• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کے وکیل وزیر بن گئے کیا غداری کا مقدمہ جاری رہ سکے گا؟

اسلام آباد(عمر چیمہ)کیا پی ٹی آئی مشرف کے وکیل کو وزیر قانون بناکر غداری کا مقدمہ جاری رکھ سکے گی؟وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بیرسٹر فروغ نسیم کی بطور وزیرقانون و انصاف تقرری سے پی ٹی آئی حکومت نے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ وہ سابق فوجی ڈکٹیٹر ، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ٹرائل نہیں کرنا چاہتے ۔ماضی میں یہی فیصلہ نواز شریف کے زوال کا نقطہ آغاز تھا۔فروغ نسیم خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے وکیل دفاع تھے ۔یہ خصوصی عدالت 18نومبر،2013کو ن لیگ کی حکومت بننے کے 6ماہ بعد بنائی گئی تھی۔وہ اب تک کیس سے الگ نہیں ہوئے ہیں لیکن کابینہ رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد وہ اس مقدمے کی پیروی نہیں کرسکیں گے۔دی نیوز نے جب فروغ نسیم سے سوال کیا کہ وہ غداری کے مقدمے کے حوالے سے اب کیا کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں گا، مجھے تھوڑا وقت چاہیئے ، میں بعدازاں اس پر تفصیل سے گفتگو کروں گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی پرویز مشرف کے وکیل ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ ابھی بتانا ضروری ہے؟میں ابھی گھروالوں کے ساتھ ہوں لہٰذا تفصیل سے اس پر بات نہیں کرسکتا۔تاہم ، اب سابق نگراں وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر کا ماننا ہے کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے ۔فروغ نسیم وزیر قانون بننے کے بعد مقدمے کی پیروی نہیں کرسکیں گے ۔ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ وزیر قانون کی حیثیت سے اس مقدمے کو جاری رکھنے یا ختم کرنے سے متعلق رائے دے سکتے ہیں۔اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وہ نہ ہی مقدمے کے حق میں اور نہ ہی اس کے خلاف رائے دے سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ اس مسئلے کو کابینہ بھجوادیا جائے تاکہ مشترکہ فیصلہ کرسکیں۔اب جب کہ خصوصی عدالت دوبارہ سماعت شروع کرچکی ہے اور سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو واپس لانے کی ہدایت کردی ہےلہٰذا اب اس بات کا انحصارعمران خان پر ہے ، نہ صرف بحیثیت وزیر اعظم بلکہ بحیثیت وزیر داخلہ بھی ، کیوں کہ وہ یہ عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔خصوصی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت 20اگست کو ہوگی ، جو کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے پہلا بڑا چیلنج ہوگا۔اگر پی ٹی آئی حکومت ابتدا میں واضح موقف نہیں لیتی پھر بھی اسے کسی پراسیکیوٹر کو نامزد کرنا ہوگا، جیسا کہ ن لیگ کی حکومت نے اکرم شیخ کی تقرری کرکے کیا تھا، جنہوں نے معذرت کرلی تھی۔نئے پراسیکیوٹر کی تعیناتی وزارت قانون کے مشورے پر ہوگی ، جس سے مقدمے سے متعلق حکومت کے لائحہ عمل کا اندازہ ہوجائے گا۔ضمنی طور پر ن لیگ نے غداری کے مقدمے میں2013میں حکومت بنانے کے بعد جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا۔نواز شریف نے 7جون 2013کو حلف اٹھایا تھا ، جب کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 5پٹیشنز کے حوالے سے یہ کیس اٹھایا تھا۔جس کے تقریباً3ہفتے بعد 26جون کو وزیر اعظم نواز شریف نے عدالتی حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈی جی ایف آئی اے کو مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے معمور کریں۔تحقیقاتی رپورٹ 16نومبر کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ۔جس کے بعد سیکریٹری داخلہ کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا اور درخواست کی گئی کہ انکوائری کے لیے خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔جس کے بعد تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس کی قیادت جسٹس فیصل عرب کررہے تھے ، جو کہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں تھے۔ان کا سپریم کورٹ میں ٹرانسفر ہوا تو ان کی جگہ جسٹس نذر اکبر بینچ کا حصہ بنے۔جب کہ دیگر دو ارکان جسٹس یاور علی اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور جسٹس طاہرہ صفدر اب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعینات ہیں۔فروغ نسیم کو اس ہی قسم کے سوالات کا سامنا ہوسکتا ہے جیسا کہ وہ بطور مشرف کے وکیل دفاع اٹھاتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کا قیام غیر قانونی ہے کیوں کہ وزیر اعظم نوا زشریف نے ٹرائل شروع کرنے سے قبل کابینہ سے ایڈوائس طلب نہیں کی تھی۔جب کہ خصوصی عدالت کے ججز مشرف سے تعصب رکھتے تھے ، اس لیے شفاف ٹرائل ممکن نہیں تھا، پرویز مشرف کا تنہا ٹرائل کیا جارہا ہے ، جب کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں دیگر افراد بھی شامل تھے، اس طرح کے دیگر اعتراضات بھی تھے جنہیں پہلے خصوصی عدالت نے اور اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔دریں اثناءن لیگ کی حکومت 2013الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر مشکلات کا شکار ہوگئی کیوں کہ عمران خان نے 126روزکا دھرنا دے دیا تھا۔جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا، جس نے الزامات کی تحقیقات کیں اور فیصلہ دیا کہ کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ن لیگ نے الزام عائد کیا تھا کہ دھرنا دراصل مشرف کے خلاف ٹرائل کے آغاز کی وجہ سے دیا گیا تھا۔اب پی ٹی آئی اقتدار میں ہےاور اس پر تمام اپوزیشن جماعتیں الزامات لگا رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے ، جب کہ مشرف کا ٹرائل بھی دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔کیا اس پر آگے کارروائی ہوگی؟فروغ نسیم اس مسئلہ پر فی الحال گفتگو نہیں کرنا چاہتے ۔تاہم پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود جو کہ عمرا ن خان کی کابینہ کے حصہ ہیں ۔انہوں نے الیکشن کے دنوں میں کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے مشرف کے ٹرائل کی درخواست کی تھی۔اب وقت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ کیا وہ واقعئی ایسا چاہتے تھے یا پھر وہ محض ایک سیاسی بیان تھا۔

تازہ ترین