وزیر اعظم۔۔۔۔پارلیمانی جمہوری نظام کا سب سے بڑا اور طاقتور عہدہ۔۔۔لیکن پاکستان میں ستر سال سے اس عہدے پر فائز رہنے والی شخصیات نے کبھی بھی اپنی مدت پوری نہیں کی۔پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا اس قتل کے محرکات سامنے نہیں آسکے،پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کوگورنر جنرل کے ہاتھوں برطرف کردیا گیا۔ امریکا میں سفیر ،امپورٹڈ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ دوسال بعد واپس امریکا چلے گئے،پہلے پنجابی وزیر اعظم چوہدری محمد علی گورنر جنرل غلام محمد کا دوسرا شکار تو عوامی لیگ کے واحد بنگالی وزیر اعظم حسین سہروردی بنگالی صدر سکندر مرزا کا پہلا شکار ہوگئے،ابراہیم اسمعیل چندریگرصرف دو ماہ میں سکندر مرزا کا دوسرا جب کہ فیروز خان نون بھی انہیںکا شکار ہوئے۔13دن کا وزیر اعظم نور الامین جنرل یحیٰی کے ہتھے چڑھ گیا،پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھا دیئے گئے،محمد خان جونیجو ضیاء الحق کا شکار ہوئے۔ پاکستان کی پہلی خاتون اور دوسری منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت پہلے صدر غلام اسحاق پھر فاروق احمد لغاری کا شکار ہوئی اور پھر انہیں راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف پہلے صدر غلام اسحا ق خان اور پھر مشرف کے ہاتھوں اور اب عدلیہ کاشکار ہوئے،مشرف کے دور میں صرف دکھاوے کے پہلے بلوچی وزیر اعظم ظفراللہ خان جمالی تھے ،مشرف کی طرف سے عالمی بینک سے لیے گئے مستعار وزیر اعظم شوکت عزیز وزارت عظمیٰ کا مز الینے کے بعد دیار غیر سدھار گئے ۔
پہلے سرائیکی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں گھر چلے گئے اور پیپلز پارٹی کے چوتھے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی رینٹل پاور پلانٹس میں بدعنوانی کیسز میں گھرے رہے۔پاکستان میں1990کے بعد سات نگران وزیر اعظم بھی رہے۔پاکستانی تاریخ میں دو وزرائے اعظم کو شہید ،ایک کو پھانسی چڑھادیاگیا ، بے نظیر بھٹو دو باراور نواز شریف تین بار وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہے، ذوالفقارعلی بھٹو کو دوسری مدت کے لیے حلف ہی نہیں لینے دیا گیا۔ پاکستان کے 22ویںوزیراعظم عمران خان اب اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں ۔ پاکستان میں منتخب اور نگران وزرائے اعظم ، ان کی زندگی اور ان کے ادوار پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
لیاقت علی خان
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے جنہوں نے14اگست 1947کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالااور وہ اس عہدے پر 1524دن تک فائز رہے۔ بھارتی علاقے کر نال میں 1896میںپیدا ہونے والے لیاقت علی خان نے آکسفورڈیونیورسٹی سے قانون کی ڈگر ی لی ۔1923میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور1926 میں مظفر نگر ضلع سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1930 کے انتخابات میں وہ اس سیٹ پربلا مقابلہ منتخب ہوئے ۔1940میںمرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔1946میں عبوری حکومت میں نہرو کابینہ میں مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے بطور وزیر خزانہ شریک ہوئے۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل مقرر ہوئے توآپ پر بے شمار ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا ۔آپ نے پارلیمانی طرز حکومت کا آغاز کیا اورامور مملکت وزیر اعظم کے ذریعے گورنر جنرل کو پیش ہونے لگے۔ آپ کے عہد میں پاکستان کی اقتصادی حالت انتہائی مستحکم تھی۔پہلے ہی سال اس کا بجٹ متوازن تھا۔ قائد ملت کی بنیادی خارجہ پالیسی وہی تھی جو قائد اعظم کی تھی ۔ 1949میں وزراء اور دیگر افسران کی رشوت خوری کو روکنے کے لئے پراوڈا کا قانون نافذ کیا ۔1950میں بھارت کا اچانک دورہ کیا تاکہ اقلیتوں کے تحفظ کا معاہدہ کیا جا سکے ۔1951کو جب بھارتی فوجیں پاکستانی سرحدوں کی طرف بڑھ رہی تھیں توآپ نے پنڈت نہرو کو خط لکھا کہ وہ باز رہے ورنہ اس کے خطرناک نتائج ہو نگے۔1951میں ایک سازش کے تحت راوالپنڈی کے جلسہ عام میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین
پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد صرف کابینہ کے مشورے سے 17اکتوبر1951کو اس عہدے پر فائز ہوئے ،اور548دن تک اس پر رہے۔آپ 1894کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئے ،علی گڑھ یونیورسٹی اور پھر کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور قائد اعظم کی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے اس کے بعدوہ ملک کے دوسرے گورنر جنرل بنے۔ آپ کے دور میں اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو مساوی درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔نوجوان طلبہ نے اسکے لئے مظاہرے کیے۔ڈھاکہ میں فسادات ہوئے ۔ اور یوں مشرقی پاکستان اسمبلی کی مرکزی حکومت کی سفارش پر بنگالی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین نے نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لئے اکتوبر 1951کوجسٹس محمد منیر کی قیادت میںکمیشن قائم کیا۔ دسمبر1952کو انہوںنے دستور ساز اسمبلی میں بنیادی اصولوں کی مجلس کا بیانیہ پیش کیا۔جس میں پہلی بار ملک کے دونوں صوبوں کو مساوی نمائندگی کا حق دیا گیا۔17اپریل1953ء کو گورنر جنرل نے اسمبلیاں توڑدیں اور ناظم الدین حکومت کو بر طرف کر دیا۔اس میں شک نہیں کہ گورنر جنرل کا یہ اقدام سراسر غیر آئینی تھا ۔خواجہ ناظم الدین1964کو دار فانی سے کوچ کرگئے۔
