سیمینارختم ہوتے ہی شرکا میں سے ایک صاحب منتظمین کی جانب لپکے ۔دھیرے سے پوچھا کہ آیا اسٹیج کے پس منظر کے طورپراستعمال ہونے والی فلیکس انھیں مل سکتی ہے۔منتظمین کیلئے سیمینارکے بعداس کی اہمیت ختم ہوچکی تھی مگر پھربھی ان میں سے ایک نے ان کی طلب کی وجہ جاننے کیلئے سوال کیا کہ وہ کیا کریں گے اس کا۔وہ صاحب بولے کہ وہ بیوی ، دو بچوں اور بوڑھی ماں کے ساتھ کرائے کے ایک گھرمیں رہتے ہیں جوایک کمرے، غسل خانہ اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل ہے۔ صحن میں ایک کونے میں چولھا رکھا ہوا ہے اوراسی کھلے باورچی خانہ کووہ اس فلیکس سے چھت فراہم کرنا چاہتے تھے۔
رہائشی امور کے ماہرین عارف حسن اور حمزہ عارف کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی 2.4 فی صدفی برس کی شرح سے بڑھ کر 20 کروڑ 77 لاکھ ہوچکی ہے۔ شہری آبادی میں 2.7 فی صدکی شرح سے اضافہ دیکھنے میں آیا جو تقریباً 7 کروڑ 55 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں خاص طور پر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں پہلی بار فٹ پاتھوں، چورنگیوں، کھلے ہوٹلوں اور پلوں کے نیچے کھلے آسمان تلے لوگوں کو سوتے دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا کہ حکومت ان افراد کو سر پر چھت فراہم کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے وہ لوگ کچی آبادیوں میں جا کر مقیم ہوجاتے ہیں، کیوں کہ جگہ کی کمی، مہنگائی میں اضافہ، گنجائش کے نہ ہونے کے سبب شہر کے وسط میں رہائش اختیار کرنا مشکل ہے۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ شہروں کی توسیع کے سبب قیمتی زرعی رقبہ سکڑ رہا ہے، جس کے باعث شہروں کی ماحولیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، جبکہ پانی کے ذخائر میں کمی اور اس میں آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں کے سبب جغرافیائی صورتحال، جنگلات اور پانی کا قدرتی بہاؤ بھی تباہ ہورہا ہے۔تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ان وجوہات کی بنا پر سیلاب کی آمد اور درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے، خاص کر گنجان آباد علاقے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں ، اور اگر اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی تو ماحولیات کو مزید نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ عدالتوں کی جانب سے کم آمدنی والے طبقے کیلئے گھروں کی کمی ، غیر قانونی آبادکاری کے خاتمے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بدعنوانی کے مسائل کا نوٹس لئے جانے میں اضافہ ہوا ہے۔اسکے علاوہ عدالتوں نے پانی کی قلت، اور صفائی ستھرائی کی صورتحال کا نوٹس لیکر اس پر خصوصی ٹریبونل بھی قائم کیے ہیں، تاہم موثر اقدامات کا اب تک انتظار ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہائشی سہولیات کی قلت ایک کروڑ یونٹ ہے اوراس کمی میں ، شہری علاقوں میں خاص طورپر، اضافہ ہو رہا ہے۔ سالانہ نئی طلب اندازاً چار لاکھ سے سات لاکھ یونٹس کے درمیان ہے جب کہ ہرسال تقریباً ایک لاکھ سے تین لاکھ پچاس ہزارمکان تعمیر کیے جاتے ہیں۔پرچہ لگا ہے کہ نئی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت میں بے گھر افراد کیلئے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرے گی۔خوب۔ مگر کیا رہائش کا حق اینٹ گارے کی فراہمی تک محدود ہے؟
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق ہرشخص ایک معقول معیارزندگی کا حق رکھتا ہے جواس کے خاندان کی صحت اور فلاح وبہبود کی ضمانت فراہم کرسکے۔ آئین پاکستان کا وعدہ ہے کہ ریاست جنس، ذات، رنگ اور نسل سے بالاترہوکرمعیارزندگی بہتربنا کر، عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گی۔ مناسب رہائش کا انسانی حق صرف چاردیواروں اورایک چھت کا نام نہیں۔یہ ایک ایسا حق ہے جوہرعورت، مرد، جوان اور بچے کوامن اورعزت کے ساتھ کسی معاشرت میں محفوظ اور مامون زندگی کے پائیدارحصول کو یقینی بناتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے مناسب رہائش کے حق کی تشریح یوں بتائی گئی ہے۔ ہر شخص کوکسی نہ کسی میعاد تک جبری بے دخلی،ایذا اور دوسرے خطروں کے خلاف قانونی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔رہائش سے متعلق ذاتی یاگھریلو اخراجات اتنے زیادہ نہ ہوں کہ دوسری بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، تعلیم اور صحت کی خدمات تک رسائی کے خاطرخواہ حصول پر کوئی زد آئے۔ مناسب جگہ ہو اور سردی، نمی، گرمی، بارش، طوفان اورصحت کیلئے خطرات، ڈھانچے کے خدشات اور امراض سے تحفظ ہو۔رہائش نامناسب تصورہوگی اگراس میں رہنے والے محفوظ پینے کے پانی، مناسب صفائی ستھرائی، کھانا پکانے، گھرگرم اورروشن رکھنے کیلئے توانائی کے ذرائع، نہانے دھونے، خوراک محفوظ کرنے اورکوڑا کرکٹ کی تلفی کی سہولیات سے محروم ہیں۔رہائش نامناسب تصورہوگی اگرپس ماندہ اور محروم طبقات مثلاً غریب، امتیازی سلوک کا شکار افراد، معذورافراداورقدرتی آفات کا شکارافراد کی مخصوص ضروریات کومدنظرنہ رکھا گیا ہو۔مناسب رہائش سے ایسی رہائش بھی مراد ہے جہاں سے ملازمت، صحت کی سہولیات، اسکولوں اور دوسری سماجی سہولیات تک رسائی آسان ہواوریہ آلودہ جگھوںپریاآلودگی کے ذرائع کے قریب نہ ہو۔مناسب رہائش کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جہاں ثقافتی شناخت اورطرززندگی کے اظہار کا احترام ہو۔
یوں گھر صرف رہنے اور دیکھے جانے والی جگہ کا نام نہیں۔یہ لوگوں کو ان کی جڑیں، شناخت، وابستگی اور جذباتی خوشحالی بھی فراہم کرتا ہے۔ایسے گھروں کی فراہمی ریاست کا مرکزومحورہونا چاہیے ورنہ بے گھری میں اضافہ ہوتا رہے گا، فٹ پاتھ پر، پلوں کے نیچے، اپنے بازو کا تکیہ بنا کرسوتے لوگوں کی تعداد بڑھتی رہے گی، استعمال شدہ فلیکس سے چھت تعمیرہوتی رہے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)