امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی افواج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ کے مختصر مگر خاصے اہم ایک روزہ دورہ اسلام آباد کے تقابلی اثرات و شواہد جاننے کے لئے آپ کو اگلےدو روز تک پڑوسی بھارت سے آنے والی تفصیلات کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ مائیک پومپیو اسلام آباد سے نئی دہلی جائیں گے تو امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس امریکی شہر سان ڈیگر کے ساحلوں پر لنگر انداز ’’کیرئیر اسٹرائیک گروپ ‘‘ کا دورہ کر کے براہ راست نئی دہلی کا سفر کرکے بھارت پہنچیں گے۔ گو کہ امریکی اپنی وسیع اور منظم جنگی مشین کے اس کیریئر اسٹرائیک گروپ‘‘ بارے تفصیلات بتانے سے گریزاں ہیں لیکن میرا گمان ہےکہ یہ چھ ہزار سے زائد امریکی فوجیوں اور میرینز پر مشتمل ایک ائر کرافٹ کیریئر ، ایک ڈسٹر ائر سکواڈرن ، کم ازکم دو فریگیٹ کیریر اور65،70جنگی طیاروں پر مشتمل امریکی سابق صدر تھیوڈور روز ویلٹ کے نام سے موسوم تھیوڈور روز ویلٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ‘‘ ہے۔
جب ہمارے حکمراں اور سیاست دان اپنے اقتدار کیلئے بدترین انتقامی سیاست میں مصروف کار تھے اور ملک کو اور خطے کو درپیش خطرات سے بالکل بےخبر اور بے نیاز تھے انہی ایام میں امریکہ کا یہ جنگی ’’اسٹرائیک گروپ‘‘ بحر ہند ،خلیج فارس اور پیسیفک اوشین میں سات ماہ کا سفر، ،تجربات اور ٹریننگ کرتا ہوا اسان ڈیگو پہنچا ہے۔ اس گروپ نے افغانستان ،عراق اور شام پر اپنے جنگی طیاروں کے تقریباً 1200حملے بھی کئے۔ جی ہاں! سمندر سے محروم افغانستان بھی اس کیریر اسٹرائیک گروپ کا ٹارگٹ تھا،۔لیکن ہم تو ان تمام حقائق اور خطرات سے بےنیاز اسلام آباد میں تبدیلی اقتدار اور کرسی اقتدار پر ٹارگٹ کئے ہوئے تھے۔ بہرحال امریکی وزیر دفاع سان ڈیاگو میں لنگر انداز ’’کیریئر اسٹرائیک گروپ‘‘ کے دورہ اور لیڈر شپ سے ملاقاتوں اور ممکنہ بریفنگ کے بعد نئی دہلی پہنچیں گے۔ جہاں صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک اور دفاعی تعاون کیلئے طے شدہ الاٹیز پر تعلقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اس میں دو طرفہ، علاقائی اور گلوبل امور بھی شامل ہیں۔امریکہ اور بھارت کے درمیان سیکورٹی ،جنگی اور تجارتی شعبوں میں تعاون اور قربت کی تفصیل سب کے علم میں ہے۔ امریکہ نے بحرالکاہل کے علاقوں کیلئے اپنی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کر کے ’’انڈو پیسیفک کمانڈ رکھ دیا ہے۔ لیکن بھارت اب بھی مطمئن نہیں اور الٹا امریکہ سے ’’ڈومور ‘‘ کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکہ کو اس پر اعتراض ہے کہ بھارت تمام تر امریکی نوازشات کے باوجود روس سے 6ارب ڈالرز مالیت کے اینٹی ائر کرافٹ روسی میزائل خرید رہا ہے جو کہ امریکی قانون کی خلاف ورزی ہے اور امریکہ بھارت پر اس خلاف ورزی کے باعث پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایران کے خلاف امریکی پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد ایران سے تیل خریدنے والے ملک پر بھی امریکہ پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ لیکن بھارت ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل اور دیگر ایرانی