محمد عبدالمتعالی نعمان
’’حق‘‘کی جمع حقوق ہے۔ ’’حق‘‘ کے لغوی معنیٰ سچ، واجب، درست، بجا، جائز اور انصاف کے ہیں۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو سو ستائیس مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ حق کی ضد باطل ہے۔ ہر وہ چیز ’’حق‘‘ ہے جو قانون فطرت کے مطابق پیدا کی گئی ہو۔ بہ الفاظ دیگر ’’حق وہ ہوتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہو اور جس کا انکار کرنا ناممکن ہو‘‘۔
بنی نوع انسان کی پوری تاریخ حقوق کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ جنگیں، معرکے اور معاہدے سب حقوق کی یاد دلاتے ہیں اور ان تمام تر حالات اور واقعات کی تہہ میں ’’حقوق‘‘ کا جذبہ ہی مختلف صورتوں میں کارفرما رہا ہے، جوکہ بہرحال انسانی تقدس و احترام کے باعث نمایاں تر ہے۔
مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا آغاز بارہویں صدی عیسوی 1137ء میں برطانیہ سے ہوا اور اپنے ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے 10دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ’’منشور انسانی حقوق‘‘ پر اس سفر کا اختتام ہوا۔ جس میں وہ تمام حقوق سمودیئے گئے جو مختلف یورپی ممالک کی دستاویز میں شامل تھے یا انسانی ذہن میں آسکتے تھے۔ اقوام متحدہ کے اس منشور کو انسانی حقوق کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے اہم قدم، عظیم تحفہ اور انسانیت کی معراج قرار دیا جاتا ہے۔جب کہ مغربی مفکرین اور ماہرین قانون کی آرا کی روشنی میں اگر اس منشور انسانی حقوق کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس منشور انسانی حقوق کے اوپر قوت نافذہ کا کوئی تصور نہیں، مغربی مفکر ڈاکٹر رافیل بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’یہ نام نہاد معاشی اور سماجی حقوق کوئی بین الاقوامی فرض عائد نہیں کرتے۔‘‘(بحوالہ:محسن انسانیتؐ اور انسانی حقوق ص160)
مغرب کا تصور ’’انسانی حقوق‘‘ علاقائیت، وطنیت، قومیت اور رنگ ونسل کے متعصبانہ نظریے پر مبنی ہے جو کہ سراسر انسانی اخوت اور احترام انسانیت کے یکسر منافی ہے۔اس کے برعکس یہ ایک ابدی حقیقت اور ناقابل تردید شہادت ہے کہ ’’تاریخ انسانی میں حقوق‘‘ کے آغاز و ارتقاء اور اس کے عملی نفاذ کا سہرا انسانیت کے محسن اعظم، رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ کے سر ہے۔ جنہوں نے ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں 9ذی الجہ 10ہجری بروز جمعہ/ 6مارچ 632ء کو ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر میدان عرفات میں جہاں عرب کے گوشے گوشے سےجاںنثاران نبوت یعنی صحابہ کرامؓ شرف ہمرکابی اور زیارت نبویؐ کے جذبہ لافانی کے تحت موجود تھے اور تاحدنظر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ اس موقع پر خاتم الانبیاءﷺ نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا۔ جسے ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آپﷺ نے یہ خطبہ اس وقت ارشاد فرمایا،جب کہ اقوام عالم میں ’’حقوق و فرائض‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کا تصور تک نہ تھا۔اس شاہ کار خطاب کی تاریخی اہمیت، قدر و منزلت اور جلالت شان کے باعث اسے ’’حجۃ الاسلام‘‘، ’’حجۃ البلاغ‘‘،’’حجۃ التمام‘‘ اور’’ حجۃ الکمال‘‘ کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں نبی کریم ﷺنے حقوق انسانی کا جو عظیم ترین منشور (چارٹر) پیش کیا، وہ نہ صرف اسلامی، بلکہ بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں بنیادی انسانی حقوق و فرائض کا مکمل تحفظ اور احاطہ کیا گیا ہے۔ چودہ سو سال پہلے پیش کیا جانے والا یہ چارٹر ملکوں، نسلوں، قبیلوں، رنگوں، زبانوں اور زمانوں کی حدود پھاند کر پوری انسانیت کے تمام ادوار کو اپنی حدود میں سمیٹ لیتا ہے۔اس بے مثال خطبے میں حقوق انسانی پر مشتمل کم و بیش چالیس دفعات شامل ہیں جو امن و آشتی، عدل و مساوات اور انسانیت کے احترام و تحفظ کی ضامن ہیں اور مغربی دنیا کے ’’انسانی حقوق‘‘ کے آغاز و ارتقاء تک تمام انسانی حقوق کے منشور اور دستاویز پر فوقیت و اہمیت رکھتی ہیں۔
یہ خطبہ تعلیمات اسلامی کا خلاصہ اور لُبّ لباب ہے، جس میں زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ اسلام کے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور تمدنی احکام کا جامع مرقع ہے۔ جس کی مذہبی اور اخلاقی حیثیت ابدی اور لازوال ہے۔ یہ بلاشبہ انسانی حقوق اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ’’دائمی ورلڈ آرڈر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
