ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
’’حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے، تاریخ کے اوراقاس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں‘‘
’’عیدالاضحیٰ‘‘اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر، حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور ان کے عظیم فرزند، سیّدنا اسمٰعیلؑ کے مثالی جذبۂ اطاعت، تسلیم و رضا، عزیمت و استقامت، جاں نثاری و فدا کاری کی علامت، وہ عظیم اور تاریخ ساز قربانی کی یادگار ہے، جو اُنہوں نے پیش کی، یہ وہ قربانی ہے، جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس کی تائید و تصدیق خود اللہ عزّوجل نے اپنے ارشاد ’’وَفَدَینَاہُ بِذِبحٍ عظیم‘‘ اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنا دیا، کے ذریعے فرمائی۔اس عظیم قربانی نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کے بے مثال جذبۂ اطاعت، جُرأت و استقامت اور عظمت و جلالت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔
تورات اور قرآنِ کریم دونوں سے یہ ثابت ہے کہ ملّتِ ابراہیمی کی حقیقی بنیاد قربانی تھی، یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پیغمبرانہ اور رُوحانی زندگی کی خصوصیت تھی،اسی امتحان اور آزمائش میں پورا اُترنے کے سبب وہ اور اُن کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال کی گئی، چناںچہ تورات کی کتاب پیدائش (22، 16تا 18) میں ہے،’’خدا وند فرماتا ہے، اس لیے کہ تُونے ایسا کام کیا اور اپنا بیٹا، ہاں، اپنا اکلوتا بیٹا دریغ نہ رکھا، میں نے قسم کھائی کہ میں برکت دیتے ہی تجھے برکت دوں گا۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں ہجرت، دین پر استقامت اور عظیم قربانیوں سے عبارت ہے،اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ کا یہ جذبۂ ایمانی اس قدر پسند آیا کہ اسے ایمان کا حقیقی معیار قرار دیا، یہی ایمانی جذبہ ہر دور کا ایمانی معیار اور ہر عہد کی کسوٹی ہے۔
دین کی دعوت، عقیدۂ توحید کی عظمت اور بُت شکنی کی پاداش میں آپ کو بادشاہِ وقت نمرود نے آگ میں ڈال دیا، لیکن آپؑ استقامت کے ساتھ دین کی عظمت اور عقیدۂ توحید کی سربلندی کے لیے پوری طرح حق پر ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان جاری ہُوا :’’ہم نے حکم دیا کہ اے آگ، سرد ہوجا اور ابراہیمؑ پر (مُوجب) سلامتی بن جا۔‘‘(سُورۃ الانبیاء 69)اقبالؔ نے اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہُوئے کیا خوب کہا ہے ؎
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِگُلستاں پیدا
قرآنِ پاک میں ایک موقع پر فرمایا گیا :(ترجمہ) ’’اور جب ابراہیمؑ کے پروردگار نے چند باتوں میں اُن کی آزمائش کی، تو پھر اُنہوں نے اسے پورا کیا، تو اللہ نے اُن سے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘(سُورۃ البقرہ؍ 124)
مزید ارشاد فرمایا :’’اور ہم نے ابراہیمؑ کو دنیا میں چُنا اور وہ آخرت میں یقیناً نیکوں میں سے ہیں، جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ اپنے کو سپردکردو، تو انہوں نے کہا، میں نے اپنے آپ کو دنیا کے پروردگارکے سپردکردیا۔‘‘
’’سُورۃ النحل‘‘ میں فرمایا گیا : ’’بے شک، ابراہیمؑ لوگوںکے امام (اور) اللہ کے فرماں بردار تھے، جو ایک طرف کے ہورہے تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے،اُس کی نعمتوںکے شُکرگزار تھے، اللہ نے اُنہیں برگزیدہ کیا تھا، اور اپنی سیدھی راہ پر چلایا تھا، اور ہم نے انہیں دنیا میں بھی خُوبی دی تھی اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوںگے۔‘‘(سُورۃ النحل؍ 122-120)
یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ مقرّبینِ بارگاہِ الٰہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ وہ نہیں ہوتا، جو عام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے،انہیں امتحان اور آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گُزرنا پڑتا اور قدم قدم پر جان نثاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، حضرت ابراہیمؑ بھی چوںکہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور نبی تھے،اس لیے انہیں بھی مختلف امتحانات اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان اور آزمائش میں کامل و مکمّل ثابت ہُوئے، جب انہیں نمرودکے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تو اُس وقت جس صبر و رضا کا انہوں نے ثبوت دیا اور جس عزم و استقامت کو پیش کیا، وہ ان ہی کا حصّہ تھا، اس کے بعد جب حضرت اسمٰعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا، تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا، آزمائش اور سخت آزمائش کا مرحلہ تھا، بُڑھاپے اور پیرانہ سالی کی دُعائوں اور تمنّائوں کے مرکز، راتوں اور دنوں کی دُعائوں کے ثمر، قلب و نظر کے چشم و چَراغ، حضرت اسمٰعیلؑ کو آپ صرف حکمِ الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب و گیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں،اور پیچھے مُڑکر بھی نہیں دیکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقتِ پدری جوش میں آجائے اور حکمِ ربّانی کی تعمیل میں لغزش ہوجائے۔ان دونوںکٹھن منزلوں کو عبورکرنے کے بعد اب تیسری آزمائش اور سب سے کٹھن امتحان کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے زیادہ سخت اور جاںگسل ہے۔
حضرت ابراہیمؑ مسلسل تین رات یہی خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اے ابراہیمؑ ، تُو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کردے۔‘‘
’’حضرت ابراہیمؑ ،اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم و رضا کے پیکر تھے، لہٰذا وہ اطاعت و رضا کا پیکر بن کر تیار ہوگئے کہ اللہ کے حکم کی فوری تعمیل کریں، تاہم چوںکہ یہ معاملہ اُن کی اپنی ذات سے وابستہ نہ تھا، بلکہ اس امتحان اور آزمائش کا دوسرا جُزو، وہ بیٹا تھا، جس کی قربانی پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لہٰذا باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور خُدا کا حکم دونوں سُنائے، حضرت اسمٰعیلؑ اولوالعزم، ثابت قدم، عزیمت و استقامت، تسلیم و رضا اور اطاعتِ ربّانی کے پیکر، عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کے فرزند تھے، لہٰذا فوراً انہوں نے سرِ تسلیم خم کردیا اورکہا کہ اگر خُدا کی یہی مرضی ہے، تو آپ اِن شاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ (مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی؍ قصص القرآن، جِلد اوّل 164)
قرآنِ کریم میں اس واقعے کا ذکر اس طرح آیا ہے: ’’جب وہ (اسمٰعیلؑ) ان کے ساتھ دوڑنے (جوانی کی عمر) کو پہنچے تو ابراہیمؑ نے کہا کہ بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہُوںکہ (گویا) تمہیں ذبح کررہا ہوں، تم بتائو کہ تمہارا کیا خیال ہے، انہوں نے (اسمٰعیلؑ) کہا کہ ابّا جان،آپ کو جو حکم ہُوا ہے، وہی کیجیے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیںگے۔‘‘ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے انہیں پکارا کہ اے ابراہیمؑ، تم نے اپنے خواب کو سچّا کردکھایا، ہم نیکو کاروںکو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، بِلاشبہ، یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنادیا اور بعد میں آنے والوں میں ابراہیمؑ کا ذکرِ خیر (باقی) چھوڑ دیا کہ ابراہیمؑ پر سلام ہو، ہم نیکو کاروںکو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الصّافات؍ 102 تا 110)
علّامہ سیّد سلیمان ندوی کیا خُوب لکھتے ہیں: ’’یہ قربانی کیا تھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی، بلکہ رُوح اور دل کی قربانی تھی۔‘‘
یہ ماسویٰ اللہ اور غیر کی محبّت کی قربانی، خدا کی راہ میں تھی‘ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی‘ یہ خدا کی اطاعت‘ عبودیت اورکامل بندگی کا بے مثال منظر تھا‘ یہ تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کا وہ امتحان تھا‘ جسے پورا کیے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی‘ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا، نہ تھا‘ بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات‘ خواہشوں‘ تمنّاؤں اور آرزوؤںکی قربانی تھی‘ خدا کے حکم کے سامنے اپنے ہر ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا‘ جانورکی ظاہری قربانی اُس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشیدِ حقیقت کا ظلِّ مجاز تھا۔(سیّد سلیمان ندوی / سیرت النبیؐ 201/5 )
حقیقت بھی یہ ہے کہ ’’قربانی‘‘ دراصل وہ ذبحِ عظیم ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیلؑ کا فِدیہ قرار دیا تھا‘ لہٰذا اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا درحقیقت اپنے آپ کو قربان کرنے کا قائم مقام ہے۔ یہ اس بات کا خاموش اقرار ہے کہ ہماری جان اللہ کی راہ میں نذر ہوچکی ہے‘ اور وہ جب اسے طلب کرے گا‘ ہم بِلاتامّل پیش کردیںگے۔
اسلام کے لفظی معنیٰ اپنے آپ کو سپردکردینا اور اطاعت و بندگی کے لیے گردن جُھکا دینا ہے‘ یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے۔
انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی قربانی کا ثبوت ملتا ہے‘ چناںچہ انسانِ اوّل‘ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن میںکچھ اس طرح ہے: ’’اور سُنا دیجیے‘ انہیں حال آدمؑ کے دو بیٹوں کا سچا‘ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی‘ تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہُوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، تو اُس (قابیل) نے کہا، میں تجھے ضرور قتل کردوںگا‘ اس (ہابیل) نے کہا کہ بے شک‘ اللہ تو پرہیزگاروں ہی سے قبول فرماتا ہے۔‘‘(سُورۃ المائدہ/ 27)
الہامی اور غیر الہامی کم و بیش تمام مذاہب اور معاشروں میں’’قربانی‘‘ کا تصوّر ملتا ہے‘ تاہم یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے‘ تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
قرآنِ کریم نے’’وَفَدَینَاہُ بِذِبحٍ عظیم‘‘ ہم نے اسمٰعیلؑ کا فدیہ ایک عظیم قربانی بنادیا‘ ارشاد فرما کر اس قربانی کی عظمت اور قبولیت کا اعلان کیا‘ اسے عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا۔ خاتم الانبیاء، سرورِکائنات حضرت محمد ﷺ کی اُمّت میں بھی اس عظیم جذبے اور حضرت ابراہیمؑ کی سنّت کو عبادت کا درجہ عطا کیا گیا۔ چناںچہ صحابیِ رسولؐ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے بعض صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ ان قربانیوںکی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، یہ تمہارے (رُوحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت ہے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ ،ان قربانیوں میں ہمارے لیے کیا اجر ہے؟ رسول اکرمﷺ نے فرمایا‘ قربانی کے ہر جانورکے بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ (مسندِ احمد‘ سنن ابنِ ماجہ)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا،’’ذی الحّجہ کی دسویں تاریخ کو (یعنی عیدالاضحیٰ کے دن) فرزندِ آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں‘ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں‘ بالوں اورکُھروں کے ساتھ زندہ ہوکر آئے گا‘ اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے‘ پس اے خدا کے بندو! دل کی پوری رضا اور خوشی سے قربانی کیا کرو۔ (جامع ترمذی‘ سنن ابنِ ماجہ)
’’قربانی‘‘درحقیقت ایک عظیم عبادت ہے۔اسلام کے نظامِ عبادات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے اس نظام کا اصل مقصد اسلام کا مطلوب انسان تیارکرنا ہے۔ یہ انسان کو اس ذمّے داری کے لیے تیارکرتی ہے‘ جواللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمارے سپردکی ہے‘ یہ سیرت و کردار کی تعمیرکرتی اور روحانی ترقّی اور اَخلاقی بالیدگی کی راہ ہموارکرتی ہے‘ چناںچہ عبادت کا اصل مقصد یہ ہے کہ نفس کا تزکیہ ہو‘ تقویٰ کی رُوح پیدا ہو‘ اللہ سے تعلّق اُستوار ہو‘ اوراللہ کی اطاعت‘ اُس کی محبّت‘ اُس کی بندگی ہر شے پر غالب آجائے‘ نفس کی اصلاح کے بغیرکوئی اصلاح ممکن نہیں اور نفس کی اصلاح کا حقیقی اور مؤثر ترین طریقہ وہ عبادات ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے مقرر کی ہیں۔
’’قربانی‘‘ درحقیقت اس عہد کی تجدید بھی ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا اور درحقیقت پوری زندگی اللہ کے لیے ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہی ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہے‘ ہم مسلمان اس لیے ہیں کہ ہماری پوری زندگی تسلیم و رضا سے عبارت ہے۔اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی کامل اطاعت‘ تسلیم و رضا کا اظہار ہی درحقیقت ایمان کا تقاضا اور بندگی کی حقیقی علامت ہے ۔
قرآن کریم میں ارشادِ ربّانی ہے :’’اللہ تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون‘ بلکہ اُس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘ (سُورۃ الحج / 37)تسلیم و رضا‘ اعترافِ بندگی اور تقویٰ و پرہیزگاری قربانی کی حقیقی رُوح ہیں‘ تقویٰ ہی وہ عظیم رُوحانی جذبہ ہے، جو بندگی کا حاصل اور تمام اسلامی عبادات کا جُزو ہے۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ قربانی کی حقیقی رُوح کو سمجھتے ہُوئے سنّتِ ابراہیمی کی پیروی میں ہم اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کریں کہ دین کی عظمت و سربلندی‘ اسلام کی ترویج و اشاعت، اسلام کی بقا‘ اُمّتِ مسلمہ کے اتحاد و یگانگت، ملک کی سلامتی اور اسلامی اقدارکے تحفظ کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیںکریںگے۔ دین کی عظمت اور سربلندی کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن‘ سب کچھ قربان کردیںگے اور یہی درحقیقت عید الاضحیٰ کا حقیقی پیغام اور سُنّتِ ابراہیمی‘ قربانی کا حقیقی تقاضا ہے۔