مراعات کا استفادہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ نئی دہلی کےدورے پر مذاکرات کیلئے موجود دونوں امریکی وزراء کیلئے بھارت کے امریکہ سے ’’ڈومور ’’ کے یہ مطالبات اہم مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ متعدد بار بھارت کو یہ بتا چکے ہیں کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت کے لئے کچھ آسانی رہے گی البتہ روس سے اینٹی کرافٹ میزائلوں کی خریداری کے معاملے میں امریکی انتظامیہ اپنے قانون کے ہاتھوں بھارت پر پابندی کے لئے مجبور ہو گی۔ ان تمام حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ بھارت نے اپنی آزادی سے اب تک کے 70سالوں میں تمام عالمی اداروں میں امریکہ کے خلاف ووٹنگ کا ایک کھلا ریکارڈ رکھتے ہوئے اپنی ڈپلومیسی اور جغرافیائی محل وقوع کی بدولت نہ صرف سوویت یونین کے تعاون سے خود کو مضبوط کیا بلکہ بنگلہ دیش کے قیام میں بھی سوویت یونین کا تعاون حاصل کیا اور اب اپنی غربت، ناخواندگی ،معاشرتی طبقہ واریت، اقلیتوں سے امتیازی سلوک اور ماضی کے امریکہ کے مخالف ریکارڈ کے باوجود عالمی سپر پاور امریکہ سے قربت کی وہ منزلیں طے کرلی ہیں کہ جہاں وہ امریکہ کے گلوبل مفادات میں ایک ایشیائی پارٹنر کی حیثیت اختیار کر رہا ہے اور تمام تر امریکی تعاون و حمایت کے باوجود امریکہ سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے روسی میزائلوں کی خریداری اور ایرانی تیل کی سپلائی جاری رکھنے کی رعایت مانگ رہا ہے۔
جبکہ ہم نے 70سال تک آنکھیں بند کر کے امریکہ کے اتحادی بن کر قربانیوں اور بربادی کے ہجوم میں بھی پاک ،امریکہ تعلقات کے ’’رومانس‘‘ اور خود فریبی کو اپنائے رکھا، امریکہ کی جانب سے بار بار پابندیوں اور ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات کی تعمیل بھی کی لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے پالیسی ساز کوئی متوازن اور عملی ڈپلو میسی تشکیل دے کر قوم کو کچھ بھی ڈلیور نہ کر سکے۔ آج امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور جنرل ڈنفورڈ ھم سے صرف افغانسان کے مسئلے پر بھی ’’ڈو مور’‘‘ کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو جنوبی ایشیا کا چوہدری تسلیم کرنے کیلئے اضافی ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ہمارے مفادات اور مطالبات کو بھارت کی خاطر نظر انداز کر کے ہم سے وہ مطالبات کئے جا رہے ہیں جو ہماری اپنی قومی بقا کے لئے خطرات ہیں۔
پاکستان کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پاکستان نے جو اخراجات کئے انہیں امریکہ اپنے مروجہ قو انین کے تحت تصدیق بلکہ آڈٹ اور کانٹ چھانٹ کے بعد پیش کر کے امریکی کانگریس کی لسکروٹنی اور منظوری کے بعد ’’ریفنڈ ‘‘ کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ کوالیشن سپورٹ فنڈ سے یہ ادائیگی دراصل امریکی امداد نہیں بلکہ پاکستانی اخراجات کے کلیم کا ریفنڈ ہے مگر پاکستان روانگی سے قبل اس 300 ملین ڈالرز کی منظور شدہ رقم کی رقم کی ادائیگی کو منسوخ کر دیا بلکہ مزید500ملین ڈالرز کی ادائیگی کو بھی سرے سے نامنظور کر کے 800ملین ڈالرز کی وہ رقم پاکستان کو دینے سے انکار کیا ہے جو پاکستان کا حق تھا۔ اس کے ساتھ پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف ’’فیصلہ کن ایکشن‘‘ کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے اور رقم کی عدم ادائیگی کا جواز بھی یہی بتایا جا رہا ہے۔ امریکہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں طالبان کی مکمل شکست بھی نہیں چاہتا بلکہ مزاحمت کے ذریعے ان پر ’’چیک‘‘ یا کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے اور طالبان سے مذاکرات بھی اپنی شرائط پر چاہتا ہے۔ طالبان کی حالیہ سرگرمیاں اور حملے خود افغان حکومت کے لئے بھی ہزیمت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اگلے سال افغانستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جو امریکیوں کیلئے بھی ایک چیلنج ہوں گے۔ ہم تو پچھلے دو سال سے ان افغان حقائق سے لاتعلق ہو کر اندرونی سیاست کے خلفشار میں مصروف رہے مگر بھارت اور امریکہ افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر علاقوں میں اپنے مشترکہ مفادات کی تنظیم اور صف بندی کرنے میں پوری توجہ اور تبادلہ خیال کے ساتھ مصروف رہے ہیں۔ امریکی ترجیحات کا رخ اب بھارت کی جانب ہے اور پاکستان اب امریکہ کیلئے لازمی اتحادی ملک کی بجائے امریکہ کے اتحادی بھارت کا مخالف اور امریکی مطالبات کی تعمیل نہ کرنے والا ملک ہے۔ گو کہ افغانستان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پاکستان کی ضرورت عالمی مبصرین کے نزدیک لازمی ہے۔لیکن امریکہ اور بھارت کے درمیان طے شدہ متبادل حکمت عملی کے رموز کو جاننے والے کچھ اور بھی بتاتے ہیں۔
دوسرے چین پاکستان تعلقات اور سینٹرل ایشیا پاکستان، افغانستان ،ترکی اور ایران کی صورتحال اس خظے کو چین اور روس سے قربت کی صورت پیدا کر کے امریکہ کے لئے ایک ناموافق صورتحال پیدا کر رہی ہے جو عالمی کشیدگی کا روپ دھار رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار تو ہے مگر وہاں زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ،ماضی میں جن مسلم ممالک کے خطے کو ہنری کسنجر نے ’’بحران میں ہلال‘ (کریسنٹ ان کرائسز) کا نام دیا تھا وہ اب واقعی بحرانوں میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ان تبدیل شدہ ترجیحات ماحول میں امریکی صدر ٹرمپ، ان کے وزیر خارجہ اور فوجی کمانڈر کے دورہ اسلام آباد کی تلخ بلکہ اشتعال انگیز کیفیت سمجھ میں آتی ہے لیکن عالمی سپر طاقت کے تحکمانہ رویئے پر پاکستانی فیصلہ سازوں اور سفارت کاری کرنے والوں کیلئے جوش و جذبات کی بجائے تدبر اور تحمل کی ضرورت زیادہ ہے۔ پاکستان خطرات سے دوچار بھی ہے اور سپر پاور کا تنہا مقابلہ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ حقائق کو سامنے رکھ کر ہوشمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ مائیک پومپیو اور عمران خان کی ٹیلیفونک کال کے متن اور موضوع کے بارے میں جو تنازع کھڑا کیا گیا۔ اسکے امریکی ٹرانسکرپٹ جاری ہونے سے ہماری ساکھ اس دورہ اسلام آباد سے پہلے ہی متاثر ہو گئی ،پرانے تجربے کے حامل ہمارے نئے وزیر خارجہ قوم کے مورال کو بلند رکھنے کیلئے بیانات ضرور دیں لیکن بگڑتی ہوئی صورتحال اور زمینی حقائق کو بھی عوام کے سامنے ضرور رکھیں تاکہ عوام اور سفارت کار ملکر بہتر تجاویز اور لائحہ عمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