عالمگیریت، تاریخی عظمت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اس کی اہمیت مسلّم ہے۔ اس کی بدولت بنی نوع انسان کو پہلی مرتبہ اتنا ہمہ گیر، جامع، ابدی اور مثالی منشور عطا کیا گیا ،خطبے کی دفعات پر ذیل میں ایک ایک سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے ،تاکہ اس کی اہمیت و عظمت مزید واضح ہوسکے۔
’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کی انفرادیت و جامعیت اور اس میں عطا کردہ انسانی حقوق:٭…انسانی جان، مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا حق۔٭…امانت کی ادائیگی، قرض کی واپسی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔٭…سود کے خاتمے کا اعلان، انسانیت پر احسان عظیم۔ ٭…پُرامن زندگی اور بقائے باہمی کا حق۔٭…ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق٭…انسانی جان کے تحفظ اور قصاص و دیت (قانونی مساوات) کا حق۔٭…انسانی مساوات کا تحفظ اور نسلی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا تاریخی اعلان٭…خواتین سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کا تاریخی اعلان۔٭…غلاموں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کا انقلابی و عملی فرمان۔٭…عالمگیر انسانی مساوات اور مواخات کاحق۔٭…ابدی ضابطہ حیات، آفاقی نظام اور دائمی ورلڈ آرڈر یعنی قرآن و سنت کی پیروی کی صورت میں دین و دنیا/ دونوں جہانوں میں سرخروئی و کامیابی کی نوید۔٭…انسانیت کے اس منشور اعظم کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان عام۔
خطبہ حجۃ الوداع میں عطا کردہ انسانی حقوق کی اس فہرست کو غور سے دیکھنے اور اس کے شاہ کار متن کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم بلامبالغہ اور بلاشبہ، اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ کا یہ واحد منشور اعظم ہے جس میں اتنی وضاحت کے ساتھ حقوق و فرائض کی تعیین کی گئی ہے ، دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایسا منشور انسانیت پیش نہیں کیا گیا۔
مغربی مفکرین بھی خطبہ حجۃ الوداع کی تاریخ و قانونی اہمیت و عظمت پر متفق ہیں۔یورپ کا مشہور مورخ اور فلسفی لارڈ ایکٹن اس کے متعلق کہتا ہے ’’اگر یہ کہا جائے کہ آسمان نے روز و شب کی ہزاروں کروٹیں بدلیں، لیکن احترام انسانیت اور حقوق انسانی کے لیے اس سے زیادہ پُردرد اور پُرخلوص آواز نہیں سنی تو یقیناً اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا‘‘۔
عہد حاضر کے نامور غیرمسلم سیرت نگار جان بیگٹ (جنرل گلب پاشا) (John Bagot Gloob Pasha) سیرت طیبہؐ پر اپنی کتاب دی لائف اینڈ ٹائم آف محمدؐ میں لکھتا ہے ’’مورخین نے حضورؐ کے اس تاریخی خطبہ (خطاب) کو محفوظ کرلیا ہے۔ آپؐ کا یہ آخری حج اپنی نوعیت میں ایک امتیازی شان لیے ہوئے ہے۔ آپؐ نے جو کچھ بھی اس تاریخی موقع پر کہا، اس کی پیروی ہمیشہ ہوتی رہے گی۔(محسن انسانیتؐ اور انسانی حقوق ص115)
پیغمبر اعظم ،محسن انسانیت ﷺکا ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل اور امتیازی مقام رکھتا ہے کہ اس میں کیے گئے تمام اعلانات، ہدایات اور تعلیمات کو آپﷺ کی حیات طیبہ میں ہی نافذالعمل کیا گیا اور مثالی مدنی معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے اصولوں پرمبنی دستور کا جزو لاینفک بنادیا گیا۔
بالخصوص عہد نبویؐ کے مدنی معاشرے ، عہد خلافت راشدہ اور بعد کے مثالی اسلامی ادوار میں جس طرح عمل کیا گیا۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس پر گواہ ہیں۔یہ تعلیمات نبویؐ کا فیضان ہے کہ یہ عدیم النظیر اسلامی ادوار نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے بھی روشن ترین باب ہیں جو اقوام عالم کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے اور رہتی دنیا تک انسانیت اس سے رہنمائی حاصل کرتی اور مستفیض ہوتی رہے گی۔بقول حافظ لدھیانوی:۔
جلالِ بادشاہی نے لباسِ عجز پہنا ہے
درِ اقدسؐ پہ ہے قربان عزوجاہِ سلطانی
وہ اپنی خوبیوں میں ہے جہاں میں یکہ و تنہا
صفات و ذات میں کوئی نہیں، کونین میں ثانی
عطا کی سرفرازی ان کو جو پامال انسان تھے
غلاموں کو سکھائے اس نے اندازِ جہاںبانی
بقول اقبالؒ:۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