• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے علاقے کچا نسبت روڈ میں میرے نانا خواجہ خوشنود حسن اور اُن کے بہنوئی خواجہ غلام حسن مرحوم کا گھر تھا، آج بھی ہے ،جن لوگوں کو نسبت روڈ کے حدود اربع کا اندازہ نہیں اُن کے لئے اتنا جاننا کافی ہے کہ لاہور کا مشہور زمانہ علاقہ گوالمنڈی یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ گھر ایک ہندو کی ملکیت تھا جس کا نام چورنجی لال پریم تھا، یہ نام مکان کے باہر ایک پتھر پر کندہ تھا جس پر جلی حروف میں ’’شانتی بھوم‘‘ لکھا تھا، نیچے مالک مکان کا نام اور تاریخ 27اکتوبر 1927درج تھی، یہ پتھر آج بھی موجود ہے، معلوم نہیں کہ یہ اُس مکان کی تعمیر کی تاریخ تھی یا اِس تاریخ کو یہ مکان چورنجی لال کی ملکیت میں آیا، بہرکیف اِس مکان کی عمر اب تقریباً سو برس ہے۔ یہ مکان کلاسیک طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے، آپ اِس مکان میں جتنی مرتبہ بھی آئیں ہر مرتبہ یوں لگے گا جیسے آپ نے اِس مکان کا کوئی نیا حصہ دیکھا ہے، پانچ مرلے (اُس زمانے کے پانچ مرلے آج کے مقابلے میں زیادہ بڑے تھے) کے اِس دو منزلہ مکان کو اِس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ اِس میں باآسانی چار خاندان رہ سکتے ہیں۔ مکان کا مرکزی دروازہ اس قدر مضبوط لکڑی کا ہے کہ اگر اسے تالا نہ بھی لگایا جائے تو کھولنا عذاب ہے، دیواریں موٹی اور چھت اونچی ہے، مکان میں داخل ہوتے ہی ڈیوڑھی کے ساتھ ایک غسل خانہ اور پھر آگے صحن ہے جس کے دائیں جانب دو کمرے اور درمیان میں ایک باورچی خانہ ہے اور اسی طرح بائیں جانب بھی دو کمرے اور درمیان میں ایک باورچی خانہ ہے، تعمیر ایسے کی گئی ہے کہ دونوں حصوں کے ایک کمرے کا دروازہ باہر کی جانب بھی کھلتا ہے یعنی دونوں خاندان اپنے اپنے حصے میں ایک دوسرے کو زحمت دیئے بغیر آ جا سکتے ہیں اور اپنے مہمانوں کو علیحدہ علیحدہ مل سکتے ہیں جبکہ بیچ والا مرکزی دروازہ اوپر والوں کی آمدورفت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ گھر کے بیچوں بیچ صحن ہے جو سانجھا ہے، یہاں چارپائی بچھا کر لیٹیں اور اوپر کی طرف منہ کرکے دیکھیں تو رات کو تاروں بھرا آسمان دکھائی دیتا ہے (تھا)، اب تو مدت ہوئی تاروں بھرا آسمان نہیں دیکھا۔ اوپری منزل پر بھی اسی طرح دائیں بائیں کمرے اور باورچی خانہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ایک کمرے کی جگہ خالی چھوڑ کر اوپر والوں کے لئے بھی صحن دے دیا گیا ہے، یوں چار چھوٹی فیملیز کے لئے سات کمرے اور چار باورچی خانے علیحدہ چار پورشنز کی شکل میں ایسے تعمیر کئے گئے ہیں کہ گھٹن کا احساس ہوتا ہے نہ تنگی کا۔ اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں ڈیوڑھی کے ساتھ یوں تعمیر کی گئی ہیں کہ نچلی منزل کے مکینوں کے آرام اور پرائیویسی میں خلل واقع نہ ہو، اوپر کے دو پورشن بھی مکمل طور پر علیحدہ ہیں، سب سے اوپری منزل پر کوٹھا ہے جہاں دوسرا غسل خانہ دیا گیا ہے۔ چورنجی لال کی کوئی اولاد نہیں تھی، مکان کے اوپری حصے میں جہاں ایک باورچی خانہ اور ایک کمرہ تھا وہاں چورنجی لال رہتا تھا جبکہ باقی تین حصے اُس نے تین مختلف خاندانوں کو کرائے پر دے رکھے تھے۔

