• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ربِ کعبہ کے حضور, سفرِ حرم کی ایک دِل سوزرُوداد

مکّہ مُکرمہ کی خُوب صورت، حَسین، سحر انگیز، شبنمی، بھیگی رات کی درمیانی پہر کی ساعتیں دبے پائوں، نہایت خاموشی کے ساتھ، واپسی کے سفر پر گام زَن ہیں۔ نیلے آسمان پر جھلملاتے، چمکتے ،ننّھے ننّھے ستاروں کے جُھرمٹ میں ہنستا، کِھل کھلاتا روشن چاند بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے اٹکھیلیوں میں مصروف ہے۔ جس کی روپہلی، سنہری روشنی کی آنکھ مچولی نے فضا کا حُسن دوبالا کردیا ہے۔ مَیں، رنگ ونور کی دِل نشیں روشنیوں میں نہائی مکّے کی سب سے پُررونق’’ شاہ راہِ ابراہیم‘‘ پر ہوں، جہاں دنیا بھر سے آئے مختلف رنگ ونسل کے لاکھوں فرزندانِ اسلام’’ لبّیک اللھم لبّیک‘‘کا وِرد کرتے، عالمِ وارفتگی میں جانبِ حرمِ کعبہ رواں دواں ہیں۔ شب کی گہری خاموشی میں تلبیہ کی رُوح پرور صدائیں، دِل کی گہرائیوں میں جذبۂ جُنوں کو مزید بے تاب کررہی ہیں۔ سامنے بابِ فہد کے بلند، خُوب صورت اور پُرشکوہ میناروں سے سبز روشنیوں کی دیدہ زیب مُسکراتی کرنیں، اللہ کے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ دائیں جانب آسمان کی رفعتوں کو چُھوتے بارعب کلاک ٹاور پر تحریر’’اللہ اکبر‘‘ سے قوسِ قزح کی پُرنور شعائیں’’ واحد اور لاشریک‘‘ کی کبریائی بیان کررہی ہیں۔

مَیں حرم کی عمارت کے باہر صحن میں کھڑا، کچھ عرصہ قبل کے مناظر یاد کررہا ہوں کہ جب بیت المعمور کی سیدھ میں کرۂ ارض پر قائم، اللہ کے اس پاک اور مقدّس گھر کو مکّے کے بلند و بالا سیاہ سنگلاخ پہاڑوں نے اپنی آغوش میں سمویا ہوا تھا۔ یہ پہاڑ ہر وقت اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف رہتے، لیکن وقت کے ساتھ، عاشقانِ حرم کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور یہ پہاڑ بیت اللہ کے توسیعی پروگرام کی نذر ہوکر اپنا وجود کھوتے رہے۔ خوش نصیب ہیں وہ کہ جنہیں حرمِ کعبہ میں شرف یابی کی اجازت نصیب ہوئی۔ میری پُشت پر مغرب میں سیاہ پہاڑ ’’جبلِ عُمر‘‘ کی جگہ اب جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کثیرالمنزلہ ہوٹلز اور شاپنگ سینٹرز ہیں، جن کا چاق چوبند عملہ عازمین اور معتمرین کی خدمت میں دن ورات مصروف رہتا ہے۔ بائیں جانب، بابِ فہد سے ذرا آگے شمال میں’’ کوہِ قعیقان‘‘کی جگہ تعمیر کیا گیا، اعلیٰ ترین تعمیرات اور انسانی ذہنی ارتقاء کا حَسین ترین شاہ کار، ’’بابِ عبداللہ‘‘ ہے، جس کی دودھیا رنگ میں نہائی پُرشکوہ عمارت پورے جاہ وجمال کے ساتھ اللہ کے مہمانوں کے سمندرِ بیکراں کو اپنی آغوش میں سمونے کے لیے بے قرار ہے۔ یہاں کی مشک بُو فضائوں، ٹھنڈی، یخ بستہ، معطّر لہراتی ہوائوں کے جھونکے ربّ ِ ذوالجلال کے ڈر اور خوف میں مبتلا، پسینے میں تر عاشقانِ ربّ ِ کعبہ کے وجودِ ناتواں کو اپنی بانہوں میں لے کر احساسِ تحفّظ کے لافانی جذبے سے سرشار کردیتے ہیں اور بے اختیار ہی لبوں پر آتا ہے، ترجمہ:’’ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔‘‘

