اولاد کے بچھڑنے کا کرب و دکھ کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لگاسکتا ہے جس کا بیٹا یا بیٹی بچھڑ گئے ہوں اور جب بات ہو سگی اولاد کی تو پھر ہر لمحہ ہر آن ہر پل آنکھیں نم رہتی ہیں اور اپنے گمشدہ بچے کی دید کی منتظر رہتی ہیں، کان اس کی آواز سننے کو ترستے ہیں۔ 4سال قبل کراچی سے اغوا ہونے والی آٹھ سالہ بچی، ام حبیبہ کو پولیس نے سکھر سے بازیاب تو کرالیا مگر افسوس کہ 4سال گزرنے کے باوجود اسے والدین سے نہیں ملایا جاسکا ہے اور وہ دارالامان سکھر میں اپنی زندگی گزار رہی ہے۔
اغو اکاروں کے چنگل سے بازیاب ہونے والی معصوم بچی ،ام حبیبہ کو 4سال گزرنے کے باوجود والدین سے نہ ملانے کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ ضلعی و پولیس انتظامیہ نے لڑکی کو بازیاب کراکر دارالامان سکھر میں منتقل تو کردیا مگر کیا بچی کے والدین کی تلاش اور معصوم بچی کو والدین سے ملانا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں؟ بچی کو نہ تو والدین کا علم ہے اور نہ ہی گھر کا پتہ ہے۔ لڑکی کو 2014میں روہڑی سے بازیاب کرایا گیا تھا تاہم بچی کے ورثاء کی تلاش کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی جس کے باعث وہ اپنے اہل خانہ کی بجائے سکھر کے دارالامان میں رہنے پر مجبور ہے۔
ام حبیبہ کی 4سال سے دارالامان میں موجودگی کا انکشاف اس وقت ہوا، جب رواں برس جولائی کے مہینے میں سندھ ہائی کورٹ سکھر کے جسٹس صلاح الدین پہنور نے دارالامان سکھر میں سہولتوں کا جائزہ لینے کے لئے اچانک دورہ کیا۔ دورے کے موقع پر معزز جسٹس نے دارالامان سکھر میں موجود ام حبیبہ کو دیکھا تو انتظامیہ سے باز پرس کی کہ یہ بچی کون ہے، کہاں سے آئی ہے؟ یہاں کیوں رہ رہی ہے؟ اس کے والدین کہاں ہیں؟ تسلی بخش جواب نہ ملنے پر جسٹس صلاح الدین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4سال گزر گئے مگر بچی کے والدین کو تلاش کیوں نہیں کیا جاسکا۔ انہوںنے از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کے افسران کو عدالت میںطلب کیا۔ کیس کی پہلی سماعت 26 جولائی کو کی گئی، جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ ام حبیبہ 4سال قبل کراچی سے اغوا ہوئی تھی، جسے بازیاب کرالیا گیا ہے تاہم بچی کے والدین نہیں مل سکے ہیں۔اس وجہ سے وہ دارالامان میں رہ رہی ہے جب کہ اس کے اغوا میں ملوث ملزمان رہا ہوچکے ہیں۔ افسران کےبیانات سننے کے بعد عدالت نے تحریری ریمارکس دیئے کہ جوڈیشری، پولیس اور ایڈمنسٹریشن سمیت متعلقہ اداروں کی مجموعی ناکامی کی قیمت معصوم امہ حبیبہ ادا کررہی ہے۔ بچی کے والدین کو فوری طور پر تلاش جائے۔
16 اگست کو کیس کی دوبارہ سماعت جسٹس اقبال مہر اورجسٹس امجد علی سہتو نے کی۔ عدالت نے بچی کے والدین کو تلاش نہ کرنے پر متعلقہ اداروں پر برہمی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ امہ حبیبہ کے والدین کی تلاش کے لیے فوری طور پر اخبارات میں اشتہارات دئیے جائیں اور اسے ہر حال میں اس کے والدین تک پہنچاکر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
