اسلام آباد، کراچی( طاہر خلیل، آسیہ انصر، نیوز ڈیسک) ملک کے 13ویں صدر مملکت کا انتخاب سینیٹ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار 121 ووٹرز خفیہ رائے شماری کے ذریعے کریں گے، کون بنے گا صدر پاکستان، عارف علوی، اعتزازاحسن یا فضل الرحمن فیصلہ آج ہوگا، اپوزیشن کےدونوں امیدواروں اعتزاز احسن اورمولانا فضل الرحمن میں سے کوئی دستبردار نہیں ہوا، ایک دوسرے کو منانے کی آخری کوششیں بھی ناکام ہوگئیں، نمبر گیم میں حکمران پارٹی تحریک انصاف کے عارف علوی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں،زرداری سے ملاقات میں فضل الرحمن دستبرداری پر رضامند ہوگئے اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) مان جائے تو دستبردار ہو جائونگا تاہم شہباز شریف اعتزاز کو ووٹ نہ دینے پر ڈٹ گئے اور کہا کہ کسی صورت اعتزازکو سپورٹ نہیں کر سکتے، جواب میں زرداری بھی اپنے امیدوار کے نام پر ڈٹ گئے ۔ادھر پارلیمنٹ ہائوس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کرکے بیلٹ پیپرزسمیت دیگر سامان پہنچا دیا گیا،ووٹرز کی فہرستیں بھی جاری کردی گئیں ،1121ارکان صدر کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالیں گے۔ تفصیلات کےمطابق ملک کےآئندہ صدر کا فیصلہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کریں گے، ان ایوانوں میں نشستوں کی کل تعداد تو 1174 ہے لیکن صدارتی انتخابات کےلیے1121 ارکان ہی ووٹ ڈال پائینگے۔ سینیٹ کی 2قومی اسمبلی کی 12نشستیں خالی، 4صوبائی اسمبلیوں کی30 نشستیں بھی خالی ہیں، 9 نشستوں پر ابھی تک حلف نہیں اٹھایا جا سکا۔ الیکشن کمیشن نےووٹرز فہرستیں پریزائیڈنگ افسران کے حوالے کردی ہیں جن کے مطابق صدارتی انتخاب کے لئے سینیٹ کے 102ارکان ووٹرز ہیں، قومی اسمبلی کے 330ارکان صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں صدارتی ووٹرز کی تعداد 354 ،سندھ اسمبلی میں 163 ہے۔کے پی اسمبلی سے صدر کے انتخاب میں 112 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے 60 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے ۔ صدارتی الیکشن کی ووٹنگ کےلئے اسمبلی سیکرٹریٹس کا جاری کردہ کارڈ لانا لازمی ہوگا۔صبح 10بجے شروع ہونےوالے خفیہ رائے شماری شام 4بجے تک جاری رہے گی ۔موبائل فون سمیت کسی بھی کیمرہ ڈیوائس کا پولنگ اسٹیشن میں لانا ممنوع قرار دے دیا گیا ،پولنگ کے لیے بیلٹ پیپرز اور دیگر سامان متعلقہ اسمبلیوں میں پہنچا دیا گیا۔آئین کے تحت تمام صوبائی اسمبلیوں میں صدارتی الیکشن کے لئےووٹ سب سے کم ارکان والی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کے برابر ہوتے ہیں ۔ 2 نشستیں خالی اور 3 ارکان کے حلف نہ اٹھانے کے باعث 65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں اس وقت 60 ارکان ووٹر ہیں۔قومی اسمبلی ، سینٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ایک ووٹ ہے۔ پنجاب اسمبلی کے 5.9 ارکان کا ایک ووٹ ہوگا۔ سندھ اسمبلی کے 2.71 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے 1.86 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کےلئے پارلیمنٹ ہائوس کو پولنگ اسٹیشن کا درجہ دے دیا گیا جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی پولنگ سٹیشن بنایا گیا ہے ۔ اسلام آبادسمیت چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز پریذائیڈنگ افسرہوں گے، چیف الیکشن کمشنر صدارتی انتخاب کے ریٹرننگ افسر کی حیثیت سے حتمی نتائج کا اعلان کریں گے۔پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں (ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے 48، تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 25، پیپلزپارٹی کے 20اور 11آزاد ارکان ہیں۔قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 176، (ن) لیگ اور اتحادیوں کے 96، پیپلزپارٹی کے 54، 4آزاد اور 12نشستیں خالی ہیں۔اس طرح پارلیمنٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کو 201، مولانا فضل الرحمان کو 144اور اعتزاز احسن کو 74ووٹ پڑ سکتے ہیں جب کہ 15آزاد ارکان بھی حق رائے دہی استعمال کریں گے۔پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف الائنس کے پاس 186 نشستیں یعنی 33الیکٹورل ووٹ، (ن) لیگ کے 162ارکان یعنی 29الیکٹورل ووٹ، پیپلزپارٹی کے 7ارکان ملا کر ایک الیکٹورل ووٹ بنے گا۔سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 97ارکان کی بدولت 48الیکٹورل ووٹ جب کہ تحریک انصاف الائنس کے 66 ارکان کے 26الیکٹورل ووٹ بنیں گے۔ (ن) لیگ کا سندھ اسمبلی میں ایک بھی الیکٹورل ووٹ نہیں۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 79 ارکان ملکر 42، اپوزیشن اتحاد کے پاس 27 ارکان کے 14 اور پیپلز پارٹی کے پاس 5 ارکان کے 3 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 46 اور اپوزیشن کے پاس 20 ووٹ ہیں۔ 5 نشستوں پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔کل ووٹوں پر نظر ڈالیں تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 201، پنجاب میں 33، سندھ میں 26، خیبر پختون خوا میں 42 اور بلوچستان اسمبلی میں 46 ووٹ ہیں جو مجموعی طور پر 342 ووٹ بنتے ہیں۔(ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 144، پنجاب اسمبلی میں 29، سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 14اور بلوچستان اسمبلی میں 20الیکٹورل ووٹ ہیں، اس کے مجموعی الیکٹورل ووٹ 207بنتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹ میں 74، پنجاب اسمبلی میں ایک، سندھ اسمبلی میں 48 اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں تین الیکٹورل ووٹ مل کر 116 بنیں گے۔پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے 19 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو 350، مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین ملک کے بارہویں صدر ہیں، انہوں نے 9 ستمبر 2013 کو حلف لیا تھا جس کے تحت صدر کی آئینی مدت 8 ستمبر 2018 کو پوری ہوگی۔ووٹوں کی مجموعی تعداد 672ہے،صدر ممنوں اسی ہفتے سبکدوش ہو جائینگے،نو منتخب صدر 9ستمبر کو حلف اٹھائیں گے۔