حرمِ کعبہ کی دہلیز پر: مَیں، حَسین، دِل رُبا رنگوں کی کہکشاں سے مزیّن روشنیوں میں نہائے، بابِ عبداللہ کے نئے بلند میناروں کے حُسن و جمال کے طلسمِ ہوش رُبا میں ڈوبا ہوا، عقیدت و احترام کے لازوال جذبوں سے لبریز، عالمِ بے خودی میں آگے بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اہلیہ کی آواز نے چونکا دیا، ’’ ہم بابِ فہد پر پہنچ چُکے ہیں۔‘‘ زبان سے بےاختیار نکلا ’’بسم اللہ، اللھم فتح لی ابواب رحمتک۔‘‘ اہلِ خانہ کے ہم راہ حرمِ کعبہ میں داخل ہی ہوا تھا کہ اچانک دِل کی بڑھتی دھڑکنوں اور قدموں کی بے ربط چال نے کسی اَن جانے خوف کا احساس دلایا۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ یوں محسوس ہوا، جیسے بھاری اور بوجھل قدم مزید چلنے سے انکار کرتے ہوئے گویا ہیں ’’ہم کب تک تیرے گناہوں کا بوجھ برداشت کریں…؟؟‘‘ ہمیشہ سے تابعےداری میں سب سے آگے رہنے والے اپنے ہی قدموں کی اس اچانک بغاوت پر حیران و پریشان تھا کہ ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ قرآنی آیات لبوں پر آگئیں’’ تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے (یعنی تمام اعضاء) تمہارے خلاف گواہی دیں گے، حالاں کہ تم تو یہ خیال کرتےتھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے کاموں کی خبر ہی نہیں‘‘ (حٰم السجدۃ 22:41) آیتِ مبارکہ کے الفاظ نے خوف و گھبراہٹ میں مزید اضافہ کردیا اور دِل و دماغ غمگین ہوگئے۔ اسی عالمِ افسردگی میں، میری حسرت ویاس سے بَھری نظریں بیت اللہ کے راستے کے تعاقب میں تھیں کہ حرم کی مقدّس ومعطّر ہوائوں نے قریب آکر سرگوشی کی ’’ارے نادان! اللہ رحیم بھی ہے اورکریم بھی۔ وہ تو اپنے بندوں سے، مائوں سے بھی ستّر گُنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے’’ اگر بندہ گناہوں کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے، تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (المائدہ 39:5)۔ جا اور اس کے دربار میں سجدہ ریز ہوجا۔ وہ تیری خطائوں سے درگزر کرے گا‘‘ ان مہربان سرگوشیوں سے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملا۔ خوشامدانہ انداز میں للچائی نظروں سے قدموں کی جانب دیکھا، تو ناراض قدموں کو آمادۂ سفر پایا ’’چل تُو کہتا ہے تو ہم تجھے کعبۃ اللہ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں۔ اب تُو جانے اور تیرا رب‘‘، اس کے ساتھ ہی بوجھل قدم آگے بڑھنے لگے۔

کعبۃ اللہ کے سامنے: میں نمنیدہ نگاہوں، جُھکی نظروں، شرمندہ چہرے، کانپتے وجود اور لرزیدہ قدموں کے ساتھ مطاف کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ تشنگی سے سلگتی نگاہیں کسی مقناطیسی کشش کے تحت اچانک کعبۃ اللہ پر پڑیں، تو یوں لگا کہ جیسے سیاہ ریشم پر سنہری قرآنی آیات سے مزیّن پُرجلال و پُرجمال غلافِ کعبہ بھی ناراض نگاہوں سے شکوہ کررہا ہے اور گویا ہے’’ تُو ہر سال یہاں آتا ہے۔ اللہ سے وعدے کرتا ہے اور مہربان اللہ تیری خطائوں کو معاف فرماکر تیرے گناہ آلود دامن کو اپنی رحمتوں سے بَھر دیتا ہے اور تُو خوشی خوشی بخششوں کے تحفے لے کر واپس جاتا ہے، لیکن چند ہی دن کے عہدِ وفا کے بعد وہی اللہ کی نافرمانیاں۔ تیری نادانیاں اور دنیا کی رنگینیاں، وہی مال و دولت کی ہَوس اور وہی دنیا کی چاہ۔ پھر سے تیری پوٹلی گناہوں سے بَھرنی شروع ہوجاتی ہے، جس میں تکبّر بھی ہے اور رعونت بھی۔ حالاں کہ ربّ ِ کریم کو تو تیرے سارے کرتوتوں کا علم ہے۔ تیرا کون سا بھید ہے، جو اس پر عیاں نہیں۔ ذہن کے دریچوں میں گونجنے والے ان الفاظ سے پورے وجود میں بجلی سی دوڑ گئی۔احساسِ ندامت سے جسمِ ناتواں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ دِل کی دھڑکنوں کی بے ربط آوازیں، سماعتوں سے ٹکرا کر گواہی دے رہی تھیں کہ ہاں، ربّ ِ کعبہ کی قسم! ایک ایک لفظ صحیح ہے۔ ہمارے سجدے بے ذوق و بے کیف، ہماری عبادتیں عشقِ الٰہی سے خالی، ہمارے دِلوں میں ایمان کی حرارت ناپید، ہمارے قول و فعل میں تضاد، ہمارے کردار و عمل میں کھوٹ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری دُعائیں قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں۔ روزانہ لاکھوں فرزندانِ اسلام یہاں آتے ہیں، ربّ العالمین کے حضور گناہوں کی معافیاں بھی مانگتے ہیں اور آیندہ نہ کرنے کے عہدو پیماں بھی کرتےہیں، لیکن پھر واپس جاکر چند ہی دنوں میں سب کچھ بھول کر اپنی پرانی روش پر گام زَن ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے ہماری ذاتی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی اجتماعی معاملات میں۔ شرمندگی و ندامت کے آنسو، سفید داڑھی بھگو رہے تھے۔ آب دیدہ جسم کی کپکپاہٹ نے قریبی ستون کا سہارا لینے پر مجبور کردیا یا یوں کہیے کہ اپنے ناتواں، گناہ گار جسم کو حرم کے مقدّس ستون کی پناہ میں چُھپا لیا۔

