• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتنا غلط فلسفہ ہے یہ اگر ماضی کے رنج و غم کے واقعات دل دکھاتے ہیں تو بڑوں کی نصیحتیں مستقبل میں قدم اٹھانے کی راہ دکھاتی ہیں

نہ بچپن رہتا ہے نہ الھڑ جوانی ،مگر رہ جاتی ہیں یادیں ، ان کا کیا کہنا بے آسرا گھومتی رہتی ہیں ، جس نے بلایا اسی کی ہو رہیں کوئی آواز مانوس لگی تو کانوں میں رس گھولنے لگی ۔ کسی کے چہرے میں اپنے چاہنے والے کی جھلک دکھائی دی تو آنکھوں میں آسودگی آ گئی ۔ عجیب بات ہے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ان یادوں کی تازگی میں فرق نہیں آتا ۔ آنکھیں بند کرو یا نہیں تصویریں نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہیں ۔ برسوں پرانی بات ایسی لگتی ہے ،جیسے کل کی بات ہو، ان یادوں کے جمگھٹ میں رنگینیاں بھی ہوتی ہیں اور اداسیوں کی پھوار بھی ، اس کی جڑیں ہمارے دلوں کی زرخیز مٹی میں پھیلی رہتی ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ہمیں اپنے جال میں جکڑے رہتی ہیں ۔ ان ہی کے تانوں بانوں سے ہمارے ماضی کی چادر بنی ہے اور یہی یادیں بچھڑے ہوئے لوگوں کو بلاتی ہیں ۔ ان میں ہمارے ماں باپ کے ساتھ گذرا زمانہ بھی ہوتا ہے، بہن بھائی کے ساتھ چھیڑ خانی ،ا سکول کالج میں دوستوںکے ساتھ خوش گپیاں بھی ۔ پڑوسیوں کی حکایتیں بھی ، ملازمت کے دور کے واقعات بھی ، دوسرے ملنے والوں کی باتیں بھی ، درس و تدریس سے وابستگی رہی ہو تو شاگردوں کی فرمانبرداری یا شرارتیں ، دوستوں کے گھر یا اپنے خاندان کی شادیاں ، وہ رسمیں ، گانا بجانا ، کہیں نوبت ، شہنائی، کہیں گھومنے پھرنے یا پکنک کا پروگرام ، برسات کا موسم شروع ہوتا تو درختوں پر جھولے کی پینگیں ، بارش میں بھیگنا ۔ الغرض کیا کچھ نہیں ہوتا ، ان یادوں کی زنبیل میں ۔ یہ ضروری نہیں کہ یادیں مرجانے والوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں یہ تو زندہ افراد سے بھی جڑی رہتی ہیں جو حالات بدلنے پر آپ سے جدا ہوکر کسی دوسرے شہر یا ملک چلے جاتے ہیں ۔ چاہے دنیا کا نقشہ بدل جائے ، حکومتیں بدل جائیں، مگر یادیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

کتنا غلط فلسفہ ہے یہ اگر ماضی کے رنج و غم کے واقعات دل دکھاتے ہیں تو بڑوں کی نصیحتیں مستقبل میں قدم اٹھانے کی راہ دکھاتی ہیں ، دل کو ڈھارس دیتی ہیں،

احساس کے صحرا میں اتر آتی ہے جب دھوپ

تب ابرِ کرم بنتی ہیں چھا جاتی ہیں یادیں

کیا یہ غلط ہے کہ الجھن ہو یا پریشانی ہماری یادوں کے کینوس پر ہمارے بزرگ آکر سہارا دیتے ہیں ۔ ماضی میں ایسے حالات میں کیسے ہمت سے کام لیا تھا، کی یاد دلاتے ہیں ۔ میرے نزدیک یادوں کی دولت کبھی کم نہیں ہوتی ۔

(ایم مسعود )

تازہ ترین