محمد علی بوگرہ
پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ 17اپریل1953 سے 11اگست1955تک847دن وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان رہے۔آپ 1909ء میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے ۔کلکتہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد آبائی ضلع بوگرہ سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔ غیر منقسم بنگال میں وزیر مالیات کے عہدے پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد برما میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد گورنر جنرل ملک غلام علی نے آپ کو وزیر اعظم بننے کی دعوت دی۔ ان دنوںوہ نہ تو دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اور نہ ہی قومی سطح پر شناسا۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور نئی کابینہ کے حلف اٹھانے میں صرف ساڑھے چار گھنٹے کا وقت لگا اسی لئے آپ کے تقرر کو’’سرپرائزنگ تعیناتی‘‘قرار دیا جاتا ہے۔ بوگرہ دور میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات سے سیاسی فضا خراب تھی۔ مارچ 1954ء کے انتخابات میںمسلم لیگ کی شکست کے بعد انہیں مشرقی پاکستان میں بھی لیڈر کی حیثیت سے کوئی مقام نہ رہا۔ انہوں نے ایک فارمولا پیش کیا جس سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام میں اتحاد و یگانگت کے امکانات روشن ہوئے۔ آپ کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 22 نومبر 1953ء کو منعقد ہوا۔ محمد علی بوگرہ کی کوششوں سے 1949ء میں نافذ کیا جانے والا نااہلی ایکٹ بھی منسوخ کردیا گیا۔ 1955ء کو مری میں دستور ساز اسمبلی کا اجلاس کے دوران آئین سازی کیلئے پاکستان مسلم لیگ، عوامی لیگ اور کرشک سرامک پارٹی میں ایک سمجھوتہ طے پایا۔ اس سمجھوتے کے صرف چھ ماہ بعد 1956ء کا آئین مکمل کرلیا گیا۔ 1963کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
چوہدری محمد علی
پاکستان کے چوتھے وزیراعظم چوہدری محمد علی اس عہدے پر397دن تک فائز رہے۔وہ 11 اگست 1955ء سے 12ستمبر1956تک وزیر اعظم رہے۔ چوہدری محمد علی 1905ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انڈین آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس میں ملازمت کرلی۔ 1931ء میں حکومت ہند نے انہیں ریاست بہاول پور کا اکائونٹنٹ جنرل مقرر کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزیر خزانہ مقرر ہوئے ۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعدوحدت مغربی پاکستان کے بل کو منظور کرانے پر توجہ مرکوز کردی ۔ آپ پاکستان کے پہلے مسلم لیگی وزیراعظم تھے جنہوں نے وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی صدارت کے عہدے کو علیحدہ رکھنا چاہا۔ چوہدری محمد علی کی وزارت کا بڑا کارنامہ 1956ء کا پارلیمانی دستور وضع کرانا تھا۔ ان کے دور میں مسلم لیگ کی انفرادیت ختم ہوگئی اور اس کی حیثیت اقلیتی جماعت کی تھی۔ چوہدری محمد علی کی غیر ذمہ داریوں کی وجہ سے مسلم لیگ کو نقصان پہنچا اور ایک نئی پارٹی ری پبلکن کے نام سے وجود میں آئی۔ آپ نے نئی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور وزارت عظمیٰ سے خود بھی مستعفی ہوگئے۔ چوہدری محمد علی 1980کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔
حسین شہید سہروردی
پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے 12 ستمبر1956کو وزار ت عظمیٰ سنبھالی اور18اکتوبر1957تک وہ400دن تک اس عہدے پر فائز رہے۔ آپ ایک مشہور قانون دان اور پارلیمانی امور کے ماہر تھے۔ 1893ء کو مغربی بنگال میں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی سی ایل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وکالت کے ساتھ سیاست میں حصہ لیا ۔ 1954ء میں جب آپ مرکزی وزارت میں شامل ہوئے تو اس وقت ون یونٹ بل کو آخری شکل دی تھی۔ 1956ء کے آئین کی تیاری میں اور مشرقی و مغربی پاکستان میں مساوات کا اصول سنوارنے میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ سہروردی اور چوہدری محمد علی کا دورنظم و نسق کی بہت سی یکساں خصوصیات رکھتا تھا۔ یہ دو مختلف نظریات کی مخلوط وزارت تھی۔ ایک ری پبلکن پارٹی جس کے اراکین کی اکثریت سابق مسلم لیگیوں پر مشتمل تھی اور جنہوں نے ملک کی سیاست میں ایک نیا کردارادا کیا۔ دوسرے عوامی لیگ ، جس کے اراکین کی تعداد کم تھی مگر حکومت اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں کے مقابلے میں ایک منظم اور مضبوط سیاسی جماعت تھی۔ حسین شہید سہروردی جمہوریت کے حامی تھے۔ آپ نے مہاجرین کی آبادکاری، نظم و نسق کی بہتری، اقلیتوں کا تحفظ اور کشمیر کے مسئلہ کے تصفیہ پر بہت زور دیا۔ صدر سکندر مرزا کی خواہش پر آپ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے۔1963 میںآپ انتقال کر گئے۔