ربّ ِ کعبہ کے حضور میں: اس بیش قیمت وقت کے لیے یاد کی گئی تمام دعائیں ذہن کے پردے سے محو ہوگئیں۔ اس متبّرک و محترم دن کے لیے جمع کی ہوئی تمام عرضیاں،گزارشیں دِل کے کسی سیاہ گوشے میں دفن ہوگئیں۔ التجائوں اور مناجات کے تمام الفاظ ٹوٹی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ فرماں برداری میں ہر وقت اور ہر لمحہ سب سے آگے رہنے والی زبان نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ سامنے پُرجلال و پُرجمال کعبۃ اللہ ہے۔ فرشتے منتظر ہیں کہ بندوں کی دعائوں کو شرفِ قبولیت کے لیے ربّ ِ کعبہ کے حضور پیش کریں اور مَیں ان بیش قیمت، اَن مول لمحات میں بے بسی و بے کسی کی تصویر بنا، لاچارگی کے عالم میں رحم کا طالب ہوں۔ اپنی کم مائیگی کے احساس سے رُوح کانپ رہی ہے۔ ہاتھ کاسہ ہائے گدائی بن چکے ہیں۔ بہتے اشکوں کے ساتھ، لرزتے لبوں پر اٹکتے لفظوں میں صرف ایک ہی دُعا ہے،’’ رحم فرما! میرے ربّ مجھے معاف فرما، میری خطائوں، غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تیرا فرمان ہے کہ’’ جو توبہ کرلے اور اپنی حالت درست کرلے، تو اللہ اُسے معاف کردیتا ہے(البقرہ)‘‘، تُو رحیم ہے، کریم ہے، عظیم ہے۔ تو رحمان ہے، مہربان ہے، عفوودرگزر کرنے والا ہے۔ اے حَسین وجمیل کائنات کے تخلیق کرنے والے، تُو احسن الخالقین ہے، تُو ربّ العالمین ہے، نور العارفین ہے، خدائے ذوالجلال ہے۔ تیرے کرم کی کوئی حد نہیں، تیر ے رحم کی کوئی انتہا نہیں۔ کچھ نہ تھا، تَو تُو تھا، اور اگر کچھ نہ ہوتا، تب بھی تُو ہوتا۔ اے معبودِ برحق، اے زمین وآسمان کے مالک، اے ارض و سما کے خالق، اے تمام جہانوں کے داتا، اے ربّ ِ کعبہ، مَیں بدکار ہوں، گناہ گار ہوں، ذلّت میں ڈوبا ہوا ہوں، تیرا مجرم ہوں، مگر امام الانبیاءؐ، رحمتِ دوجہاںؐ، شہنشاہِ کون و مکاںؐ، سرکارِ دو عالمؐ، خلقِ مجسّمؐ، حضور رسالتِ مآب ﷺ کا امّتی ہوں اور تیرا اپنے محبوب ﷺ سے وعدہ ہے کہ اگر پہاڑ کے برابر بھی گناہ ہوں گے، تو امّتیوں کے صدقِ دِل سے معافی مانگنے پر تُو اپنی شانِ کریمی سے اُنہیں معاف کردے گا۔ تُو سراپا رحمت ہے، سراپا محبّت ہے۔ تُو مجھے بلاتا ہے، تَو مَیں آتا ہوں۔ تُو یاد کرتا ہے، تَو میں بھی ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائیں بلند کرتا دیوانہ وار تیرے گھر کی جانب دَوڑ پڑتا ہوں۔ تُو اگر نہ بلائے، تو کس کی مجال ہے کہ تیری اجازت کے بغیر تیرے حرم کے اندر قدم رکھ سکے۔ اے مولائے کائنات، اے ربّ ِ ارض وسماء، اے دونوں جہانوں کو پالنے والے، اب مَیں تیرا مہمان ہوں، میرے ساتھ خصوصی کرم فرماتے ہوئے وہی سلوک فرما، جو تُو اپنے مہمانوں کے ساتھ فرماتا ہے۔ تیرا فرمان ہے کہ’’ تم مجھ سے مانگا کرو، تمہاری دعائیں قبول کروں گا (المومن)۔‘‘ سو، مَیں تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں۔

