• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریعت اور قانون میں والد کا نام نکالنےکی گنجائش نہیں،چیف جسٹس

اسلام آباد (رپورٹ : رانا مسعودحسین)عدالت عظمیٰ میں’’شناختی کارڈ میں تبدیلیʼʼ کے حوالے سے دائر کی گئی اپنی نوعیت کی ایک نہایت اچھوتی درخواست میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی گریجویشن کی 22سالہ طالبہ، ʼʼ تطہیر فاطمہ بنت پاکستان ʼʼنے نادرا کو فریق بناتے ہوئے بچوں کی رجسٹریشن میں والد کے خانہ کے ساتھ ساتھ ایک اور خانہ کا بھی اضافہ کرنے کی استدعا کی ہے تاکہ جن بچوں کے باپ انہیں چھوڑ جائیں وہ اپنے باپ کی بجائے اس خانے میں نشان لگا سکیں جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ، یہ آئینی درخواست بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی، ہم دیکھتے ہیں ایسے بچوں کا کیا جائے ،جن کے والدین انھیں اپنی دستاویزات فراہم نہیں کرتےلیکن مسئلے کا یہ حل بھی نہیں ہے کہ ایسے بچے کی دستاویزات سے اس کے والد کا نام ہی ہٹا دیا جائے،ہم بچی کے والد کو عدالت میں طلب کرلیتے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز درخواست گزار ،تطہیر فاطمہ کی جانب سے شناختی کارڈ سمیت دیگر تمام سرکاری دستاویزات سے اس کے والد میاں شاہد کا نام ہٹانے اور نادرا کو بچوں کی رجسٹریشن کے خانے میں والد کے خانہ کے ساتھ ساتھ ایک اور خانے کا اضافہ کرنے کاحکم جاری کرنے کی استدعا سے متعلق آئینی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کی والدہ فہمیدہ بٹ نے موقف اختیار کیا کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو چھوڑ کر چلا جائے اور بوقت ضرورت اسے اپنی دستاویزات (شناختی کارڈ ، فارم ب وغیرہ) بھی فراہم نہ کرے تونادرا کے مروجہ نظام میں اس بچی کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہاکہ آپ متعلقہ عدالت میں بچی کے خرچے کا دعویٰ دائر کرسکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق والد ہی بچے کا قانونی اور فطری سربراہ ہوتا ہے، ہمارے دین اور قانون میں والد کا نام ختم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہم یہ قانون تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔خاتون نے کہاکہ جب والد ضرورت کے وقت اپنی بیٹی کو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات ہی نہ دے تو اس بچی کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے؟ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ولدیت کے خانہ میں والد کا نام نہ لکھنے کے نتائج کو بھی سمجھیں، اگر اس کے والد کا نام ہی درج نہیں ہوگا تو تیسرا بندہ اس کے بارے میں کیا تصور کریگا؟ درخواست گزار تطہیر فاطمہ نے عدالت کو بتایا کہ جب میں میٹرک میں تھی تو مجھے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے اپنے والد کی دستاویزات کی ضرورت پڑی تو انہوں نے دینے سے انکار کردیا تھا۔درخواست گزار کی والدہ نے بتایا کہ ان کے سابق شوہر کا نام میاں محمد ایوب ولد محمد ایوب تھا لیکن ہمارے پاس اب ان کا کوئی اتاپتا موجود نہیں ہے ۔ عدالت نے ایک وقفہ کرتے ہوئے نادرا کے ڈی جی( پراجیکٹس ) ذوالفقار کو فوری طور پر حاضر ہونے کا حکم جاری کیا ۔ عدالت نے انہیں سارے معاملہ سے آگاہ کرتے ہوئے فوری طور پر میاں محمد ایوب ولد محمد ایوب کا اتا پتا ڈھونڈنے کا حکم جاری کیا اوردونوں ماں بیٹی کو ان کے ساتھ نادرا کے دفتر بھجواتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ کے لئے ملتوی کردی۔بعد ازاں روزنامہ جنگ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے تطہیر فاطمہ نے بتایا کہ نادرا کے ریکارڈ میں انکے والد ،دادی ،والد کی نئی بیوی اور بچوں کا تو ذکر ہے لیکن میری والدہ اور میرا کوئی ذکر نہیں ہے ،میں نیشنل سوئمنگ اور جوڈو کی کھلاڑی ہوں اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک جاکر اپنی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کرنے کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔
تازہ ترین