میں جب بھی عشق و محبت کی وارفتگی کے مناظر دیکھتا ہوں۔ ہمیشہ اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ یہ سب کچھ، جو بدن کی لرزش میں دکھائی دیتا ہے، جو عقیدت کا نورانی ہالہ بن کر ہمارے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے، جو درد میں ڈھل کر جوئے خوں کی طرح ہماری آنکھوں سے ٹپکتا ہے، جو سوز و گداز کا دل دوز آہنگ لئے ہمارے وعظوں، خطبوں، نعتوں، نوحوں اور مرثیوں میں رچ بس جاتا ہے اور جو ہمیں کچھ دیر کے لئے دنیا و مافیہا سے بے گانہ کر دیتا ہے، وہ ہمارے کردار و عمل کا حصہ کیوں نہیں بن پاتا؟
مجھے جب بھی حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی، اس سوال کی چبھن تیز تر ہوگئی۔ مکہ و مدینہ کے حرمین میں ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دنیا آنکھوں سے تحلیل ہو جاتی ہے، کسی رشتہ و پیوند کا تصور تک باقی نہیں رہتا، ریاض الجنہ میں گریہ و زاری کرتے لوگ، روضہٴ رسول کی سنہری جالیوں کی طرف لپکتے روتے بلکتے اور دعائیں مانگتے لوگ، خانہ کعبہ کا دیوانہ وار طواف کرتے لوگ، باب کعبہ کو تھامے بچوں کی طرح آنسو بہاتے لوگ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے حرمین شریفین کی آغوش رحمت میں ایک نئی قوم جنم لے رہی ہے، ایک نئی امت مسلمہ وجود میں آ رہی ہے، اللہ سے لو لگانے اور محمد عربی سے لازوال محبت کو حاصل حیات سمجھنے والے انسانوں کا ایک نیا قبیلہ پرورش پا رہا ہے۔ جذب و عشق کے اس دریائے نور سے نکل کر جب یہ باہر قدم رکھیں گے تو ان کے اندر ایک انقلاب بپا ہو چکا ہو گا۔ یہ سر تا پا ایک نئے سانچے میں ڈھل چکے ہوں گے۔ یہ وہ نہیں رہیں گے، جو تھے۔ پھر مجھے علامہ کے وہ اشعار یاد آتے ہیں جن میں بندہ مومن کی صفات بیان کی گئی ہیں۔
ہاتھ ہے اللہ کا، بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشاؤ کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندئہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز
پھر میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب محبت و عقیدت میں بھیگی عبائیں اور ندامت کے آنسوؤں سے تر بتر احرام اتار کر جدہ ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں مدینہ منورہ کی کھجوروں کے تھیلے، زمزم کے کین اور رنگارنگ سامان سے ٹھنسے بکسے رہ جاتے ہیں۔ پھر ہم پاکستان اپنے اپنے ہوائی اڈوں پر اترتے ہیں۔ ہمارے عزیز ہمارے گلوں میں تازہ گلابوں کے ہار ڈالتے، پھولوں سے آراستہ گاڑیوں میں بٹھاتے، گھر لے آتے ہیں۔ پھر محفلیں آراستہ ہوتی ہیں۔ ہم مکہ مدینہ کی داستانیں سناتے ہیں اور پھر گردش شام و سحر میں سب کچھ بھولی بسری کہانی ہو جاتا ہے۔ ہمارے اندر پھر سے وہی جالے تن جاتے ہیں، پھر سے وہی کدورتیں جاگ اٹھتی ہیں اور ہم پھر سے ”سگ زمانہ“ بن کے رہ جاتے ہیں۔
یہی کیفیت جشن میلاد النبی کی ہوتی ہے۔ حضور ختم المرسلین کی ولادت کا معطر دن محبتوں اور عقیدتوں کا ایک سیل رنگ و نور لے کر طلوع ہوتا ہے۔ چار سو نعتوں کے زمزمے پھوٹتے ہیں۔ عشّاق بڑے بڑے جلوسوں کی شکل میں سڑکوں پر آتے ہیں۔ واعظان کرام حضور کے مشکبور تذکرے سے دلوں کو گرما دیتے ہیں۔ عربی لباس پہنے، گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار چھوٹے بڑے حجاز کے عہد رفتہ کو آواز دیتے ہیں۔ دیگیں پکتی اور سبیلیں لگتی ہیں۔ کوچہ و بازار پرچموں، بینروں اور جھنڈیوں سے آراستہ کئے جاتے ہیں۔ عمارتیں چراغوں سے جگمگا اٹھتی ہیں اور پھر سعادتوں اور برکتوں سے بھرا زمانوں پر محیط یہ مہکتا اور دمکتا دن وقت کی تقویم میں گم ہو جاتا ہے۔ صبح طلوع ہوتی ہے، پھر شام اترتی ہے، پھر کچھ اور صبحیں پھر کچھ اور شامیں…!! اور پھر نبی رحمت سے محبت و عقیدت کے بے مثل مظاہروں کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔ ہم حضور کے اسوئہ حسنہ سے بے خبر، آپ کی منور تعلیمات سے بے نیاز، ڈھورڈنگروں کی طرح دنیا کی شاداب چراگاہوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔
محرم بھی کچھ اسی انداز سے آتا ہے۔ کون سا مسلمان ہے جو حسین ابن علی کے تاریخ ساز کردار اور آپ کی شہادت عظمیٰ کے مقام بلند کا معترف نہ ہو۔ کون سا مسلمان ہے جس کا دل آپ اور آپ کے اہل و عیال اور آپ کے رفقا پر ٹوٹنے والی قیامت پر غم سے بھر نہ جاتا ہو۔ پھر ماتم گروں کے جلوس، ان کا ماتم، ان کی آہ وزاری، ذاکران کرام کے وجد آفریں بیان، مرثیے، سوز، سلام، نوحے، مجلسیں، شام غریباں، عزاداری، حسین اور کربلا کی یاد کس شان اور کس عقیدت سے منائی جاتی ہے۔ لیکن کیا ہمارے اندر استبداد کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم جواں پیدا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے دلوں میں حسین کی روح حلول کرتی ہے؟ کیا ہم حق کی سربلندی کیلئے کٹ مرنے کے لئے آمادگی سے ہمکنار ہوتے ہیں؟ کیا ہماری جبینیں اس ایک سجدے کی تڑپ محسوس کرتی ہیں جو ہزاروں سجدوں سے بے نیاز کر دیتا ہے؟ حسین سے عشق و محبت کے یہ مظاہرے، حسین کو ہمارے فکر و احساس میں جگہ کیوں نہیں دیتے؟ علامہ اقبال نے کس سرور بخش لہجے میں کہا تھا۔
آں امام عاشقاں پورِ بتول
سروِِ آزادے زبستان رسول
بہرآں شہزادئہ خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
موسیٰ و فرعون وشبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خونِ او چمن ایجاد کرد
رمز قرآں از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوختیم
شوکت شام و فرِ بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تارِ ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایماں ہنوز
اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک، ما بر خاکِ پاک او رساں
(وہ جو عاشقوں کا امام و پیشوا اور فاطمة الزہرا کا فرزند اور رسول پاک کے باغ کا سروِ آزاد تھا۔ امت مسلمہ کے اس بہترین شہزادے کے لئے رسول کریم کے مبارک شانے، سواری تھے۔ موسیٰ اور فرعون، شبیر (امام حسین) اور یزید یہ دو متضاد قوتیں زندگی کے روز اول سے ہی چلی آرہی ہیں۔ حق شبیر کی طاقت سے ہی زندہ ہے اور باطل کا انجام حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ حسین نے قیامت تک کے لئے جبر و استبداد کی جڑیں کاٹ دیں۔ آپ کی موج خوں نے ایک تازہ چمن ایجاد کیا۔ قرآن کے اسرار و رموز ہم نے حسین سے سیکھے۔ آپ ہی کی آگ سے حرارت ایمانی کے شعلے چُنے۔ شام کی شان و شوکت اور بغداد کی عظمت جاتی رہی، غرناطہ کی شوکت و سطوت بھی ہماری یادوں سے محو ہو گئی، لیکن ہماری زندگی کے تار آج بھی اسی مضراب کی وجہ سے لرزاں ہیں، اسی کے نعرئہ تکبیر کے سبب ہمارا ایمان آج تک زندہ ہے۔ اے بادِ صبا! اے دور کی بستیوں کے مکینوں کی نامہ بر! میرے آنسو اس کی قبر کی خاک پاک تک پہنچا دے)۔
کیا ہمارا دین، ہماری روایات، ہماری تاریخ، ہمارے اسلاف صرف تذکروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں؟ کیا اسلام کا روشن تریں پیغام، چند مظاہر میں سمٹ گیا ہے؟ کیا علامہ ہی کے الفاظ میں یہ امت ”روایات“ کی نذر ہو گئی ہے اور دین کی روح ہمارے حاشیہ کردار و عمل سے کہیں دور نکل گئی ہے۔ کیا مشرق کے اس عظیم شاعر نے ٹھیک کہا تھا کہ
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے