ملک کے سب سے بڑے اخبار جنگ سے بطور کالم نگار وابستگی کا آج پہلا دن ہے اور یہ پہلی تحریر۔لیکن بطور قاری مڑ کر دیکھوں تو ایک طویل راستہ ہے جس کے پار جنگ کا نام جگمگاتا نظر آتا ہے۔برسوں کی یہ وابستگی بطور قاری اخبار کے ساتھ بھی ہے اور ان مشاہیر کی تحریروں کے ساتھ بھی جن سے یہ اخبار روشن رہا ہے۔ساٹھ اور ستّر کی دہائی کا دور سلائیڈ شو کی طرح سامنے آتا اور اگلی سلائیڈ کو آنکھوں کے حوالے کرکے گزرتا جاتا ہے۔میر خلیل الرحمٰن کا جنگ کراچی کا نمائندہ اخبار تھا۔کمپیوٹر کمپوزنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا اس لیے دہلوی رسم الخط کی خوبصورت نستعلیق کی سرخیاں اس کی پیشانی پر جگمگاتی تھیں۔خطاط یوسف دہلوی کے بعد ان کے شاگرد مجید دہلوی اور ان کے شاگرد اخبارات پر چھائے ہوئے تھے۔لاہور میں اس دن کا جنگ دوپہر کے بعد دستیاب ہوتا تھا اور اس کا انتظار رہتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ خبروں کی رپورٹنگ،سیٹنگ اور تزئین میں ملک کا کوئی اخبار اس کے مد مقابل نہیں تھا۔وہ اخبار نہیں ایک عادت تھی جس کے بغیر دن کاٹنا ایک تشنگی کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔نظریں اس خطاطی اور سیٹنگز کے انداز سے اتنی مانوس ہوچکی تھیں کہ کوئی دوسری خطاطی اور سیٹنگ اوپری سی لگتی تھی۔ آج جیسے ذرائع مواصلات کا تصور بھی نہ تھا اس لیے مستقل لکھنے والے زیادہ تر کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ادارتی صفحات پر اوپر بائیں کونے میں حالات حاضرہ پر حضرت رئیس امروہوی کا قطعہ ان کی قدرت کلام کی دلیل ہوا کرتا تھا۔رئیس صاحب ہی کا نفسیات روحانیات اور تسخیر ہم زاد جیسے منفرد موضوعات پر کالم ہوا کرتا تھا جس کی پراسراریت اپنی مثال آپ تھی۔کبھی کبھی ان کے بھائی سید محمد تقی کی تحریر فلسفے اور سائنس کی گرہوں کی عقدہ کشائی کیا کرتی تھی۔نیچے دائیں کونے پر جمیل الدین عالی کا کالم ہوتا تھا۔شہر کی ادبی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ترجمان ہوا کرتا تھا۔ صفحے کے درمیان میں ہفتے میں شاید دو دن ابن انشاء کا کالم ہوا کرتا تھا۔پھلجڑیاں بکھیرتا اور چٹکیاں لیتا۔کیا رواں اسلوب تھا جیسے جھرنے کا پانی قلقاریاں مارتا یہاں سے وہاں تک بھگوتا چلا جائے۔اگر کالم سفرنامے پر مشتمل ہوتا تو اس کا الگ مزا تھا۔سیاسیات پر ہوتا تو اس کا ذائقہ الگ۔جو شخص خود اپنا ٹھٹھا اڑا کر خوش رہتا ہو اس کی بات کا برا کون مان سکتا ہے۔ایسی چٹکیاں لیتے کہ حامی اور مخالف یکساں مزا لیتے۔ابراہیم جلیس کے کالم کا اپنا ہی رنگ تھا۔دھلی دھلائی نثر اور بات کہنے کا سلیقہ ۔گاہے گاہے ادبی نیم ادبی اور دینی تحریروں میں میرے دادا مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ،حکیم سعید دہلوی، جناب ایوب دہلوی اور ملا واحدی جیسی نابغہ شخصیات کی تحریریں بہت اہتمام سے چھپتی تھیں۔عم مکرم جناب جسٹس (ر) مولانا محمد تقی عثمانی کی فکر انگیز تحریریں بھی جنگ کے صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں ۔ میر خلیل الرحمٰن سخن اور ہنر شناس صحافی تھے اور ہر شعبے کے اہل ہنر کو اپنے اخبار کی زینت بناتے رہتے تھے۔سچ یہ ہے کہ اس دور کے بہت سے ایسے نام ہیں جن کا ذکر ہونا چاہیے لیکن ایک کالم میں سب نام سمانا بھی ممکن نہیں۔ پھر زمانے نے ایک کروٹ بدلی ۔ذرائع مواصلات کے تیز رفتار گھوڑے میدان میں آئے۔ذرائع آمد و رفت پسنجر ریل گاڑیوں سے اتر کر ہوائی جہازوں پر سوار ہونے لگے۔کمپیوٹروں نے میزوں پر جگہ بنائی۔