مبشرہ خان
جیسے جیسے یونیورسٹی کا آخری سیمسٹر ختم ہونے لگتا ہے، ویسے ویسے دل میں کئی جذباتوں کا ایک طوفان سااُبھرنے لگتا ہے، ایک طرف دوستوں کا ساتھ چھوٹنے کا دکھ، زمانۂ طالب علمی کے اختتام کا افسوس اور بے فکری کے دنوں کو خیرباد کہنے کا رنج ہوتا ہے، تو دوسری جانب فارغ التحصیل ہونے کی خوشی، خوابوں کے پورا ہونے کا انتظار اور عملی زندگی میں قدم رکھنے کا جوش و جذبہ ہوتا ہے۔ کانووکیشن ہوتے ہی ہر نوجوان کی پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ بس اب جلد از جلد نوکری مل جائے تاکہ عملی زندگی کا آغاز ہو سکے ،عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سب سے زیادہ اہم دن وہ ہوتا ہے، جب پہلی تنخواہ ہاتھ میں آتی ہے۔خوشی و سرشاری کا ایسا عالم جیسےگویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔سب سے پہلے تو دفتر کے ساتھی ہی مٹھائی کا مطالبہ کر تے ہیں اوردوستوں کے تو کیا ہی کہنے وہ تو مہینہ پورا ہونے سے قبل ہی ٹریٹ کی رٹ لگانی شروع کر دیتے ہیںاور یوں مہینے بھر کی محنت کی کمائی مہینے کے آغاز میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔
یوں پہلی تنخواہ گھر یا دیگر کام کی چیزوں پرکم اور فضول چیزوں میں زیادہ صرف ہوجاتی ہے،چوں کہ عموماً عملی زندگی کے آغاز پر نوجوانوں پر گھر کی پوری ذمے داری نہیں ہوتی، والدین بھی گھر میں خرچہ دینے کے لیے زور نہیں دیتے۔ لہٰذا نوجوان بھرپور آزادی سے فضول خرچی کرتے ہیں ،جس کا احساس انہیں بعد میں ہوتا ہے۔یہ فضول خرچی پہلی تنخواہ تک ہی محدود نہیں رہتی، بلکہ ہر مہینے تنخواہ ملنے کے بعد بے جا خرچ کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔جب خود کمانے لگتے ہیں، تو برانڈڈ کپڑے، چیزوں کا شوق زیادہ ہوجاتا ہے۔یہ خرچہ ایک حد میں ہو تو اچھا بھی لگتا ہے، لیکن ذرا سوچیں صرف ان ہی چیزوں میں پیسے خرچ کرنا،تنخواہ کا صحیح مصرف ہے کیا؟اس دور میں جہاں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنا بھی محال ہوتا ہے، کئی نوجوان ٹیوشن پڑھا کریا چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں یہ فضول خرچی کہاں کی عقلمندی ہے۔ اگر ابھی آپ پر معاشی یا گھریلو ذمے داریاں نہیں ہیں،تو اس وقت کو غنیمت جانیں، یہ سنہری موقع ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکتے ، پیسے بچا سکتے ہیں۔ محض خواہشات ، شوق اور آسائشوں کے پیچھے پیسہ برباد کرنا دانش مندی نہیں ہے۔
اگر آپ کے پاس کمپیوٹر ہے ،تولیپ ٹاپ لینا ضروری نہیں ہے،لیپ ٹاپ کی ضرورت صرف ان افراد کو ہوتی ہے جو کمپیوٹر پر دن رات کام کرتے ہیں، جن کو سفر کے دوران کمپیوٹر کی ضرورت رہتی ہے، عام طور پر سب کو اس طرح سے لیپ ٹاپ کی ضرورت نہیں ہوتی ،مہنگے ترین موبائل سیٹ اور لیپ ٹاپ نسل نوکے لیےنمود نمائش کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ہمیں اس دکھاوے کی دوڑ کا حصہ نہیں بننا۔ اپنے اپنے مستقبل، اپنے والدین کی ذمے داریوں اور دکھی انسانیت کے متعلق سوچنا ہے اورمحض سوچنا ہی نہیں عمل بھی کرنا ہے۔
ہمیں بچپن سے بچت کرنے اور پیسے جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مٹی کے چھوٹے سے گلک میں اپنی جیب خرچ اور عیدی کو جمع کرتے، جب وہ بھرجاتا، تو اس کو توڑ کر اس میں سے پیسے نکالتے اور حسب خواہش کوئی بڑا کھلونا، کتاب یا کھیل کا سامان وغیرہ خریدتے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو اس عادت کو گویا گزرے وقتوں کے قصوں کی مانند فراموش کردیتے ہیں۔ حالاں کہ آج اگر بچت کریں گے ،تو کل یہی بچت بہترین مستقبل کی ضمانت ہوگی اور معاشی پریشانیوں سے نجات کا سبب بنے گی۔کئی والدین بچوں کی شادی کے اخراجات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ آپ اس بچت سے والدین کی مدد کرسکتے ہیں، اپنے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں، بچت سے سرمایہ کاری کرکے اس کو کئی گنا بڑھا بھی سکتے ہیں، مثلاً اپنی بچت کی رقم سے سونے کا کوئی زیور یا سونے کے سکے خرید کر رکھ دیں، کیوں کہ سونے کی قیمت دن بہ دن بڑھ رہی ہے، لہٰذا بیچنے پر خاصی بڑی رقم ملے گی۔
غرض یہ کہ اس طرح کے بے شمار ایسے طریقے ہیں ،جن میں اپنی رقم لگاکر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے پاس رقم محفوظ نہیں رکھ سکتے، خرچ ہوجاتی ہے، تو آپ والدین کے پاس رکھوادیں یا کمیٹی ڈال دیں، اس طرح آپ کی رقم محفوظ رہے گی اور جمع ہوتی رہے گی۔نوجوان دوستو!ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ اپنی تنخواہ میں سے ایک چھوٹا سا حصہ غریب اور مستحق افراد کی مدد کے لیے ضرور مختص کریں۔ اس عمل سے آپ کو جو سچی خوشی کا احساس ہوگا وہ پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی سے کئی گنازیادہ ہوگی، کوشش کیجیے اپنی تنخواہ سے ان کی مدد کیجیے کیوں کہ یہ بھی ایک سرمایہ کاری ہے۔