل درآمد کا میکنزم بنائے اور آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ دے ۔ جبکہ فاضل عدالت نے واضح کیا ہے کہ اگر ایف آئی اے اور ملٹری اتھارٹیز نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی تو پھر عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لئے خود حکم جاری کریگی۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو ملزم فوجی افسران کو طلب کرینگے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز عملدرآمد کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف ائی اے نے کیس میں ہونے والی پیشرفت سے متعلق رپورٹ جمع کرو ا دی ہے، جبکہ مزید تفتیش ابھی جاری ہے، انہوں نے بتایا کہ عدالت نے اپنے سابق حکم میں وزارت دفاع کو اس کیس کے سلسلے میں ایف آئی اے سے تفتیش میں تعاون کرنے کی ہدایت کی تھی، جس پر فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس وقت تفتیش کس مرحلے میں ہے؟ تو ڈی جی ،ایف آئی اے،بشیر میمن نے رپورٹ پیش کی کہ آئی ایس آئی سے مبینہ رقم لینے کے حوالے سے تین افراد کے بیانات قلمبند کر لئے گئے ہیں جبکہ میر ظفر اللہ جمالی، حاصل بزنجو اور لیاقت جتوئی کے بیانات قلمبند ہونا باقی ہیں، وہ الیکشن میں مصروف تھے،اب ان کے بیانات قلمبند کئے جائیں گے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دو ماہ پہلے یہ حکم جاری کیا تھا، جبکہ سپریم کورٹ نے اس کیس کا مرکزی فیصلہ 2013میں جاری کیا تھا اور اس کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں بھی خارج ہو چکی ہیں،آپ جلد از جلد تحقیقات مکمل کریں،جس پر ڈی جی نے بتایا کہ ہم نے وزارت دفاع سے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے مبینہ مرتکب ملزم ، فوجی افسران کا ریکارڈ مانگا تھا تاکہ اس سے دیگر افراد کے بیانات کاتقابل کیا جاسکے لیکن تاحال ہمیں فراہم نہیں کیا گیا ہے ،جس پر وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کرنل ریٹائرڈ فلک ناز نے عدالت کو بتایا سپریم کورٹ کے سابق حکم کی روشنی میں یہ معاملہ مزید پیش رفت کے لئے وفاقی کابینہ کو بھجوایا گیا تھا ،کابینہ نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ فوجی افسران کے ٹرائل کا معاملہ ملٹری اتھارٹیز کو بھیجا جائے جبکہ سویلین ملزمان کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کریگی ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملٹری اتھارٹیز کی جانب سے اب تک کیا پیشرفت کی گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کیلئے قانونی تقاضے پورے کرنا لازمی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس سلسلے میں عدالت کو بھی اعتماد میں لیں کہ آپ نے دو ماہ کے دوران کون ے قانونی تقاضے پورے کئے ہیں اور اب تک کی کیا پیش رفت ہے؟جس پر انہوں نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کے برخلاف وفاقی وزارت داخلہ نے تاحال کیس وزارت دفاع کو بھیجا ہی نہیں ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے سے تو آپ خود بھی آگاہ ہیں۔