اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)قومی اسمبلی میں ملک کے نئے وزیراعظم کاانتخاب خوشگوار منظر بننے کی بجائے اس دیہاتی ملاکھڑے یا کبڈی کامقابلہ دکھائی دے رہا تھا جس میں مقابلے پر بھاری رقم لگی ہو اس میں پہلوانوں کےساتھی بسا اوقات ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں اور بات ذرا آگے بڑھے تو ایک دوسرے پر پل پڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد فوری تقریر نہ کرسکے اوراجلاس ملتوی کرنا پڑے،قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سیکرٹریٹ نےتحریک انصاف کے جوشیلے کارکنوں اور طرفداروں کو اس دریادلی کے ساتھ دعوت نامے جاری کررکھے تھے کہ ایوان کی تمام گیلریاں تحریک انصاف کی ریلی دکھائی دے رہی تھیں ان کارکنوں نےایک سے زیادہ مواقع پر پریس گیلری پر بھی دھاوا بول دیااور بمشکل انہیں داخل ہونے سے روکا جاسکا۔ اجلاس پچپن منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا جبکہ مہمان کم و بیش ایک گھنٹہ پہلے ہی گیلریوں پر قبضہ جماچکے تھے اس طرح ان مہمانوں کی دھما چوکڑی پانچ گھنٹے تک بلا تکان جاری رہی اگر یہ سب کچھ اسپیکر کی ’’رضا مندی‘‘ سے نہیں ہوا تو سیدھے لفظوں میں یہ ان کی ناکامی ہے وہ اس منصب کےلئے پانچ سال کا تجربہ اپنے ساتھ لیکر آئے ہیں انہیں اس حوالے سے ’’رموز‘‘ کی کماحقہ آگاہی ہے۔ قومی اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخابی نتیجے کااعلان ہوتے ہی مسلم لیگ نون کےارکان رانا ثنااللہ ،مرتضیٰ جاوید عباسی اورمحترمہ مریم اورنگزیب کی سرکردگی میں وزیراعظم کے لئے مخصوص نشست کے سامنے آگئے اور انہوں نے عمران خان کا تقریباً گھیراو کرلیا وہ بلند آواز میں چور چور ووٹ چور اور جعلی وزیراعظم نامنظور نعرے لگا رہے تھے ان کے نعروں میں وزیراعظم نوازشریف، کوئی نہیں کوئی نہیں صرف نواز شریف کانعرہ بھی شامل تھا۔ عمران خان اپنے فاتحانہ خطاب کی تیاری کررہے تھے کہ ناگہانی حملہ آور آگئے وہ اپنی نشست پر بیٹھے زیرلب مسکراتے رہے اوراحتجاج کناں ارکان کی طرف دیکھنے سے بھی احتراز کرتے رہے یہ ہنگامہ طول پکڑگیا تو اسپیکر نے اجلاس پندرہ منٹ کےلئے ملتوی کردیا ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد فوری تقریر نہ کرسکے اوراجلاس ملتوی کرنا پڑے وقفے کے بعداجلاس دوبارہ شروع ہوا تو مسلم لیگ نون کےارکان ایک مرتبہ پھروزیراعظم کےلئے مخصوص نشست کے سامنے جمع ہوگئے وقفے کے دوران تحریک انصاف نے جوابی حکمت عملی تیارکرتے ہوئے مخالفانہ نعروں کے جواب میں نعرہ بازی کےلئے اپنےارکان کو بھی جمع کرلیا اب دونوں طرف سے نعرہ بازی ہورہی تھی اور ارکان ایک دوسرے کےاس قدر قریب ہوجاتے کہ ان میں تصادم کاخدشہ پیدا ہونے لگا۔ اسی دوران اسپیکر نےخان کو خطاب کی دعوت دے دی مسلم لیگی ارکان کے نعروں کی گونج میں بھی اضافہ ہوگیا عمران خان آب مشتعل ہوچکے تھے ۔انہوں نے 25 جولائی کو اپنے خطاب سے جومثبت تاثر قائم کیا تھا وہ قومی اسمبلی کے اس خطاب سے پورے طور پر زائل ہوگیا۔عام طور پر توقع کی جاتی ہے کہ یوں منتخب وزیراعظم مفاہمت کی بات کرے گا سب کو ساتھ لے چلنے کا عندیہ دے گا اپنے عزائم اور ارادوں پر روشنی ڈالے گا وزیراعظم کا چناو اور پارلیمانی ایوانوں کاانتخاب حالیہ واقع ہوتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی اکھاڑے میں موجود کھلاڑیوں کے جذبات قدرے تلخ ہوتے ہیں وزیراعظم سےتوقع کی جاتی ہے کہ وہ ان جذبات کوٹھنڈا کرنےکے لئے پیغام دے گا بد قسمتی سے خان کی تقریر میں ایسی کوئی بات سرے سے شامل ہی نہیں تھی۔