رنگ ونور کی برسات: مَیں ستونِ حرم سے ٹیک لگائے، آنکھیں بند کیے اپنے ربّ سے محوِ گفتگو تھا کہ اہلیہ کی آواز نے جھنجوڑ ڈالا ’’چلیے، سب انتظار کررہے ہیں۔‘‘ چونک کر ستون کی اوٹ سے کعبۃ اللہ پر نظر ڈالی، تو یوں لگا جیسے غلافِ کعبہ ڈانٹ بَھری مُسکراہٹ کے ساتھ اپنے قریب آنے کا اشارہ کررہا ہے۔ دِل کو حوصلہ اور اطمینان ہوا کہ اذنِ باریابی کا پیغام مل گیا۔ عقیدت و محبّت سے مغلوب، متشکّر نگاہوں میں تیزی سے اُترتے شبنمی قطروں کی جگمگاہٹ کے ساتھ اللہ کے گھر پر نظر ڈالی کہ جہاں بیت المعمور سے نورِ الٰہی برس رہا تھا۔ رنگ ونور کی برسات میں بیت اللہ کا جاہ و جلال نگاہوں کو خیرہ کررہا تھا۔ اللہ کا یہ مقدّس گھر، ہر لمحہ اورہر پَل، یونہی آباد رہتا ہے۔ سفید احرام اور سیاہ غلافِ کعبہ کا حَسین امتزاج صحنِ حرم کے حُسن کو سحر انگیز بنادیتا ہے۔ عاشقانِ الٰہی، پروانوں کی طرح عقیدتوں اور محبّتوں سے نہال، عالمِ وارفتگی میں کعبۃ اللہ کے گرد محوِ طواف رہتے ہیں۔ حجرِ اسود کو چومنے کی تڑپ دیوانگی کی حدود پارکرلیتی ہیں۔ ملتزم پر لپٹے سینہ چاکانِ حرم کی وارفتگی دن رات کے کسی لمحے کم نہیں ہوتی۔ بابِ کعبہ کی عفّت مآب چوکھٹ تشنگانِ عشق کے مچلتے ولرزتے وجود کے لیے سُکون اور قبولِ دعا کی جگہ ہے۔ مقامِ ابراہیمؑ سے قریب تر ہوکر سجدہ ریز ہونے کی آرزو اور حطیم میں میزابِ رحمت کے نیچے نوافل ادا کرنے کی جستجو، ہوش و ہواس کی آخری حدود کو چُھو لیتی ہے۔ ان مقامات پر انسانی خود غرضی تقدّس واحترام کی تمام عظیم روایات کو پامال کردیتی ہے۔

صحنِ مطاف میں: مَیں سیاہ غلاف میں ملبوس کعبۃ اللہ کے جاہ و جلال، رُعب اور اپنی کم مائیگی کے احساس میں غرق، کانپتے وجود کے ساتھ، آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترتا مطاف کے صحن میں پہنچا۔ اہلِ خانہ منتظر تھے، سب کو ساتھ لے کر مطاف کے سفید سنگِ مَرمَر کے ٹھنڈے، شفّاف فرش پر مسحور کُن مشک بُو فضائوں میں ذکرِ الٰہی میں مستغرق زائرین کے درمیان سے بچتا، بچاتا حجرِ اسود کے سامنے پہنچا۔ یہ وہی جنّت کا سفید یاقوت ہے کہ جسے حضور ختمی المرتبتؐ، سیّد المرسلینؐ، سرورِکونینؐ، سرتاجِ انبیاء ﷺ نے اپنے مقدّس و محترم ہاتھوں سے نصب فرما کر اہلِ قریش کو آپس کی خوف ناک جنگ کی تباہی سے بچالیا تھا۔

طواف کی ابتداء: حجرِ اسود کا استلام سنّت ہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ اگر حجرِ اسود پر رَش زیادہ ہو، تو دُور ہی سے استلام کرلو۔‘‘ احرام کی حالت میں طواف شروع کرنے سے پہلے دائیں کندھے کو کھولنے کا حکم ہے، اسے ’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں۔ اضطباع، نیّت، حجرِ اسود کے استقبال اور استلام کے بعد، اپنے دائیں ہاتھ سے پہلے چکر کی ابتدا کی۔ مَردوں کو پہلے تین چکروں میں پہلوانوں کی طرح اَکڑ اَکڑ کر چلنے کا حکم ہے، اسے ’’ رمل ‘‘ کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے اہلِ حجاز، یثرب کےلوگوں کو ’’مردِ بیمار‘‘ گردانتے تھے، لیکن سرورِ کائنات ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اہلیانِ مدینہ کے تمام آلائش و امراض رفع ہوگئے، لہٰذا، آپؐ نے دورانِ طواف سیدھا کاندھا کُھلا رکھنے اور اَکڑ کر چلنے کی تاکید فرمائی تاکہ حجازِ مقدّس سے اہلِ مدینہ کے مردِ بیمار ہونے کا سابقہ تصوّر ختم ہوسکے۔ سو، آج تک اسی سنّت کی پیروی کی جاتی ہے۔ نفلی طواف کے دوران اضطباع اور رمل کا عمل نہیں کیا جاتا۔ ایک روایت کے مطابق، رکنِ یمانی پر ستّر فرشتے آنے والوں کا استقبال کرتے ہیں اور دعائوں کے ساتھ’’ آمین‘‘ کہتے ہیں۔ حجرِ اسود پر استلام کے بعد ایک چکر مکمل ہوگیا۔ دِل چاہا کہ مَیں بھی حجرِ اسود کو بوسہ دوں، لیکن وہاں موجود معتمرین کی بے صبری، بے تابی، دھکم پیل، گستاخی و بے ادبی دیکھ کر خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی ہمّت نہ ہوسکی۔ طواف کے سات چکر اپنے ربّ سے توبہ واستغفار، دعائیں ومناجات اور التجائیں وفریاد کرتے ہوئے پورے کیے۔ حجرِ اسود پر آٹھواں استلام کیا، کُھلے ہوئے دائیں کاندھے کو ڈھانپا، ملتزم پر حاضری کے لیے آگے بڑھے، یہاں بھی عاشقانِ الٰہی کا جنون اپنے عروج پر تھا۔ ویسے بھی ملتزم پر خوش بُو لگی ہوتی ہے اور ہم حالتِ احرام میں تھے، لہٰذا کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر ربّ ِ کائنات کے حضور دعائوں کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ اپنی ذاتی دعائوں کے بعد بے اختیار مُلکی حالات اور امّتِ مسلمہ کی تباہ حالی و بربادی کا درد ناک منظر نگاہوں کے سامنے آگیا۔ شام کی تباہی وبربادی، کشمیر، عراق، یمن، تیونس، لبنان، فلسطین، لیبیا، افغانستان، مصر، صومالیہ اور برما پرڈھائے جانے والے یہود و نصاریٰ اور ہنود کے انسانیت سوز مظالم، اپنوں کی غدّاریاں، غیروں کی سفاکیاں اور بربریت، ڈاکٹر عافیہ اور اس جیسی نہ جانے کتنی معصوم مسلمان بچّیوں پر اغیار کی جیلوں میں وحشیانہ سلوک، بے بس و بے حس مسلمان حکم رانوں کی عیاشیاں، امّتِ مسلمہ کی بے حسی۔ ربّ ِ کعبہ کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دُعا کی،’’ اے اللہ! آج مسلمان گم راہی کی دلدل میں گردن تک دھنس چُکے ہیں، ان کے دِلوں میں عشقِ الٰہی کی آگ بجھ چُکی ہے، اقوامِ عالم میں نہ اُن کی کوئی عزّت ہے، نہ کوئی وقار۔ یہ دنیا کی دھتکاری ہوئی قوم بن چُکے ہیں۔ اے ربّ ِ کعبہ ! اب تو ذلّت و رسوائی کی انتہا ہوچکی۔ مسلمانوں پر اپنا رحم و کرم فرمادے۔ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برسادے۔ اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ یہ تیرے نام لیوا ہیں کہ جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں تیری وحدانیت کا پیغام پہنچایا۔ کیا صحرا، کیا بیابان، کیا دشت اور کیا دریا۔ کیا پہاڑ، کیا سمندر ، ہرجگہ تیری کبریائی کے ڈنکے بجائے۔ افریقا سے یورپ تک تیری بادشاہت کے جھنڈے گاڑے۔ آج پھر منتظرِ چشمِ کرم ہیں کہ دوبارہ سے کوئی خالد بن ولیدؓ، صلاح الدّین ایوبی اور محمود غزنوی ان کی صفوں سے نمودار ہو۔