ابراہیم اسماعیل چندریگر
پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر18اکتوبر1957سے 16دسمبر1957 تک صرف 60دن تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ آپ مشہور قانون دان اور مسلم لیگی لیڈر تھے۔ احمد آباد میں پیدا ہوئے، ممبئی یونیورسٹی سے بی اے، ایل ایل بی کیا۔ 1940ء سے 1946ء تک ممبئی مسلم لیگ کے صدر ، قیام پاکستان کے بعد 1947ء سے 1948ء تک حکومت پاکستان کے وزیر تجارت و صنعت اور تعمیرات، 1948ء سے 1949ء تک سفیر برائے افغانستان ، 1953ء میں صوبہ پنجاب کے گورنر اور بعد میں فیڈرل کورٹ کے چیف ایڈووکیٹ مقرر ہوئے۔ 1955ء سے 1956ء تک چوہدری محمد علی کی مرکزی کابینہ میں وزیر قانون رہے اور 1956ء کے آئین کا مسودہ تیار کیا۔ آپ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پورے ملک میں جداگانہ طریق انتخاب رائج کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس ضمن میں کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مرکزی کابینہ نے جداگانہ طریق انتخاب کا بل منظور کرلیا۔ آپ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ ہی اس شرط پر قبول کیا تھا کہ ری پبلکن پارٹی جداگانہ انتخابات کے سلسلے میں حمایت کرے۔13 دسمبر 1957ء کو وزیراعظم چندریگر نے کہا کہ میں جداگانہ طریق انتخاب کی بناء پر قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں کرسکا۔ اس لئے وزارت عظمیٰ کو خیر باد کہہ رہا ہوں ۔آپ 1968کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ملک فیروز خان نون
پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے 16دسمبر1957 سے 7اکتوبر1958 تک وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اور وہ اس عہدے پر295دن تک رہے۔آپ 1893ء کو سرگودھا کے زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے گورنر اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے فرائض انجام دیئے۔ سہروردی کی طرح آپ بھی پارلیمنٹ کی حمایت سے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے ۔آپ کی وزارت پارلیمانی دور کی آخری وزارت ہے جب اس وزارت کی تشکیل ہوئی تو ملک کی سیاسی و اقتصادی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ جس کے نتیجے میں محلاتی سازشوں نے اپنا جال بچھا لیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا گیا۔ ہنگامے اور فسادات روزانہ کا معمول بن گئے تھے۔ کئی لیڈر اور عوام فسادات میں ہلاک و زخمی ہوئے۔ رشوت، چوری، لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ وزراء اور عہدیداروں میں احساس ذمہ داری ختم ہوگیا تھا۔ چنانچہ فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لاء کا نفاذ کردیا۔ اس طرح آپ ہمیشہ کیلئے سیاست سے ریٹائر ہوگئے۔آ پ کا انتقال1970 میں ہوا۔
نورا لا مین
پاکستان کے آٹھویں وزیر اعظم نورا لا مین 7دسمبر سے 20 دسمبر 1971 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے ،ان کی وزارت عظمیٰ کا عرصہ صرف13دن تک رہا۔ تاہم ان کا حلف نہیں ہوسکا تھا۔نور الامین1893میں پیدا ہوئے آپ کی وابستگی مسلم لیگ سے تھی۔ ۔آپ1974کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان کے نویں اور پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو 14اگست1973 سے5جولائی1977تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے،یہ مدت 1421دن بنتی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی سیاست پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں ۔آپ 1971ء سے 1973ء تک پاکستان کے صدر کے منصب پر بھی فائز رہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی کا تعلق دولت مند خاندان سے تھا۔ آپ 5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ کے بااثر سیاست دان شاہ نواز بھٹو کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں 1947ء سے 1949ء تک زیر تعلیم رہے، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے سے 1950ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ، برطانیہ سے ایم اے کی ڈگری 1953ء میں حاصل کی۔ اسی سال لنکنز ان، لندن سے بار ایٹ لاء کی۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز وکالت سے اور اپنی سیاسی زندگی کی ابتداء اقوامِ متحدہ کے وفد میں بطورِ رکن شمولیت سے کی۔ ذوالفقار علی بھٹو عام انتخابات کے ذریعے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران وہ وفاقی وزیر اْمورِ خارجہ رہے اور اس دوران انقلابی اقدامات کئے۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ملک کی باگ ڈور بھٹو کو سونپ دی گئی۔
