• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭موقِف یا موقَف؟

آج کل ٹی وی پر میزبان جب کسی ماہر (یا غیر ماہر)سے ان کی رائے یا کسی مسئلے پر ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اس سلسلے میں آپ کا موقَف (قاف پر زبر)کیا ہے؟ لیکن اس کا صحیح تلفظ موقِف(قاف کے نیچے زیر ) ہے ۔

موقِف عربی کا لفظ ہے ۔ یہ اسم ِظرف ہے اور اس کے معنی ہیں وقف کرنے کی جگہ، قیام کرنے کی جگہ، کھڑے ہونے کی جگہ ، رُکنے کا مقام، وہ مقام جہاں کوئی ٹھہر جائے۔ دراصل کوئی شخص جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں سے اسے مختلف چیزیں ایک خاص زاویے سے نظر آتی ہیں اور اسی سے موقِف کے دوسرے معنی پیدا ہوگئے یعنی زاویہ ٔ نگاہ، اندازِ فکر،نقطۂ نظر، سوچ ، خیال۔ گویا معنی تو درست ہیں لیکن تلفظ غلط ہے۔درست تلفظ میں ’’ق ‘‘ کے نیچے زیر ہے یعنی موقِف۔

٭مُنتظِر یا مُنتظَر؟

عربی الفاظ کے تلفظ میں بعض اوقات بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے کیونکہ عربی میں اکثر زیر اور زبر کے فرق سے مفہوم کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ عربی میںبعض اوقات زیر اور زبر کے فرق سے فاعل اور مفعول کا بھی فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’مُنتظِر ‘‘ (ظوئے کے نیچے زیر ) ہے۔ اس کے معنی ہیں جو انتظار کرے، انتظار کرنے والا۔ لیکن اگر یہاں ظوئے کے نیچے زیر کی بجاے اس پر زبر لگادیا جائے یعنی اسے ’’مُنتظَر ‘‘ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا وہ جس کا انتظار کیا جائے۔ لیکن اس سلسلے میں احتیاط نہیں کی جاتی اور اقبال کے مشہور شعر :

کبھی اے حقیقت ِ منتظَر ! نظر آ لباس ِ مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین ِنیاز میں

میں بھی منتظَر کو منتظِر (یعنی ’’ظ‘‘ پر زبر کی بجاے اس کے نیچے زیر) پڑھا جاتا ہے جس سے مفہوم خبط ہو کر رہ جاتا ہے۔ غلام رسول مہر نے بانگ ِ درا کی شرح’’ مطالب ِ بانگِ درا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس میں وہ مندرجہ بالا شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’حقیقتِ منتظَر: وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جائے ، ذاتِ خداوندی‘‘۔ پھر مفہوم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اے خدا کبھی مادّی لباس میں بھی جلوہ دِکھا‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ منتظَر(ظوئے پر زبر کے ساتھ) ہیں اور ہم منتظِر(ظوئے کے نیچے زیرکے ساتھ) ہیں۔ اللہ ہمارا انتظار نہیں کررہا بلکہ ہمیں اس کا انتظار ہے ، وہ منتظَر ہے۔ ہم اس کا انتظار کررہے ہیں ،ہم منتظِر ہیںکہ کب ان کا جلوہ دِ کھائی دے۔اگر میں آپ کا انتظار کررہا ہوں تو میں منتظِر ہوں اور آپ منتظَر ہیں۔اندازہ کیجیے کہ زیر اور زبر کے فرق سے مفہوم کیسے زیر و زبر ہو جاتا ہے۔

٭مُصوِّر یا مُصوَّر؟

منتظِر اور منتظَرجیسا ایک اور لفظ بھی ہے جس میں زیر اور زبر کے فرق سے فاعل اور مفعول کا فرق ہوجاتا ہے اور وہ ہے مُصوَّراور مصوِ ّر۔ اگر اس میں واو کے نیچے زیر لگا کر مصوِ ّرپڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا جو صورت بنائے، صورت بنانے والا،صورت گر، اللہ تعالیٰ کو بھی کہتے ہیں ۔قرآن شریف کی سورۃ حشر کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کے جو اچھے نام(اسما ء الحسنیٰ) آئے ہیں ان میں سے ایک مصوِّر بھی ہے۔مصوِ ّر کاایک مفہوم’’ تصویر بنانے والا‘‘ بھی ہے اور نقّاش بھی۔لیکن اگر اس لفظ میں واو پر زبر پڑھا جائے یعنی مصوَّر تو اس کا مطلب ہوگا: جس کی تصویر بنائی جائے،جس کی تصویر بنائی گئی ہو، تصویر والا، رسالہ یا کتاب وغیرہ جس میں تصویر ہو، باتصویر۔ اسی لیے جس رسالے میں تصویریں ہوں اسے ’’مصوَّ ر رسالہ ‘‘ کہتے ہیں۔ اسے مصوِ ّر (واو کے نیچے زیر) رسالہ پڑھنا غلط ہوگا۔ جس کاغذپر تصویر بنی ہوئی ہو اسے بھی مصوَّر (واو پر زبر) کہتے ہیں ۔ میر تقی میر کا شعر ہے:

؎دلّی کے نہ تھے کُو چے ، اوراق مصوَّر تھے

جو شکل نظر آئی ، تصویر نظر آئی

کہیے آپ مصوِّر ہیں یا مصوَّر؟

(جاری ہے)

تازہ ترین