• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلزپارٹی کے چار کارکن مولانا فضل الرحمٰن سے متاثر ہوئے، مظاہرہ کیا اور جیل چلے گئے ہیں۔ ان جیالوں کو مولانا فضل الرحمٰن کا وہ مظاہرہ بڑا مہنگا پڑا ہے جس میں مولانا نے یوم آزادی ٔ پاکستان نہ منانے کی بات کی تھی۔ یہ جیالے اس مظاہرے میں عدلیہ کیخلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ گزشتہ روز انہیں اداروں کی توہین کا سبق سکھا دیا گیا۔ اس قربانی کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن پیپلز پارٹی کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ الٹا ن لیگ والوں سے حلوہ کھا رہے ہیں۔ مولانا کو پتا ہونا چاہئے کہ پیپلز پارٹی والے اسپتالوں میں شہد اور زیتون کا متواتر استعمال کرتے ہیں۔ آج صدارتی الیکشن کامرحلہ مکمل ہو جائے گا مگر مجھے اس مرحلے پر دو منظر بڑے حیران کن لگ رہے ہیں۔ پہلا منظر اس لئے عجیب ہےکہ ایک ایسا شخص صدارتی امیدوار ہے جو پاکستان کے یوم آزادی کو منانے سے گریزکرتا ہے۔ جس کے اجداد نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ دوسری حیرت مجھے مسلم لیگیوں پر ہے کہ وہ کس منہ سے مسلم لیگی بنے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی سچا مسلم لیگی کسی ایسے شخص کوووٹ نہیں دے سکتا جو پاکستان کا یوم آزادی نہ مناتاہو، پیارے پاکستان کے یوم آزادی کے جشن کے خلاف ہو۔ افسوس صد افسوس کہ ایسے شخص کوووٹ مل رہے ہیں، کیا کیا جائے۔ اقتدارکی ہوس میں لوگ بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ خیر آج صدارتی الیکشن میں ڈاکٹر عارف علوی کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کامیابی کے بعد کھلاڑی، جیالے اور پٹواری سوشل میڈیا پر جنگی محاذ سنبھال کر گولہ باری کرتے رہیں گے، جھوٹی سچی پوسٹیں لگاتے رہیں گے، پھرمیڈیا ان پر تبصرہ کرتارہے گا۔مجھے ان جھوٹی سچی پوسٹوں سے ہیلی کاپٹر، وزیراعظم ہائوس کے اخراجات، ایک صحافی کی خبر، وزیر اعلیٰ پنجاب اور ڈی پی او پاکپتن یاد آ جاتے ہیں۔ ایسی پوسٹوں کو تیار کرنے والے ماہرین سے میری گزارش ہے کہ وہ ذرا اپنی دید کی عینک بدل کر اس تبدیل ہوتے ہوئے منظر کو دیکھیں جس میں قومی غیرت جاگ رہی ہے۔ چوروں اور لٹیروں کے قصیدوں سے فرصت ملے تو غور کیجئے کہ نئی حکومت نے اپنے پہلے بارہ روز میں کتنے انقلابی اقدامات کاآغاز کردیا ہے۔

(1)کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ وزیر اعظم سینیٹ کے روبروپیش ہوئے۔ واضح رہے کہ یہ وہی سینیٹ ہے جو وزیراعظم کوبلوانے کے لئے قراردادیں پیش کیا کرتا تھا۔ اراکین سینیٹ ترستے تھے کہ کب ملک کے وزیراعظم سینیٹ کا رخ کریں گے۔ نئے وزیراعظم نے تو سینیٹ کو انتظار نہیں کروایا۔

(2)پہلے بارہ روز میں سفارت کاری کے جوہر دکھائے گئے جن کے باعث ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیاگیا۔ اس کا کریڈٹ کسی اورمسلمان ملک کو نہیں جاتا اگرچہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی احتجاج ہو رہاتھامگر ان خاکوں کے مقابلے کو منسوخ صرف پاکستان کی وجہ سے کیاگیا۔ اس کا اظہارہالینڈ کی حکومت کرچکی ہے۔ کیا اس سے پہلے پاکستانی حکومتوں نے کبھی ایساکیاتھا؟ کبھی جرأت مندی کا یہ اظہارسامنے آیا تھا؟کبھی ہمارے حکمرانوں نے اتنی بہادری سے دنیاپراپنا موقف واضح کیاتھا؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔

(3)وزیراعظم نے اپنے اخراجات کم کئے۔ اس سے پہلے ایساکیوں نہیں ہوسکا؟ کیا پہلے وزرائے اعظم کو قومی بچت کا خیال نہیں تھا؟ عمران خان ہی وہ پہلے وزیراعظم کیوںہیں جنہوں نے پاکستان کے اخراجات بچانے کا سوچا۔ صرف سوچا نہیں کرکے دکھا دیا۔

(4)بہت سے لوگو ں کو علم نہیں کہ ایف بی آرمیں بہت سے انقلابی اقدامات ہو رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ایف بی آر کی تعمیر نو ہو رہی ہے۔

(5)منی لانڈرنگ رک چکی ہے۔ اس کے خلاف سخت ترین اقدامات کئے جارہے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ نیشنل بینک کے اس صدر کوہٹادیا گیا جس کے پاس بینکنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ جو برطانیہ میں اولڈ ہوم میں نوکری کرتا تھا۔ جوسعودی عرب کاسزا یافتہ تھا۔ بس اسحاق ڈار کا دوست اور رشتے دار ہونے کے باعث پاکستان کےقومی بینک کاسربراہ بنادیاگیاتھا۔

(6)ان 12دنوں میں حکم دے دیا گیا ہے کہ تمام بڑے منصوبوں کا آڈٹ کیاجائے تاکہ پتا چل سکے کہ ہمارے ملک کو چوروں نے کتنا لوٹا؟

(7)صحرا کا روپ دھارتےہوئے ملک کا کسی کواحساس نہ تھا کہ یہ ملک بنجر ہوتا جارہا ہے۔ یہاں سبزہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ نئی حکومت نے احساس کیا۔ دس ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز وزیراعظم پاکستان کرچکے ہیں ۔ اس سے پاکستان سرسبز ہوجائےگا۔ صحرا بننے سے بچ جائے گا۔

(8)پچاس لاکھ گھروںاور ایک کروڑ نوکریوں کے سلسلے میں منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں اجلاس ہوچکے ہیں۔

(9)ملک بھر میں اسکولوں کی سطح پر قرآن پاک کی تعلیم لازمی کردی گئی ہے۔ یہ کام پہلی حکومتیں کیوں نہ کرسکیں؟ حتیٰ کہ 2002سے 2008تک ایم ایم اے کی صوبائی حکومت خیبرپختونخوا میں تھی، وہ بھی یہ نیک کام نہ کرسکی۔

(10)نادرا کے آر ٹی ایس کے فیل ہونے پرانکوائری کاحکم دیا جاچکاہے۔

(11)ہر وزیر آج کل مصروف ہے کہ اسے 90دن کے اندر وزارت کی پانچ سال کے لئے تمام منصوبہ بندیوںکا پورا پروگرام پیش کرنا ہے۔

(12)پیمرااور پریس کونسل کی جگہ نیشنل ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جارہی ہے۔

(13) 75سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے ریل کا سفر مفت کردیا گیا ہے جبکہ 65 سال سے زائد عمر کے لوگوںکے لئے ریل کا کرایہ آدھا کردیا گیاہے۔ شیخ رشید احمد ریلوے میں انقلابی اقدامات کررہےہیں۔ انہوںنے کئی نئی ٹرینیں چلانے کااعلان کردیا ہے۔ کئی بند ٹریک چالو کرنے کااعلان کیا ہے۔

(14)ملک میں شانداربلدیاتی نظام ترتیب دیا گیا ہے جونہی اس کا اطلاق ہوگاتو لوگوں کو ایک بدلا ہوامنظر نظر آئے گا۔ ان کے مسائل ان کی دہلیزپرحل ہوتے ہوئے نظرآئیں گے۔ بقول احمد ندیم قاسمی؎

خدا کرے مری ارضِ پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین