کراچی میں امن و امان پرپورے ملک میں بحث جاری ہے۔ اس دوران فوجی آپریشن کی بازگشت بھی تواتر کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ آپریشن کسی صورت بھی مسئلے کا حل قرار نہیں دیاجاسکتا، البتہ اس کے ذریعے عارضی طور پر صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اگر نیت صاف ہو۔ کراچی میں اس سے قبل بھی فوجی آپریشن اسی غرض سے کیا گیا تھا کہ یہاں پر جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کی جائے گی۔ یہ آپریشن بلوفاکس 19جون 1992ء کو ہوا اس کا رخ سندھ کے شہری علاقوں کی جانب موڑا گیا تھا لیکن فوج نتائج حاصل کئے بغیر 30نومبر 1994ء کو بیرکوں میں واپس چلی گئی۔ اس وقت حکومت نے پولیس کے ذریعے ایک اور آپریشن کیا، جس نے شہر کراچی کو بری طرح متاثر کیا۔ آج بھی ان زخموں سے خون رستا محسوس کیاجاسکتا ہے۔
اس آپریشن کے ردعمل میں جلا وطنی اور روپوشی بہت سے سیاسی کارکنان کو اختیار کرنا پڑی اور اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کچھ ایسے گروہ بھی سامنے آئے جنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ہتھیار اٹھالئے اور یہ وہ گروہ تھے جو عمل کے ردعمل کے طور پر سامنے آئے۔ کسی بھی ملک کی فوج کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ مجرموں کو گرفتار کرنے کے بعد سول عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کرے۔ مجرموں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں بہرحال پولیس کا سہارا لینا پڑتا ہے جو عدالتوں میں ان مقدمات کی پیروی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج شاید اس حد تک تو کامیاب ہوجائے کہ وہ مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کرسکے لیکن انہیں قرار واقعی سزا نہیں دلوا سکتی۔ لہٰذا کوشش اس امر کی ہونی چاہئے کہ کسی فوجی آپریشن کی بجائے پولیس کو اس قابل کیاجائے کہ وہ مسائل پر قابو پا سکے ۔ بنیادی طور پر امن وامان کی صورت حال میں جن عناصر کا ہاتھ ہے، ان گروہوں کی بیخ کنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کرنی ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے تو پولیس کے ہاتھ کس نے باندھے ہیں؟ اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے۔ اندھیروں میں بات کرکے کسی سیاسی جماعت پر الزام لگانا تو آسان ہے لیکن اس کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم الزامات کی سیاست سے باہر نکلیں اور کراچی کے مسئلے کو اس تناظر میں دیکھیں جس کا وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ گزشتہ روز روزنامہ جنگ میں حسن مجتبیٰ کا مضمون نظر سے گزرا جس میں موصوف رقمطراز ہیں کہ کراچی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، حتیٰ کہ خوانچے لگوانے کا کاروبار بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری جانب وہ لکھتے ہیں کہ کراچی کی ایک سیکولر سیاسی جماعت جو فطرہ بھی وصول کرتی ہے، اس کی کراچی کے قدیم شہریوں سے لڑائی زمین کے قبضے پر ہے۔ ملیر سے نکل کر پرانے شہر تک جا پہنچی ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ کراچی کا مسئلہ1980ء میں بشریٰ زیدی کے اس قتل کے بعد شروع ہوا جب منی بس نے انہیں کچلا تھا۔ راقم یہ امر بھی یاد دلانا چاہے گا کہ 1964ء میں کراچی کی آبادیوں پر حملے کرنے والے جرنیلوں کے صاحبزادگان کے بارے میں موصوف کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ ان دونوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں پوری پوری آبادیوں پر حملے کئے اور فائرنگ کرکے دسیوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا اور بعد ازاں کمشنر کراچی روئیداد خان نے بیک جنبش قلم ان سے یہ مقدمہ واپس لے لیا۔ یہ وہ حقیقی نکتہ آغاز تھا جہاں سے کراچی میں گروہی، لسانی اور نسلی تشدد کا آغاز ہوتا ہے۔ تاریخ کو بھلانے کی کوشش نہ کی جاتی تو اچھا ہوتا ۔ اس کے علاوہ راقم انتہائی ادب سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ جب رئیل اسٹیٹ اور زمین کے معاملات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو پھر وہ اس بات کی بھی وضاحت کریں کہ اس مبینہ لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار کون ہے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ عوام کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار نہیں بنتیں۔ علاج سے قبل مرض کی صحیح تشخیص کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے ہماری نیت کا صاف ہونا بھی لازمی ہے۔ کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی بات کی جاتی ہے اور جب اسی حل کو پورے پاکستان پر منطبق کیاجاتا ہے تو پاکستان کا قبائلی معاشرہ ہتھیار کو اپنا زیور قرار دیتا ہے۔ سوچ کا یہی تضاد مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ علاقہ غیر میں سیکڑوں اسلحہ ساز فیکٹریاں کس کے لئے اسلحہ بنا رہی ہیں؟ کون ان ہتھیاروں سے لقمہ اجل بن رہا ہے۔ اس بات کافیصلہ ریاست پاکستان کو کرنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بننے والے ہتھیار کی پاکستان کو ضرورت ہے یا نہیں۔ اس کے بعد کراچی اور ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کی بات کی جانی چاہئے کیونکہ وقتی طور پر اگر ریاستی ادارے اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے ملک کو اسلحے سے پاک کرتے ہیں تو ان اسلحہ ساز فیکٹریوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پھر بہت جلد پورے ملک میں اسلحے کی بہتات کردیں گے۔
کراچی کے مسئلے کا علاج یہی ہے کہ اس شہر میں آنے والے ہتھیاروں کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے اور وہ محفوظ ترین کاریڈور جو علاقہ غیر سے کراچی تک کے داخلی راستوں تک محیط ہے، اس پر اس طرح سے چیک پوسٹیں لگائی جائیں کہ اسلحہ وہاں سے نکل کر کراچی کے دیگر حصوں میں نہ جاسکے۔ یہ وہ پہلا قدم ہوسکتا ہے جو ملک میں حقیقی امن و امان کے قیام کے لئے راہ ہموار کرے گا۔ سیاسی جماعتوں پر تنقید سے اجتناب کرتے ہوئے کراچی کے مسئلے کو انتظامی بنیادوں پر دیکھا جائے اور اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ فوجی آپریشن کا مطالبہ بنیادی طور پر متوقع انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش ہے اور کوئی بھی جمہوریت پسند شخص اس سازش کی حمایت نہیں کرسکتا۔