حاجی محمد حنیف طیب
مسئلہ قربانی پر غور کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ظہورِ اسلام سے قبل یہ دنیا شر ک وکفرکی تاریکی میں میں گم تھی۔حجروشجر،چاند اور سورج کی گھرگھر پوجاہورہی تھی اور پرستش وبندگی کے جتنے طریقے ہوسکتے ہیں،وہ سب معبود اِن باطل کے لیے مخصوص ہوگئے تھے،مشرکین نے مالی وبدنی عبادتیں بتوں کے لیے مقرر کرلی تھیں،جس میں سجدے اور قربانی کوبڑی نمایا ں حیثیت حاصل تھی۔مشرکین بتوں کوسجدہ کرتے تھے اور معبود ان باطل کے اصنام اور ہیکلوں پر قربانیاں چڑھاتے تھے ۔
دین اسلام خالص توحید پرمبنی ہے،جب وہ آیا تو اس نے شرک وکُفر کو بیخ وبن سے اُکھاڑ دینے کے لیے عبادت مالی وبدنی کی تمام صورتوں کا رُخ غیر اﷲسے پھیر کر صرف ایک اﷲکی طرف کردیا اور توحید خالص کے قیام کے لیے پرستش وبندگی کی جتنی صورتیں خدا کے شایانِ شان تھیں،اِنہیں صرف خدا کے لیے مخصوص کردیا ،کیوںکہ شر ک کو مٹانے اور بُت پرستی کو ختم کرنے کے لیے بہترین صورت یہ ہی ہوسکتی تھی کہ جو عبادتیں مختلف شکلوں میں رائج ہوں،ان سب کو اﷲکے لیے خاص کردیا جائے،کیوںکہ اگر ان عبادات کے طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو بھی غیر اﷲکے لیے باقی رہنے دیا جاتا تو اس طرح توحید خالص کا قیام ناممکن تھا ۔
چناںچہ اسلام نے اسی حکمت کے تحت نمازِ پنجگانہ مقرر کی،جو عبادت بدنی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اور متعدد شعائر دین کا مجموعہ ہے اور اسی حکمت کے مطابق عبادت ِ مالی کے نمایاں پہلو (معبود ان باطل کے نام پر جانور ذبح کرنا )کوبتوں سے ہٹا کر خدا کے لیے کردیا اور ہدایت دی کہ مشرکوں کی نماز،عبادات اور قربانی بتوں کے لیے ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ساری مالی وبدنی عبادت صرف خدا کے لیے،اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قربانی شرک کی تباہی اور توحید کی بقا کے لیے کتنی ضروری ہے۔قربانی وہ عظیم الشان عبادت ہے جس کے ذریعے شر ک کی بیخ کنی ہوتی ہے اور توحید خالص کو دوام حاصل ہوتا ہے۔اب اگر منکر ینِ سنت کو قربانی کی یہ حکمت الٰہی سمجھ میں نہ آئے تو انہیں اپنے فہمِ ناقص کا ماتم کرنا چاہیے ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دین کے مآخذ قرآن وحدیث دونوں ہیں۔ اگر بالفرض عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم قرآن میں نہ بھی ہوتا تو اس کی مشروعیت کے لیے صرف حضور اکرم ﷺکا حکم ہی کافی تھا ،کیو ںکہ اسلام میں حضور ِاکرم ﷺکا حکم بھی وہ حیثیت رکھتا ہے جو اﷲکے حکم کی حیثیت ہے ۔
حضرت براءؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : عید کے دن سب سے پہلا کام نماز کے بعد قربانی ہے ،جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس نے ہماری سنت کو پالیا۔ (بخاری)
ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینے میں قربانی کے جانور خوب کھلاپلاکر موٹے کرتے تھے اور عام مسلمانوں کا بھی یہی قاعدہ تھا ۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں ۔حضوراکرمﷺ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دوہی مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا تھا ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم مدینے میں قربانی کے گوشت کو نمک لگا کر رکھ دیا کرتے تھے اور پھر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے تھے ۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں ۔حضور ﷺ اکرم مدینے میں دس سال مقیم رہے ۔اس عرصے میں آپ نے ہر سال قربانی کی ‘‘(مشکوٰۃ۔ترمذی)
روایت کے مطابق حضور اکرم ﷺ قربانی کے لیے دومینڈھے خریدتے ۔خوب موٹے تازے بڑے سینگوں والے،چت کبرے ،پھر جب آپ نماز پڑھ چکتے اور خطبے سے فارغ ہوجاتے تو آپؐ انہیں ذبح فرماتے تھے۔ (مسند احمد )(یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ حج میں بقر عید کی نماز ہی سرے سے نہیں ہوتی،اس سے یہ واضح ہو اکہ حضور اکرمﷺ جو قربانی فرماتے تھے وہ بقر عید کی قربانی ہوتی تھی اور اس کا تعلق لازماًمکہ کے علاوہ دوسرے مقام سے تھا ۔)
حضور اکرم ﷺنے فرمایا: دسویں ذی الحج میں ابن آدم کا کوئی عمل اﷲ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پیارا نہیں ۔قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کو پہنچ جاتا ہے،لہٰذاقربانی خوش دلی سے کرو ۔(ابو داؤد، ترمذی ،ابن ماجہ )
حضور ﷺ نے فرمایا:جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔(ابن ماجہ)
قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی کا ثواب ملتاہے ۔(ابن ماجہ)