یہ زندگی بے حد عجیب ہے، بے ترتیب ہے، لا یعنی ہے، غیرمتوقع واقعات کامجموعہ ہے۔ آج سے سو سال پہلے جب یہ مکان چورنجی لال پریم کے تصرف میں آیا ہوگا تو اُس نے خود کو کتنا خوش قسمت شخص سمجھا ہوگا، اُس کا خیال ہوگا کہ اب اسے زندگی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، زندگی کے بکھیڑوں کا علاج یہی ہے کہ اس مکان کے تین حصے کرائے پر چڑھا دوں اور خود "Chill" کروں۔ یہی سوچ کر اِس مکان میں نہ جانے اُس نے کتنے برس گزارے ہوں گے، نہ جانے یہاں کتنے کرائے دار آئے ہوں گے، کتنے بچے اس مکان کے آنگن میں کھیل کر بڑے ہوئے ہوں گے، کتنے لوگوں کی ارتھیاں یہاں سے اٹھی ہوں گی، کتنی نئی زندگیوں نے یہاں جنم لیا ہوگا، یہاں کرائے داروں کے جھگڑ ے بھی ہوئے ہوں گے اور انہوں نے آپس میں خوشیاں بھی اکٹھے منائی ہوں گی۔ اِن سو برسوں میں کئی خاندان یہاں بسے ہوں گے، اُن کی زندگیوں میں نہ جانے کیا کچھ ہوا ہوگا، کبھی زندگی کے کسی موڑ پر کوئی مایوس ہوا ہوگا، کبھی کسی نے خود کو قسمت کا دھنی سمجھا ہوگا، کوئی کامیاب ہوا ہوگا کہیں کوئی ناکام ہوا ہوگا، کوئی غریب سے امیر ہوا ہوگا، کوئی گھر سے بے گھر ہوا ہوگا۔ شانتی بھوم کے آنگن میں بیٹھ کر آسمان کی طرف تکتے ہوئے چورنجی لال پریم کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک روز اسے یہ گھر بار چھوڑ کرلاہور سے امرتسر ہجرت کرنا پڑے گی۔

ہم سب بھی چورنجی لال پریم کی طر ح ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ زندگی کے بکھیڑے دور کر نے کے لئے کوئی ایک کام ایسا کر لیں جس کے بعد کچھ مزید نہ کرنا پڑے تاکہ زندگی بغیر کسی ٹینشن کے آسانی سے گزاری جا سکے، ہم میں سے کچھ لوگ ایسی نوکری چاہتے ہیں جو تمام عمر کی پریشانیوں کا ون اسٹاپ حل ہو، کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک پلازہ تعمیر کرکے کرائے پر چڑھا دیا جائے تاکہ گھر کے خرچوں سے جان چھوٹے اور ہر ماہ کرائے کی رقم وصول کرکے چورنجی لال کی طرح chillکیا جائے، کوئی اپنے کاروبار کو کامیاب کرکے سکون کی نیند سونا چاہتا ہے اور کسی کی خواہش ہے کہ اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوائے تاکہ بعد کی زندگی کے تمام دلدر ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ زندگی ہر قدم پر رنگ بدلتی ہے، آپ آج سے دس پندرہ برس پہلے کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں ہم میں سے ہر کسی کی زندگی میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ہم لوگوں کی زندگیوں میں خوشی کے ایسے لمحات بھی آئے ہوں گے جب ہمیں یوں لگا ہوگا جیسے ہم نے دنیا فتح کر لی ہے اور ایسے مایوس کُن لمحات بھی آئے ہوں گے جب دل چاہا ہوگا کہ خودکشی کرلیں۔ اس ناقابل فہم زندگی میں کوئی بھی بات مستقل نہیں، کوئی مستقل خوشی ہے اور نہ کوئی مستقل غم، شانتی بھوم کے مکینوں نے خوشیاں بھی منائی ہوں گی اور غم بھی، آج نہ شانتی بھوم رہا اور نہ اُس کے مکین، اس عظیم الشان کائنات میں ہماری بس یہی اوقات ہے۔ آج جس بات کو ہم نے زندگی موت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے چند برس بعد شاید وہ بات ہی ہمیں یاد نہ رہے، اسی طرح جو لوگ خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں چند برس بعد کوئی اُن کا نام لیوا بھی نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے اس بات کا ادراک کچھ انسانوں کو اُس وقت ہوتا ہے جب اُن کی میت کے آگے فاتحہ خوانی کی جا رہی ہوتی ہے۔

کالم کی دُم: لاہور میں شانتی بھوم جیسے ہزاروں گھر ہیں جہاں چورنجی لال پریم جیسے لوگ رہے، ان لوگوں کے خاندان اب بھی سرحد کے اُس پار رہتے ہیں، اسی طرح امرتسر میں بھی ایسے ہزاروں گھر ہوں گے جہاں لاہور کے مسلمان خاندان رہتے تھے، یہ نسل اب اپنے آخری دموں پر ہے، یہ لوگ اب اسّی نوّے برس کے ہو چکے ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر ان لوگوں کو مرنے سے پہلے اپنے اپنے آبائی گھر دیکھنے کا موقع دے دیا جائے۔ اگر دونوں ممالک کی حکومتیں یہ ایک کام کر ڈالیں اور اِس اداس نسل کے لئے ویزے کی شرائط نرم کردیں تو اس خطے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ لاہور کے سحر کے آگے ’’چورنجی لال پریم‘‘ ڈھیر ہو جائیں گے۔

تازہ ترین