انہوں نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو اس وقت کے مروّجہ سیاسی نظام کیخلاف کھلی بغاوت تھی ۔ پہلی مرتبہ ’قوت کا سرچشمہ عوام ہے‘ کا تصور پیش کیا ،بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو خودمختار حیثیت دی اور شمالی علاقہ جات میں اصلاحات نافذ کر کے وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کئے۔ عالم اسلام کا تشخص اْجاگر کرنے، مسلم بلاک کے قیام اور اسلامک ورلڈ بینک کے قیام کیلئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ غریب اور محکوم طبقے کی خوشحالی اور تحفظ کیلئے زرعی اصلاحات اور سول سروسز اصلاحات نافذ کیں۔ اپنی پارٹی کے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے غریب عوام کیلئے 5 مرلہ سکیم کا اجراء کیا۔ انہوں نے مزدور یونینوں کو بحال کیا اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے چارٹر پر دستخط کئے۔ ان کے دورِ حکومت میں تیل کے نئے ذخائر دریافت کروائے گئے۔ ملک کو دفاعی لحاظ سے مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ کامرہ ایروناٹیکل اور ہیوی میکینکل کمپلیکس کی تعمیر کروائی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد 90 ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کروانا اور بھارت سے 5ہزار مربع میل رقبہ واگذار کروانا اْن کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابیاں ہیں۔ پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی دلوانے کیلئے پورٹ قاسم، اسٹیل مل اور شاہراہِ قراقرم جیسے بڑے منصوبے تعمیر کروائے۔ اْن کا سب سے بڑا کارنامہ ملک میں قابلِ قبول 1973ء کا متفقہ آئین تشکیل دینا ہے۔وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں قبل ازو قت عام انتخابات کا اعلان کر دیا جس پر حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے متحد ہو کر پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا۔ پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ حکومت کیخلاف ملک بھر میں تحریک شروع کر دی۔ حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس سے پہلے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معاہدہ طے پاتا جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت برطرف کر کے قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بھٹو صاحب کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور 4اپریل 1979ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اْن کو پھانسی دینا نہ صرف ملک بلکہ عدلیہ کی تاریخ میں بھی ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اْن کو پھانسی دینے کا فیصلہ ازخود متنازع تھا کہ فیصلہ کرنے والے جج بھی متفق نہ تھے۔ اس بارے میں جسٹس نسیم حسن شاہ جو فیصلہ کرنے والے ججوں میں شامل تھے کا بیان کہ اس فیصلے کیلئے حکومت کا سخت دباؤ تھا ایک واضح ثبوت ہے کہ بھٹو کو قتل کیا گیا۔
محمد خان جونیجو
پاکستان کے دسویں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے23مارچ1985کو اپنے عہدے کا حلف لیا،آپ اس عہدے پر29مئی1988تک 1162دن تک رہے۔ آپ 1932ء میں سندھ میں پیدا ہوئے کیمبرج کی تعلیم کے بعد امریکا سے زراعت میں ڈپلومہ کیا۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں ہی سیاست میں قدم رکھ دیا تھا۔ 1962ء میں مغربی پاکستان سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1963ء میں مغربی پاکستان کے وزیر صحت مقرر ہوئے اس کے علاوہ کمیونیکشن اور ریلوے کے معاملات بھی سنبھالتے رہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد آپ کو ملک کے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس سے پہلے آپ سندھ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ جونیجو دور کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے مختلف معاملات میں ضیاء الحق کے خلاف قدم اٹھایا، جس میں جنیوا معاہدے پر دستخط کا مسئلہ بھی ہے۔ ضیاء الحق نہیں چاہتے تھے کہ اس معاہدے پر کسی طرح دستخط ہوں مگر جونیجو کے حکم کے مطابق اس پر دستخط کر دیے گئے۔ 1988ء کو جب محمد خان جونیجو دورہ امریکا سے واپس پاکستان پہنچے تو اس وقت صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے قوی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کو توڑنے کا اعلان کر کے انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا، آپ1993کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔
بے نظیر بھٹو