مقامِ ابراہیمؑ پر نوافل: ملتزم پر دعائوں سے فارغ ہوکر مقامِ ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل’’تحت الطواف‘‘ ادا کیے۔ مقامِ ابراہیمؑ پر سنہری دیدہ زیب جالیوں کے اندر نصب اس جنّت کے یاقوت پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی تھی۔ اللہ جل شانہ نے آج سے پانچ ہزار سال پہلے اس پتھر میں جدید ترین خود کار سیڑھی کی خصوصیات پیدا فرمادی تھی۔ آج بھی اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے قدموں کے نشان ہیں۔ تعمیرِ کعبہ کے بعد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اسے بابِ کعبہ کے ساتھ حجرِ اسود کے قریب رکھ دیا تھا، لیکن زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر حضرت عُمرفاروقؓ نے اسے موجودہ جگہ نصب فرمایا۔ اس وقت یہ حجرِ اسود اور رکن عراقی کے درمیان، کعبہ کی دیوار سے 14 میٹر کے فاصلے پر رونق افروز ہے۔

آبِ زَم زَم کی فضیلت: نوافل سے فارغ ہوکر آبِ زَم زَم پیا۔ آبِ زَم زَم خُوب پیٹ بَھر کر پینا سنّت ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ’’ نبی کریمﷺ زَم زَم پیتے وقت یہ دُعا پڑھتے تھے، ترجمہ’’ اے اللہ! مَیں تجھ سے مانگتا ہوں علمِ نافع، رزقِ کشادہ اور تمام بیماریوں سے شفاء‘‘۔ زَم زَم دُعا بھی ہے، دوا بھی۔ غذا بھی ہے اور شفاء بھی۔ حضرت جابرؓ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’زَم زَم کے پانی کو جس مقصد سے پیا جائے، وہ مقصد اور حاجت ضرور پوری ہوتی ہے (ابنِ ماجہ)۔‘‘

صحنِ حرم کا نظارہ: سعی کے لیے صفا کی جانب جانے سے پہلے نویں استلام کے لیے حجرِ اسود کے سامنے مطاف کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوا، تو بقعۂ نور صحنِ حرم کی پُربہار، بابرکت اور ایمان افروز رونقیں متجسّس نگاہوں کے سامنے تھیں، جہاں اللہ کی رحمتوں کی تجلّیاں بارش کی طرح برس رہی تھیں۔ رات کے اس پہر، رنگ و نور میں نہائے صحنِ حرم کی جاودانی ساعتوں نے اپنے سحر میں جکڑلیا۔ یہ صحنِ حرم، چودہ سو برس سے یونہی آباد ہے۔ اس وقت بھی یہاں دنیا کے چپّے چپّے سے ہر نسل، ہر مُلک، ہر قوم کے انسانوں کا سمندرِ بیکراں ہے۔ سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبریز ہیں۔ بچّے، بوڑھے، جوان سب ذکرِ الٰہی میں مستغرق ہیں۔ کوئی طواف کررہا ہے، تو کوئی تلاوت۔ کوئی نفل پڑھ رہا ہے، کوئی خانۂ کعبہ کے نور سے اپنی آنکھوں کی بصیرت بڑھارہا ہے، تو کوئی گریہ زاری میں مصروف ہے، کوئی ربّ کے حضور گڑگڑارہا ہے، تو کوئی التجائیں کررہا ہے۔ آج سب فقیرانِ بے نوا ہیں، سب نے جھولیاں پھیلائی ہوئی ہیں، سب ربّ کے فضل و کرم کے منتظر ہیں۔ ہاں، ان میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو سیلفیاں بناکر نہ صرف اپنا قیمتی وقت ضایع کررہے ہیں، بلکہ اللہ کی ناراضی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اللہ کے اس دربار میں عربی بھی ہیں اور عجمی بھی۔ کالے بھی ہیں اور گورے بھی۔ امیر بھی ہیں اور غریب بھی؎نہ کوئی شہنشاہ عالی مقام، نہ کوئی گدائے بوریا نشین…تیرے دَر پر آئے، تو سبھی ایک ہوگئے۔

ادائی سعی: کیف و سُرور کی لذّتوں سے لبریز، عقیدتوں سے نہال، محبّتوں سے مالا مال، مطاف کے رُوح پرور حَسین منظر کو اپنی مشتاق نگاہوں میں سموئے دِل کی عمیق ترین گہرائیوں سے کپکپاتے ہونٹوں سے اللہ کی کبریائی و وحدانیت بیان کرتے ہوئے سعی کے لیے صفا کی جانب روانہ ہوئے۔ صفا، مروہ کی عفّت مآب پہاڑیوں کے درمیان’’سعی‘‘ عُمرے کے واجبات میں سے ہے۔ ایک وقت تھا کہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان یہ کچا اور کُھلا راستا تھا، جس کے دونوں جانب مختلف اشیاء فروخت ہوتی تھیں، لیکن اب تو یہ عالی شان راہ گزر کسی شاہی محل کا تصوّر پیش کرتی ہے۔ نہایت سفید، صاف شفّاف اور شیشے کی طرح چمک دار خُوب صورت سنگِ مَر مَر کے دیدہ زیب حسین فرش پر ایئرکنڈیشنز کی معطّر ٹھنڈی ہوائوں کی سرمستیوں کے درمیان کُھلے، چوڑے اور خُوب صورت جداگانہ راستوں پر جگہ جگہ موجود ٹھنڈے زَم زَم سے جسم و روح کی پیاس کو سیراب کرتے ہوئے سعی کے سات چکروں کا موازنہ، امّاں حاجرہؑ کے اُس سفر سے کیجیے کہ جب سنگلاخ چٹانوں کے تپتے سورج کی تپش سے دہکتے، نوک دار سیاہ پتھروں پر ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کے درمیان بھوک و پیاس سے بےنیاز امّاں حاجرہؑ اپنے معصوم لختِ جگر کے منہ میں پانی کے چند قطرے ڈالنے کی جستجو اور آرزو میں بے قرار ہوکر دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی نیک اور برگزیدہ بندی کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ ایک طرف تو جنّت کے بہترین پانی کا ایک چشمہ معصوم گوشۂ جگر کے قدموں میں ڈال دیا، تو دوسری طرف ممتا کی اس بے قراری کو ہمیشہ کے لیے اَمر کردیا۔سعودی حکومت نے صفا، مروہ پہاڑی کے کچھ حصّوں کو اپنی اصلی حالت میں محفوظ کررکھا ہے، جسے بیسمنٹ میں صفا اور مروہ پر شیشوں کے باہر سے دیکھا جاسکتا ہے۔

تکمیلِ عمرہ: مروہ پر ساتویں چکر کے اختتام پر حلق کروانے کا مرحلہ آیا۔ یوں تکمیلِ عمرہ کے بعد احرام کی پابندیوں سے باہر آئے۔ غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر عام کپڑے پہنے، خوش بُو لگائی۔ ابھی سستانے کے لیے بستر پر دراز ہی ہوئے تھے کہ حرمِ شریف سے اذانِ تہجّد کی رُوح پرور صدائوں نے ربّ ِ ذوالجلال کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی یاد دہانی کروادی، لہٰذا حرمِ کعبہ کی جانب رواں دواں ہوگئے۔