دارالامان میں رہائش پذیر ام حبیبہ کو گردش ایام، زمانے کی ٹھوکروں اور اپنےساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات نے اسےوقت سے پہلے ہی بڑا کردیا ہے۔ گھر سے دوری اور انجان جگہ پر رہنے والی ام حبیبہ نے ہار نہیں مانی ہے بلکہ وہ زمانے کے ساتھ چلنے اور کسی کے محتاجی کے بغیر اپنی زندگی کو گزارنے کے لیےلئے دارالامان سکھر میں پوری لگن و دلچسپی سے سلائی کڑھائی کا ہنر سیکھ رہی ہے۔ کم عمری میں والدین سے جدا ہونے کا غم ام حبیبہ کے معصوم چہرے پر واضح نظر آتا ہے، بچی کی ویران آنکھیں والدین کی دید کی منتظر ہیں، بچی کو دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذہنی اضطراب کا شکار ہے، خود بچی نے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میں یہاں رہ تو رہی ہوں مگر مجھے گھر کی بہت یاد آتی ہے۔ ام حبیبہ نے نمائندہ’’جنگ ‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ میں کراچی میں رہتی تھی، جہاں سے کریماں نامی ایک عورت مجھے سکھر لائی، میں اس کے گھر پر رہتی تھی، ایک دن پولیس اس عورت کے گھر آئی اور اس کے شوہر کو گرفتار کرکے لے گئی اور مجھے یہاں دارالامان میں بھیج دیا گیا، 4سال سے اپنی زندگی کے دن یہاں گزار رہی ہوں۔ والدین کے متعلق صرف اتنا جانتی ہوں کہ میرے امی ابو کراچی میں رہتے ہیں، کراچی کے کس علاقے میں رہتے ہیں یہ مجھے معلوم نہیں۔ جب امی ابو کی یاد آتی ہے تو دل بھر آتا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، جس پر میں بہت پریشان ہوجاتی ہوں، میرے 5بہن بھائی ہیں، مجھ سے بڑی بھی ایک بہن ہے، میں ان کے ساتھ کھیلتی تھی، مذاق کرتی تھی، گھومنے جاتی تھی، وہ باتیں آج بھی یاد آتی ہیں۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ اغوا کرنے والے تو رہا ہوگئے ہیں مگر مجھے میرے والدین نہیں مل سکے ہیں، میں اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہوں۔اس نے کہا کہ میں جسٹس صاحب کا شکریہ ادا کرتی ہوں، وہ میرے والدین کو ڈھونڈنے میں مدد کررہے ہیں دارالامان سکھر کی ڈائریکٹر کے مطابق ام حبیبہ بنت افتخار بھٹی کو 26 اکتوبر 2014 کو دارالامان میں لایا گیا، لڑکی کی والدہ کا نام ساجدہ، چھوٹے بھائی کا نام ابو بکر صدیق اور علی حسن ہے، 2014سے بچی کے والدین کی تلاش جاری ہے، اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نے اخبارات میں اشتہارات بھی دئیے ہیں۔ شروع میں جب ام حبیبہ کو یہاں لایا گیا تو وہ ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔ وہ دارالامان میں لائی جانے والی لڑکیوں میں سب سے کم عمر ہے۔ اس لئے ہم سب لوگ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں
دوسری جانب عدالت عالیہ کے احکامات کے باوجود متعلقہ محکموں کے افسران لڑکی کے ورثاء کی تلاش میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت نے لڑکی کے ورثاء کی تلاش کے لئے اخبارات میں اشتہارات شائع کرانے کا حکم دیا تھا تاہم افسران نے ایک مقامی اخبار میں اشتہار شائع کراکر اپنی جان چھڑالی، اگر انتظامیہ لڑکی کے ورثاء کی تلاش میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو اسے، اس کے والدین تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ شہری و عوامی حلقوں نے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پہنور کی جانب سے دارالامان سکھر میں موجود ام حبیبہ کے سلسلے میں از خودنوٹس لے کراس کےوالڈین کی تلاش کے لیے اداروں کو سختی سے حکم دینے کو خوش آئند قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 4سال تک بچی کو اس کے والدین سے نہ ملانا، انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر معزز جسٹس دارالامان کا دورہ نہ کرتے اور ان کی نظر معصوم بچی پر نہیں پڑتی تو پھر کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بچی دارالامان میں زندگی گزار رہی ہے۔ انتظامیہ کو اس حوالے سے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور معصوم بچی کے والدین کو تلاش کر کے بچی کو والدین کے حوالے کرنا چاہیے۔