پاکستان کی گیارہویں اور پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988 کواپنے عہدے کا حلف اٹھایا، آپ 6اگست1990تک 612دن اس عہدے پر فائز رہیں، پاکستان کی 13ویں وزیر اعظم کے عہدے پر دوبارہ بے نظیر بھٹو فائز ہوئیں،19اکتوبر1993سے5نومبر1996تک آپ نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا۔ بے نظیر بھٹو کے دو ادوار میں مجموعی طور پر1725دن تک پاکستان کی وزیر اعظم رہیں۔بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیںاسی شہر سے ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر راول پنڈی کے کانونٹ اسکول میں داخل کروا دی گئیں۔ بعد ازاں کانونٹ اسکول مری میں تعلیمی سفر آگے بڑھا۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں۔ 1969ء سے 1973ء تک وہ ریڈکلف کالج اور ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہیں۔ اگلے تعلیمی مرحلے میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں قدم رکھا۔ یہاں سے ’’بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی‘‘ کا کورس مکمل کیا اور اسی سال آکسفورڈ کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم مکمل کی۔ 1976ء میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو بے نظیر کی والدہ نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آگئیں اور وہ بھی آمر کے عتاب کا نشانہ بنیں۔ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے باقاعدہ پارٹی قیادت سنبھالی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ ضیا الحق کے بعد جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور دو بار اس منصب پر فائز ہوئیں۔اپنے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کی بہبود بالخصوص ان کی صحت کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں اور اقدامات بھی کیے۔ عورتوں کے خلاف متعدد امتیازی قوانین کا خاتمہ بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ بے نظیر بھٹو وومن پولیس اسٹیشن، عدالتیں اور ترقیاتی بینک قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں، تاہم انہیں دونوں مرتبہ اقتدار سے الگ کیا گیا اور وہ اپنے منصوبوں پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ کرسکیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو ملک میں آکر اپنی پارٹی کی قیادت نہ کرسکیں، تاہم ان کی غیر موجودگی میں پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا۔18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آئیں۔ وہ 2008ء کے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی تھیں، مگر لیاقت باغ کے سانحے میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ بی بی سی نے لکھا کہ آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔ پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔اْن کے قتل کو سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک بزدلانہ اقدام قرار دیا تھا۔ بے نظیر کی موت سے پاکستانی سیاست اور قیادت میں ایک ایسا شگاف پڑ گیا ہے جو موجودہ دور کا کوئی بھی لیڈر پر نہیں کر سکا۔
میاں محمد نواز شریف
پاکستان کے12ویں،14ویں اور 20ویں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تھے ، پہلی بار انہوں نے 6نومبر1990کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، اور18اپریل1993تک894دن تک اس عہدے پر فائز رہے۔دوسری بار 17فروری1997سے12اکتوبر1999تک آپ اس عہدے پر براجمان رہے۔ تیسری بار پانچ جون2013سے28جولائی2017تک وزارت عظمی پر فائز رہے۔
25 دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے محمد نواز شریف نے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ان کے والد ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔ ستر کی دہائی میں سیاست میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں انھیں پہلی بار حکومت میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں وہ بطور وزیر خزانہ تعینات ہوئے۔1985 کے غیر جماعت انتخابات کے بعد نواز شریف نے وزیر اعلیٰ بن کر صوبہ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے سیاسی کیرئیر کا صحیح معنوں میں آغاز کیا۔ 1988 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ابھرنے والی پارٹی کے ساتھ انھیں وفاق میں حکومت نہ مل سکی لیکن ایک بار پھر وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے گرنے کے بعد 1990 کے انتخابات میں انھوں نے (آئی جے آئی) کی قیادت سنبھالی اور کامیاب انتخابی مہم چلانے کے بعد پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سجا۔ محض تین سال میں صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات کے باعث ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس فیصلے پر نواز شریف نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا جہاں جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں ان کی حکومت کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ مگر یہ بحالی صرف وقتی تھی اور ایک بار پھر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات ختم نہ ہوئے جس کے بعد نواز شریف کو حکومت چھوڑنی پڑی۔ مارچ 1997 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف نے تین چوتھائی کی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور دوسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔دوسرے دور حکومت میں انھوں نے بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور اس وقت کے اپنے بھارتی ہم منصب اٹل بہاری واجپائی کو لاہور دعوت دی۔ 1998 میں انھیں کے دور حکومت میں پاکستان نے پہلی بار جوہری تجربہ کیا جب بلوچستان میں چاغی کے مقام پر پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔اس بار بھی نواز شریف اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کر سکے اور 1999 اکتوبر میں اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کی سربراہی سنبھال لی۔ پرویز مشرف نے حکومت سنبھالنے کے بعد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف پر مختلف نوعیت کے مقدمات چلائے جس میں سابق وزیر اعظم کو جیل جانا پڑا۔ اس دور میں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے فوجی آمر کے خلاف مخالفت کی مہم چلائی۔ پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل ہونے کے سبب نواز شریف نے سزا معطل ہونے کے بعد سعودی عرب میں جلا وطنی اختیار کر لی اور ان کی غیر موجودگی میں 2002 میں ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی نے زیادہ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی۔2006 میں اپنی روایتی حریف بینظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں ملاقات کے دوران دونوں سابق وزرا اعظم نے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کیے اور ملک میں جمہوری دور کی واپسی اور پرویز مشرف سے چھٹکارا حاصل کرنا کا عہد کیا۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ستمبر 2007 میں نواز شریف نے وطن واپسی کی کوشش کی لیکن مشرف انتظامیہ نے انھیں جہاز سے اترنے اجازت نہیں دی اور ائیر پورٹ سے ہی ان کے جہاز کو واپس سعودی عرب لوٹا دیا۔لیکن صرف دو مہینے بعد انھوں نے ایک بار پھر وطن کا رخ کیا اور لاہور کے علامہ اقبال ائیر پورٹ پر ان کا فقدید المثال استقبال کیا گیا۔ نومبر میں ہی انھوں نے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں جس میں 2008 میں ہونے والے الیکشن کو بائیکاٹ کرنے کے بارے میں گفت و شنید کی گئی۔ دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا تو نواز شریف اسپتال پہنچنے والے اولین قومی لیڈران میں ایک تھے۔ فروری 2008 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ دوسری اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنے کے معاہدہ کیا۔ لیکن یہ شراکت داری زیادہ عرصے قائم نہیں رہی اور اختلافات بڑھنے کے بعد نواز لیگ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور ان کی نوعیت اتنی شدید ہو گئی کے 2011 میں نواز شریف نے پی پی پی حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ میں پٹیشن درج کرائی جس میں نواز شریف بذات خود پیش ہوئے۔ دو سال بعد مئی 2013 میں ہونے والے قومی انتخابات میں نواز شریف کی جماعت نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی جس کے بعد انھوں نے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ لیکن اس بار نواز شریف ک سامنے ان کے نئے سیاسی حریف اور سابق کرکٹر عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف موجود تھے جنھوں نے نواز لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور حکومت ختم کرانے کے لیے اگست 2014 سے دسمبر 2014 تک اسلام آباد میں مسلسل دھرنے دیے۔ نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں وزارت خارجہ کی ذمہ داری اپنے ذمے لی ہوئی تھیں اور اس دور میں انھوں نے نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ 2014 میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت کی اور دسمبر 2015 میں نریندر مودی نے لاہور کا بلا اعلان ایک دن کا دورہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے دور حکومت کا سب سے اہم منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا تھا جسے ماہرین نے خطے کے لیے ’گیم چینجر‘ کا خطاب دیا۔ لیکن سال 2016 میں نواز شریف زوال کا آغاز ہوا جب مارچ کے مہینے میں پاناما پیپرز کے نام سے کاغذات منظر عام پر آئے اور ان میں شریف خاندان کے افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان نے حکومت مخالف مظاہروں کا ایک بار پھر سلسلہ شروع کیا اور نواز شریف کے استعفٰی کا مطالبہ کیا۔ چند ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں کے بعد بالاآخر سپریم کورٹ نے نومبر 2016 میں ان الزامات کی تفتیش کے لیے حکم دیا۔