شانِ کریمی کا رُوح پرور منظر: تہجّد کے نوافل کی ادائی سے فارغ ہوئے تھے کہ مؤذنِ کعبہ کی ایمان افروز اذانِ فجر نے ایک نئی پُرنور صبحِ صادق کے طلوع ہونے کی نوید سُنادی۔ ابھی جماعت میں دیر تھی، لہٰذا سُنّتوں کی ادائی کے بعد کعبہ شریف کی چھت کی جانب نظر دوڑائی، تو شانِ کریمی کا ایک عجیب رُوح پرور منظر اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ منتظر شوقِ نگاہ تھا۔ گہری سیاہی مائل سیکڑوں ابابیلیں دائروں اور قوس کی شکل میں ادب اور قرینے سے لہلہاتی، بَل کھاتی کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی دائیں، کبھی بائیں، اپنی خوش نُما نغمگی چہچہاہٹ کے ساتھ، ربّ اللعالمین کی حمد و ثنا بیان کرتی ہوئی محوِ طواف تھیں۔ یہ ابابیلیں صبحِ صادق سے سورج طلوع ہونے تک اور شام سے عشاء کے بعد تک یونہی وارفتگی میں اپنے ربّ کی محبّت و عقیدت اور تشکّر کے جذبات سے سرشار ڈبکیاں لگاتی، تیرتی، جھومتی اور وجد کے عالم میں خُوب صورت نغمے الاپتی مصروفِ عبادت رہتی ہیں۔ سورۃ النّور میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ’’پرندے بھی تسبیح اور نماز ادا کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ آسمان اور زمین میں موجود تمام مخلوقات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔‘‘مَیں جب بھی حرم شریف آتا ہوں، ابابیلوں کی عبادت کا یہ پُرکشش اور حَسین منظر اپنی بانہوں میں جکڑ لیتا ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ وہی معصوم پرندے ہیں کہ جنہوں نے اللہ کے حکم پر کعبہ کی حفاظت کے لیے اپنی ننّھی سی چونچوں اور پنجوں میں چنے کے برابر کنکریوں سے یمن کے بادشاہ، ابراہہ کے ہاتھیوں پر مشتمل لشکرِ جرّار کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح پامال کردیا تھا۔

سب مائیں ایک جیسی: مغرب کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ مطاف میں ملتزم کے سامنے بچھی صفوں پر بیٹھا ہوں۔ بائیں جانب ایک انڈونیشین نوجوان براجمان ہے۔ جیسے ہی حرم کے میناروں سے اذانِ مغرب کی صدا بلند ہوئی، نوجوان نے پُھرتی سے فون ملایا، چند لمحے بات کی اور فون کو ہاتھ میں پکڑکر مووی بنانے لگا۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اذان کے اختتام پر اس نے فون بند کیا اور میرے تجسّس اور معنی خیز چہرے پر نظر ڈال کر مُسکراتے ہوئے گویا ہوا’’ سر! مَیں آج ہی آیا ہوں، میری ماں نے چلتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ بیٹا حرم میں مغرب کی اذان اور کعبہ کا دیدار ضرور کروانا۔‘‘ ماں کی معصوم خواہش کی تکمیل پر اس نوجوان کی مُسکراتی نگاہوں میں خوشی کی چمک اور چہرے پر نُور کی جھلک دیکھ کر مَیں اپنی ماں کو یاد کرتے ہوئے مُسکرا اٹھا۔ میری ماں کی بھی تو یہی خواہش ہوتی تھی۔ کیا دنیا بھر کی سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں…!!

جدائی کا سوہانِ رُوح تصوّر: وقت ہوا کے دوش پر نہایت برق رفتاری سے محوِ سفر ہے۔ حرم کی رنگ و نور سے روشن فضائوں میں دن و رات کے باہمی ملاپ نے صبح و شام کے فرق کو مٹادیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے گھڑی کی سوئیاں ہر گھنٹے کسی نئے دن کے طلوع ہونے کا اعلان کررہی ہیں۔ دن گھنٹوں میں اور گھنٹے لمحوں میں سِمٹتے محسوس ہورہے ہیں۔ گزرتے وقت کا ہر لمحہ اپنے قیمتی ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔ جوں جوں بیت اللہ سے جدائی کے دن قریب آرہے ہیں، دل کی گھبراہٹ اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیا اس ترقّی یافتہ اور جدید دنیا کے خُوب صورت مُلکوں کے حَسین ترین شہروں میں کوئی نگری ایسی ہوگی، جو عزّت و احترام اور محبّت و پیار کی ایسی زنجیر میں جکڑدے کہ جب چند دن رہ کر واپسی کا خیال آئے، تو دل و دماغ نہ جانے کے لیے مچل اٹھیں۔ اداسیوں کے گمبھیر بادل پورے وجود پر چھاجائیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات رُکنے کا نام نہ لے۔ دل کی تمنا ہو کہ وقت کی سوئیاں ٹھہر جائیں اور جانے کے دن قریب نہ آئیں۔ ایسی مقدّس و محترم نگری، حجازِ مقدّس میں اللہ کا اپنا شہر’’ مکّہ مکرمہ‘‘ ہے۔ جس کا دیدار دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو اور تمنا ہے اور پھر جب بلاوا آجائے، تو وہاں سے جدائی کا تصوّر سوہانِ روح ہے۔