جنگ اخبار کاکئی شہروں سے آغاز ہوا اور بالآخر لاہور میں کمپیوٹر خطاطی کے ساتھ پہلا اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔لاہور سمیت دیگر شہروں کے اہل قلم اور صحافی مستقل لکھنے والوں میں شامل ہونے لگے۔وقت نے ایک اور زقند بھری اور انٹر نیٹ نے کمپیوٹروں کے اندر گھر بنا لیے۔ای میلز برقی رفتار کے ساتھ تحریریں ادھر سے ادھر بھیجنے لگیں۔ٹیلی پرنٹرز کی آواز پہلے مدھم ہوئی اور پھر مکمل چپ ہوگئی۔لیکن یہ سکوت تھا سکون نہیں۔تیز رفتار مقابلے کا آغاز ہوا ۔کئی اخبار اس تیزی کی تاب نہ لاسکے اور راستے میں ہی بیٹھ گئے۔لکھنے والوں کی پرانی نسلیں آہستہ آہستہ تھکنے لگیں۔کبھی کسی چراغ کے بجھنے کی خبر آنے لگی کبھی کسی مٹی کے وجود کے انہدام کی۔قلم کار ،قطعہ نگار ،کالم نگار بدلتے گئے اور اپنی اہمیت منواتے گئے۔تازہ دم لوگ میدان میں آئے اور پچھلی نسلوں کے ہاتھ سے مشعلیں تھام کر آگے دوڑنے لگے۔ایک غیر مختتم سفر کی طرف۔ان منزلوں کی طرف جو دیکھی نہیں تھیں۔ جنگ اخبار اس سفر میں تازہ دم رہا.وقت کے ساتھ ساتھ انداز بدلتا گیا لیکن اس بدلتے زمانے کے اپنے گن تھے۔اپنے خد و خال تھے اور اپنی طاقت ۔یہ توانائی دو طرفہ سفر کرتی تھی۔اخبار نئے لکھنے والوں کو توانا کرتا تھا اور لکھنے والے اخبار کو طاقت بخشتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ موجودہ دور میں پاکستانی اردو صحافت بہت تبدیل ہوچکی ہے۔اظہار کے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں اور سوشل میڈیا کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ معلومات کے ذرائع وسیع ہورہے ہیں لیکن انہی کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے لیے غلط اور صحیح کو پہچاننا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے ۔ایسے میں ان اہل قلم کی ضرورت اور اہمیت بڑھتی جارہی ہے جن کی آزادانہ رائے پر اعتماد کیا جاسکے۔جنگ اخبار نے ذہن سازی میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے ۔سیاسی تبصرے اور تجزیے ہوں،عالمی صورت حال ہو ، ملکی معاملات ہوں یا حکومتوں کی رہنمائی۔جنگ کے ادارتی صفحات ہمیشہ اپنی بات عوام سے خواص تک پہنچاتے رہے ہیں۔سچ بات کڑوی تو ہوتی ہی ہے ۔اس لیے یہ کڑواہٹ جنگ کے لیے آزمائشیں بھی لیکر آتی رہی ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
آج جب میں بطور کالم نگار روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوا ہوں تو مجھے خوشی ہے کہ میں ایک اخبار سے نہیں ایک زریں روایت سے وابستہ ہوا ہوں۔وہ روایت جس سے بڑے لوگ جڑے ہوئے تھے۔کسی سنہری روایت سے جڑنا اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں سے جڑنا۔قلم ہاتھ میں لیے ہوئے شخص کے لیے کہیں بھی لکھنا ایک طمانیت ہے اور ایک خوشی۔لیکن روایت کے کسی سلسلے سے ایک کڑی کی طرح منسلک ہوجانا سرشاری ہے۔کالم نگاری سے وابستگی بھی ایک شرف ہے اور ایک معاصر اردو روزنامے میں باقاعدگی سے کالم لکھتے اچھا خاصا وقت گزرچکا ہے ۔ ناسپاسی ہوگی اگر میں یہاں اپنے مشفق و مہربان ،نامور سینیٔر صحافی اور مدیر جناب جمیل اطہر قاضی کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے کالم نگاری کے آغازہی سے میری بہت ہمت افزائی اور رہنمائی کی ۔اسی طرح جنگ گروپ کے جنا ب میر شکیل الرحمٰن ، جناب سرمد علی صاحب اور جناب سہیل وڑائچ صاحب کا دلی شکریہ کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ مجھے اس اعتماد اور رہنمائی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی ۔ آخری بات یہ کہ زندگی سے بڑا استاد کوئی نہیںاور قلم سے بہتر رہنماکوئی اورنہیں ۔سو اے زندگی ! اور اے قلم !تمہیں معلوم ہے مجھے تم سے کیا چاہئے۔