اسلام آباد (نمائندہ جنگ ،جنگ نیوز) اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں میں صدارتی امید وار کے معاملے پر فاصلے ختم نہ ہو سکے، متفقہ امید وار کی کوششیں جاری ہیں۔ اپوزیشن آج فیصلہ کریگی، پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے نام پر ڈٹ گئی ہے جبکہ (ن) لیگ نےیوسف رضا گیلانی کو نامز د کرنے کی تجویزدیدی ہے، مجلس عمل نے بھی اعتزازکے نام پرتحفظات ظاہرکردیئے ہیں،پیپلز پارٹی رہنمائوں کا (ن) لیگ اور ایم ایم اے کےسربراہ سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے،پیپلزپارٹی نے اپنے صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کے نام پر مسلم لیگ (ن) کا اعتراض مسترد کردیا جسکے بعد مشترکہ صدارتی امیدوار لانے کے معاملے پر اپوزیشن تقسیم ہوگئی۔ ادھرمصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان کے مابین اتوار کوصدارتی امیدوارکے معاملے میں اتفاق رائے حاصل کرنے کیلئے فون پر طویل مشاورت ہوئی جس دوران مولانا فضل الرحمان نے انہیں صدارتی امیدوار کیلئےمسلم لیگ(ن) کی جانب سےاعتزاز احسن کے نام پر تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے متبادل کے طور پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا نام بھی تجویز کیا۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ کسی بھی منصب کیلئے نام دینے کا استحقاق اس کی پارٹی قیادت کا ہوتا ہے، دوسری جماعت کی شخصیت کے نام دینے کا طریقہ کار غیرسیاسی اور غیر اخلاقی ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے اعتزازکانام واپس لینے سےانکارکرتےہوئے کہا کہ ہمارے امیدوار اعتزاز احسن ہیں اور وہی رہیں گے جسکے بعد مولانا فضل الرحمان نے شہبازشریف کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہباز شریف کا اپنے فیصلے پر نظر ثانی اور لچک پیدا کرنے کا بھی مشورہ دیا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے پارٹی سے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا ہے۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی اقامت گاہ سیاسی سرگر میو ں کا مرکز بنی رہی وہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما بھی مختلف مقامات پر رابطوں میں مصروف رہے ،رات گئے ملنے والی خبروں کے مطابق صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کے متفقہ امیدوار آنے کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے تھے تاہم اس امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آج(پیر) صدارتی امیدوار کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا چونکہ آخری دن ہے اس لئے آخری لمحات میں کوئی حیران کن مسئلہ سامنے آجائے جو اپوزیشن کی جانب سے پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کا ایک حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ رات گئے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس میں ایم ایم اے نے بھی اعتزاز احسن کے نام پر اپنے تحفظات ظاہر کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے آخری لمحات تک متفقہ صدارتی امیدوار کی کوشش جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔آج پیر کو دن 11 بجے تک پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے مثبت جواب نہ آنے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار کے کاغذات نامزدگی داخل کر دے گی۔ (ن) لیگ کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو تیار رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ دریں اثناء جے یو آئی کی مجلس عاملہ کا اجلاس مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا جس میں اپوزیشن کے صدارتی امیدوار پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین تنائو پر غور ہوا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کے ضمنی الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے پر بھی مشاورت ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے نہ ہونے کے عوامل اور محرکات پر بھی ارکان کو اعتماد میں لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کے نام پر اتفاق ہوگیا تو (ن) لیگ اپنے امیدوار کے نام واپس لے لی گی،ادھر بلاول بھٹو زرداری ہفتہ کی شام دبئی سے کراچی پہنچے،تو خورشید شاہ نے ان سے رابطہ کرکے انہیں مولانافضل الرحمن کے پیغام سے آگاہ کیا، ذرائع نے بتایاکہ پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے نام کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اعتزاز احسن ہی ہماراامید وار ہو گا،ادھرشہباز شریف سے مولانا فضل الرحمن کی ملاقات کے بعد احسن اقبال،امیرمقام اور مریم اورنگزیب پر مشتمل وفد نے پارلیمنٹ لاجز میں خورشید شاہ سے ملاقات کی اور صدارتی پینل میں اعتزاز احسن کے ساتھ ساتھ یوسف رضا گیلانی اور رضا ربانی کے نام بھی شامل کرنے پر زور دیا ،پاکستان مسلم لیگ ن فیڈرل کیپٹل کے صدر طارق فصل چوہدری سے جب متفقہ امید وار کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کامیابی کے صرف دس فیصد امکانات ہیں، پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت دبائو میں ہے اس لئے مشترکہ امید وار کے امکانات بہت کم ہیں۔ خورشیدشاہ سے ملاقات کے بعد میڈیاسے گفتگوکرتےہوئےاحسن اقبال نے کہا کہ اگر کوئی فریق ایک موقف پر اڑا رہا تو نتیجہ نہیں نکلے گا۔ خاموش ڈپلومیسی سے کام لے رہے ہیں قوم دیکھ رہی ہے، سب کی نظریں ہم پر لگی ہیں پیپلز پارٹی کی مجبوری پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ احسن اقبال نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے وفد سے بات چیت ہوئی ہے ہمارا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ ایسا امیدوار ہو جس پر کسی کو تحفظات نہ ہوں پیپلز پارٹی کے وفد کو چند تجاویز دی ہیں، اپوزیشن اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے متفقہ امیدوار لانا چاہتے ہیں، امید ہے پیپلز پارٹی کی قیادت اس اہمیت کو سمجھے گی، سنجیدگی اور خلوص سے اتفاق رائے سے امیدوار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ادھرذرائع نے بتایا کہ خورشید شاہ ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف نے اپنے طور پر بھی اپوزیشن جماعتوں سے اعتزاز احسن کو کامیاب بنانے کیلئے رابطے تیز کر دیئے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے پشاور میں اے این پی کے رہنما غلام بلور کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ ہمارے امید وار کو ووٹ دیں ۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ اپوزیشن متحدد رہے، پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر اعتزاز احسن کو نامزد کر کے بے اتفاقی کا آغاز کر دیا تھا ۔ اے پی سی کے فیصلے کے مطابق پیپلز پارٹی کو تین ناموں پر مشتمل پینل شہباز شریف کو پیش کرنا تھا لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی پینل پیش نہیں کیا مولانا فضل الرحمن سے ہونےو الی پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی ملاقات میں اعتزاز احسن کے نام پر ہی اصرار کیا گیا ہے حالا نکہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے مشاورت کر کے تین نام پیش کریں گے اور شہباز شریف ان تین میں سے کسی ایک کو مشترکہ صدارتی امید وار نامزد کر دیں گے اور پوری اپوزیشن ان کی کامیابی کیلئے سینٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھر پور انداز میں لابنگ کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ آصف زرداری اے پی سی کے فیصلے پر عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ اپوزیشن اتحاد میں رخنہ ڈالنے پر مجبور ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن کو متحد کر کے ہی آگے بڑھا جائے اپوزیشن متحد نہ رہی تو ملک میں غیر اعلانیہ آمریت کا تسلط رہے گا ، مشاہد حسین سے جب استفسار کیا گیا کہ شہباز شریف ابھی تک مشترکہ امید وار سامنے لانےمیں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے تو انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی مذاکراتی ٹیم فیصلے میں بااختیار نہیں بار بار اعلیٰ قیادت سے مشاورت کرتے ہیں اور وعدوں سے انحراف کے مرتکب ٹھہر تے ہیں۔