مکّہ مکرمہ کی خُوب صورت یادیں: ذہن کے دریچوں میں محفوظ مکّہ مکرمہ میں گزرے چند دنوں کی یادیں زندگی کا وہ اَن مول خزانہ اور بیش بہا سرمایہ ہیں کہ جن کے فیوض و برکات اور لطافت کبھی ختم نہ ہوسکے گی۔وہ دو چادروں پر مشتمل کفن سے مشابہ احرام کا سفید لباس، جدّہ ایئرپورٹ پر امیگریشن کے مراحل سے گزر کر حج ٹرمینل پر بسز کا انتظار، مکّہ مکرمہ کی چوڑی کشادہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی۔ دُور سے نظر آنے والے کلاک ٹاور کا خوش آمدید کہنا اور خوشی سے دل کا بے قابو ہوکر عالمِ شوق میں زور زور سے تلبیہ پڑھنا۔ حرمِ کعبہ کی باوقار عمارت اور اس کے پُرشکوہ میناروں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چومنا۔ کعبۃ اللہ پر پہلی نظر اور آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری ہونا، اس لمحے مانگنے والی سب دعائوں کا غائب ہوجانا، حرمِ کعبہ کا جلال و ہیبت، غلافِ کعبہ کی شان و شوکت، حجرِ اسود کو چومنے کی چاہت، ملتزم سے لپٹنے کی تڑپ، بابِ کعبہ کی چوکھٹ کو پکڑنے کی آرزو، حطیم میں میزابِ رحمت کی نیچے نمازیں پڑھنے کی جستجو، مقامِ ابراہیم ؑ، غلافِ کعبہ کو پکڑ کر آنکھوں سے لگانا، بار بار طواف میں دعائوں بھرے چکر لگانا، صحنِ حرم کی نمازیں اور ذکر و اذکار۔ مطاف میں بیٹھنا، کعبے کے دیدار سے آنکھوں کو سینکنا، کبھی رونا، کبھی بلکنا۔ کبھی التجا کرنا، کبھی منّتیں کرنا۔ کبھی خوشامد، کبھی گلے شکوے۔ تسکینِ روح کے لیے بار بار آبِ زَم زَم پینا۔ کعبے کی فضائوں میں ابابیلوں کا دیوانہ وار چکر لگانا، صحنِ حرم کی نئی خُوب صورت محرابیں، مسجدِ عائشہ سے بار بار احرام کا باندھنا۔ یخ بستہ و معطّر صفا مروہ کی دوڑیں۔ غرور و تکبّر کی نشانی خُوب صورت بالوں کی قربانی بار بار سر پر استرا پِھروانا۔ پیر اور جمعرات کو افطاری کا دسترخوان اور مقامی عربوں کا بیٹھنے پر اصرار۔ کلاک ٹاور اور حرم کے میناروں سے تہجد سمیت چھے مرتبہ اذانِ بلالی کی رُوح پرور سحر انگیز صدائیں۔ حرم کی چھت سے چاندنی راتوں میں مکّے کا پُرنور نظارہ۔ بابِ عبداللہ کے تعمیراتی کمالات، بابِ عبدالعزیز کا نیا خُوب صورت دروازہ۔ بابِ سلام سے آگے حضور اکرمﷺ کی پیدائش کی جگہ کی زیارت۔ حرم شریف سے باہر کبوتروں کے غول اور اُنہیں دانہ ڈالنا ’’شاہ راہِ ابراہیم‘‘ اور ’’اجیاد‘‘ کی سڑکوں پر عازمین کا سمندر بیکراں۔ مسفلہ کا پُرانا محلّہ اور جبلِ عُمر پر نئے جدید ترین ہوٹل اور شاپنگ سینٹرز۔ مکّے کے بازاروں میں پھلوں سمیت دنیا بھر کی تمام اشیا کی فراوانی۔ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں کھانے پینے کی چیزوں کے انبار، سخت ترین کوالٹی کنٹرول کا نفاذ، بہترین انتظامی معاملات، غارِ حرا اور غارِ ثور کی زیارت، مسجدِ جن میں دو رکعت نفل۔ عرفات کے میدان میں مسجدِ نمرہ (جہاں حج کا خطبہ ہوتا ہے) اور جبلِ رحمت (حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے ملاپ کی جگہ)، وادیٔ مزدلفہ اور وادیٔ محر (جہاں ابراہہ کے لشکر کو ابابیلوں نے تباہ کیا)۔ جنّت المعلیٰ کا قدیم ترین قبرستان کہ جہاں حضرت خدیجتہ الکبریٰ سمیت کم و بیش چھے ہزار جلیل القدر صحابہ کرامؓ مدفون ہیں۔ مکّے کی مشک بُو و معطّر فضائیں اور عازمین کو خوش آمدید کہتی ہوائیں۔ یہ تمام رُوح پرور ،حَسین مناظر اب نظروں سے دُور ہونے والےہیں۔ قلب و رُوح میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ایسے میں لبوں پر صرف ایک ہی دُعا ہے۔’’اے ربّ العالمین !بار بار اپنےدربار میں بلانا اور اپنا مہمان بنانا۔‘‘

الوداع اے مکّہ الوداع: اگلی صبح پُرنم آنکھوں اور اداس قدموں کے ساتھ مکّے کی محترم فضائوں میں حمد و ثناء اور درود شریف کے نذرانے بکھیرتے آقاﷺ کے شہر ’’مدینہ منورہ‘‘ روانہ ہوگئے۔ کچھ ہی دیر بعد گاڑی مکّے کی شہری حدود سے باہر مدینہ جانے والی شاہ راہ پر آئی، تو ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز کردی۔ مَیں نے پیچھے مُڑ کر مکّے کی جانب دیکھا، تو دور بہت دور مکّے کا بلند و بالا کلاک ٹاور مجھے مسکراتے ہوئے’’اللہ حافظ‘‘ کہتا نظر آیا۔ مَیں نے بھی بے اختیار اپنا ہاتھ بلند کیا اور آنکھوں سے بہتے اشکوں کے ساتھ اچانک منہ سےنکلا۔ الوداع، اے شہرِ مکّہ الوداع۔ اے حرمِ کعبہ، الوداع۔ اے مرکز و محورِ کائنات۔

تازہ ترین
تازہ ترین