اسی سال اکتوبر میں نواز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات ابھر کر سامنے آئے جب ’ڈان لیکس‘ کی خبر منظر عام پر آئی۔ جنوری 2017 سے شروع ہونے والی سماعتوں کی تکمیل اپریل 2017 کو ہوئی جب پانچ رکنی بینچ نے تین دو سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں کے بارے میں مزید تفتیش کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے بعد عمران خان نے اپنے حریف پر تابڑ توڑ حملوں کی مزید بوچھاڑ کر دی اور ’گو نواز گو‘ کے نعرے ملک بھر میں گونجنے لگے۔دوسری تفتیش کی تکمیل جولائی 2017 میں ہوئی جس میں نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں کام کرنے کا اقامہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر صادق اور امین کی شق کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھیرایا گیا اور پانچ صفر کی اکثریت کے ساتھ انھیں اسمبلی سے نااہل قرار دیا گیا۔اس فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ احتساب عدالت میں ستمبر 2017 میں شروع ہونے والی کاروائی کا سلسلہ تقریباً دس ماہ تک جاری رہا جس میں نواز شریف نے اسی سے زائد پیشیوں میں حاضری دی۔اسی اثنا میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو کینسر کی وجہ سے لندن میں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔احتساب عدالت میں پیشیوں کے ساتھ ساتھ نواز شریف نے ملک بھر میں ریلیوں کا آغاز کر دیا جس میں انھوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ پیش کیا اور اپنے خلاف ہونے والی عدالتی کاروائیوں کو ایک سازش قرار دیا۔لیکن گذشتہ سال کی طرح ایک بار پھر جولائی کے مہینے میں عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا اور نواز شریف پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی بنا انھیں دس سال قید بامشقت اور آٹھ ملین پاؤنڈ کے جرمانے کی سزا سنائی۔نواز شریف نے یہ سزا اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ اسی اپارٹمنٹ میں سنی جس کی ملکیت کے بارے میں انھیں سزا سنائی گئی۔ اور اب وہ بیٹی ،داماد کے ساتھ جیل میں ہیں۔
میر ظفر اللہ خان جمالی
پاکستان کے15ویں وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی 23نومبر2002ء سے 26جون 2004ء تک 569دن تک وزارت عظمیٰ عہدے پر فائز رہے ۔ آپ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ایم اے کیا۔1970ء کی دہائی میں سیاست کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کیا۔1980ء میں جنرل ضیا ء الحق کی حکومت میں کئی شعبوں میں بطور وزیر فرائض ادا کئے، وہ مسلم لیگ(ن) کے اہم رہنما کے طور پر سامنے آئے، بعد اذاں مسلم لیگ(ق) میں شمولیت اختیار کرلی۔ان کی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کی وجوہات واضح نہیں، تاہم آپ نے پرویز مشرف کے وردی اتارنے کے معاملے پر ان کی حمایت کرنے سے انکار کیا۔آپ نے لیگل فریم ورک آرڈر کے معاملہ پر متحدہ مجلس عمل سے سمجھوتہ نہ ہو سکنے پر بھرے اجلاس میں صدر مشرف پر انگلی اٹھائی تھی۔ان تمام اختلافات کے باعث وہ مستعفی ہو گئے۔
چوہدری شجاعت حسین
پاکستان کے 16ویں وزیر اعظم کا شرف چوہدری شجاعت حسین کو حاصل ہے۔ آپ 30 جون 2004سے26اگست2004تک وزیر اعظم رہے۔1946کو پیدا ہونے والے چوہدری شجاعت کا تعلق قاف لیگ سے تھا۔
شوکت عزیز
پاکستان کے17ویں وزیر اعظم کا شرف شوکت عزیز کو حاصل ہے، 28 اگست 2004 سے 15 نومبر2007تک اس عہدے پر1183دن فائز رہے۔یوں آپ کو لیاقت علی خان اور قائد عوام ذولفقار علی بھٹو کے بعد تیسرے طویل ترین مدت تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل کر گئے۔آپ 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔1969ء میں ایم بی اے کی ڈگر ی حا صل کی اور1969 ء میں ہی سٹی بینک سے منسلک ہوکر بینکنگ کے شعبے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور اسی بنک کی طرف سے پاکستان ،یونان ،برطانیہ،ملائیشیا اور سنگاپور میں خدمات انجام دیں۔1999ء میں آپ نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا۔2001 ء میں آپ کو فنانس منسٹر آف دا ایئر کا خطاب ملا۔آپ کی نگرانی میں حکومت پاکستان نے سب سے زیادہ بجٹ پیش کیئے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی
پاکستان کے18ویں اور پیپلز پارٹی کے تیسرے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 25مارچ 2008 سے 25اپریل2012تک اس عہدے پر فائز رہے، انہوں نے پاکستانی تاریخ میں اس عہدے پر طویل مدت تک فائز رہنے کا اعزا حاصل کیا۔ 25اپریل کوعدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کیس میں انہیں تیس سیکنڈز کی سزا سنائی۔سز ا کی وجہ سے پارلیمان کی رکنیت اور وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔9جون1952کو پیدا ہونے والے یوسف رضا گیلانی نے 1970میں گریجوایشن اور1976میں ایم اے کیا۔2008میں وہ ملتان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے،2013میں نااہلی کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔راوالپنڈی کی احتساب عدالت نے ستمبر2004مین غیرقانونی بھرتیوں کے الزام میں دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی اور اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا،2006میں عدالتی حکم پر ان کی رہائی ہوئی۔
راجہ پرویز اشرف
پاکستان کے19ویں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف 22جون2012 سے24مارچ تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ 26دسمبر1950کو سانگھڑ میں پیداہونے والے راجہ پرویز اشرف نے1970میں سندھ یونی ورسٹی سے گریجوایشن کی۔راجہ پرویز اشرف کا آبائی تعلق راولپنڈی کے گجر خان سے ہے۔توہین عدالت کے مقدمہ میں یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے بعد پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے لئے مخدوم شہاب الدین کا انتخاب کیا لیکن ڈرگز کے الزامات میں انسدا د نارکوٹکس فورس نے ان کے ورانٹ گرفتاری جاری کردیئے جس بنا پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے،جس پر راجہ پرویز اشرف کی نامزدگی عمل میںا ٓئی۔15جنوری2013کو سپریم کورٹ کیطرف سے رینٹل پاور پلانٹس کیس میں ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے۔
شاہدخاقان عباسی
پاکستان کے21ویں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی یکم اگست2017سے31مئی2018تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مری سے تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی 1988 میں اپنے والد کی راولپنڈی اوجڑی کیمپ حادثے میں ہلاکت کے بعد پارلیمانی سیاست میں داخل ہوئے اور اسی سال ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد سے وہ چھ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہیں صرف 2002 کے انتخاب میں شکست کا سامنا ہوا۔نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں وہ پی آئی اے کے چیئرمین بنے اور 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے موقع پر پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کے جرم میں نواز شریف کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ دو برس جیل میں گزارے۔ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد شاہد خاقان کو اہم وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل سونپی۔
عمران خان
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، 1992 کے عالمی کرکٹ کپ کے فاتح ،شوکت خانم میموریل اسپتال کے بانی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران احمد خان نیازی پاکستان کے22ویں وزیر اعظم ہیں ،آپ 25 نومبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے 1971ء سے 1992ء تک کھیلتے رہے۔ عمران خان نے ابتدائی تعلیم لاہور میں کیتھیڈرل اسکول اور ایچی سن کالج، لاہور سے حاصل کی، آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1992ء کے بعد بین الااقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور میں ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال شوکت خانم میموریل اسپتال ایک ٹرسٹ کے ذریعے قائم کیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے صدراتی ایوارڈ بھی ملا۔ انسانی حقوق کا ایشیا ایوارڈ اور ہلال امتیاز بھی عطا ہوئے۔ آپ بریڈفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ کے چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ۔1995ء میں عمران خان نے برطانوی ارب پتی تاجر سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی، جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی۔ جمائما گولڈ سمتھ نے شادیسے پہلے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام جمائما خان ہے۔ 22 جون، 2004ء کو یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔ 8 جنوری، 2015ء ریحام خان کے ساتھ شادی ہوئی جو اکتوبر، 2015ء میں طلاق پر ختم ہوئی ۔ 18 فروری 2018ء کو پی ٹی آئی نے تصدیق کی کہ عمران خان نے اپنی روحانی پیشوا بشری وٹو سے شادی کر لی ہے۔25 اپریل، 1996ء کو تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ 3 نومبر، 2007ء کو آمر پرویز مشرف کے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد آپ کو نظربند کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ پولیس کو جْل دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ 14 نومبر کو پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا گیا ۔ 7 مئی،2013ء کو ایک فورک لفٹ سے گرنے سے عمران خان زخمی ہوئے ۔2018کے انتخابات میں ان کی جماعت کو عددی اکثریت حاصل ہوئی اور 17اگست کو وہ پاکستان کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوئے اور18اگست کو انہوں نے وزارت عظمی ٰ کا حلف اٹھایا۔