ڈاکٹر رضوانہ انصاری، حیدرآباد
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
سوچیں تو ایک آزاد مملکت کتنا بڑا احسان ہے… آزاد فضا میں سانس لینا صبح کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرنا کیسا اچھا لگتا ہے… جب روح تک ٹھنڈک سی اتر جاتی ہے… یہ میرا پیارا وطن پاکستان قائد کی کوششوں سے حاصل ہونے والا اللہ پاک کا انعام پاکستان… جس میں ہم آزاد زندگی بسر کررہے ہیں۔ کیا صرف یہ کافی ہے کہ ہم قائد کے احسان پاکستان اور قائد سے محبت کے اظہار کے لئے ان کا یوم ولادت اور یوم وفات مناکر مطمئن ہوجائیں۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، خصوصی اشاعت اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کریں۔نوجوانوںکبھی سوچا کہ ہم کسی بھی راہنما کا دن کیوں مناتے ہیں… کیوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں…؟ صرف اس لئے کہ اس دن ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم آئندہ زندگی میں ان کے نقش قدم پر چلیں گے، ان کے خواب ان کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ کارواں کو جہاں انہوں نے چھوڑا تھا وہیں سے ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے۔ہم ان سے محبت اور عقیدت کا اظہاربھی کرتے ہیں اور محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کے نقش قدم پر چلا جائے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح نے ملکی معاملات میں ہمیشہ نوجوانوں سے امید رکھی اور انہیں اتحاد یقین اور تنظیم کا درس دیا،ساتھ کام، کام اور کام کا پیغام دے کر یہ بتلا دیا کہ متحد ہوکر تنظیم اور کامیابی کے یقین کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے مسلسل جدوجہد کی صورت میں ہی منزل کا حصول ہے… قائد نے خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ مسلمانوں میںخود احتسابی کا جذبہ بیدار کرکے، خود اکتسابی کی آرزو کے ساتھ، بصیرت کی آنکھ وا کرکے عمل اور جدوجہد کے پیغام کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے کام، کام اور صرف کام کرتے ہوئے پاکستان کی صورت میں ہمیں ایک آزاد ملک حاصل کرکے دیا۔
قائد نے نوجوانوں سے خطاب میں کہا کہ، یقین، تنظیم اور اپنے کام سے وفاداری ہوتو کامیابی کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی… قائد نے فرمایا کہ پاکستان کو فخر ہے اپنے نوجوانوں پر خصوصاً طالب علموں پر جو قوم کے مستقبل کے معمار ہیں۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ تنظیم، تعلیم اور ٹریننگ پر توجہ مرکوز رکھیں۔
میرے وطن کے نوجوانوں نے تاریخ کو سرسری پڑھا ہے۔ انہوں نے لفظوں کے عقب میں جھانکا ہی نہیں۔ اس لئے یہ اس درد سے بیگانہ ہیں جو محکوم قوموں نے جھیلا ہے اور خدا کرے کہ یہ بیگانہ اور ناآشنا ہی رہیں ۔لیکن پھر بھی ان نوجوانوں کو جاننے کی ضرورت ہےکہ آج جس سرزمین پر ہم سر اٹھا کر فخر کے ساتھ کھڑے ہیں اس کے لئے کئی نسلوں نے دن رات جدوجہد کی اذیتیں اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ آزادی کو زندگی کا مقصد بنایا، اس پر تن من دھن نچھاور کیا، تب منزل کے آثار نمودار ہوئے۔ بے لوث محبت اور جہد مسلسل اندھیرے کی دیوار کے سینے میں شگاف کر کے سورج تک رسائی حاصل ہوئی۔ قائد کی قیادت اور اقبال کے فرمودات کی روشنی میں اپنی پہچان ،خود آگہی اور جدوجہد کے ساتھ غلامی سے بغاوت اور آزادی سے محبت کر کے منزل تک رسائی ہوئی۔ آج پھر بھرپور نوجوانوں کو آگے آ کر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ملک کا مستقبل اس قوم کے نوجوانوں کی سوچ اور فکر پر منحصر ہوتا ہے، کیونکہ نوجوان جتنے بامقصد اور بلند سوچ کے مالک ہوں گے ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو نوجوانوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ ہمیشہ طلبہ کو مستقبل کا معمار کہا کرتے تھےاور نوجوانوں میں اتحاد اور اجتماعی جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا کرتے تھے، کیونکہ یہی نوجوان اگر اتحاد کے بجائے انتشار یا بے راہ روی کا شکار ہو جائیں تو کوئی بھی قوم انہیں شکست سے دوچار کر سکتی ہے، جبکہ دوسری جانب متحد قوم کے سامنے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تاریخ گواہ ہےکہ نوجوانوں نے اپنے جوش جنوں اور جہد مسلسل سے قوموں کی تاریخبدل ڈالی۔
یہ وطن پاکستان ہمارا تعارف ہماری پہچان ہے۔ ہم کہیں بھی ہوں کسی بھی عہدے پرہوں ۔ کتنے ہی دولت مند اور خوشحال ہوں اگر ہمارا ملک خوشحال اور نیک نام نہیں توہماری نیک نامی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ اسی لئے آج پوری قوم کی نظریں ان نوجوانوں پر مرکوز ہیں جو مضبوط ، طاقتور ، دلیر اور بہادر ہیں۔ ان کے چہروں پر جو تابناکی ہے وہی تو روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اور خوش کن بات یہ بھی کہ نئی نسل ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی پہچان کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ انہیں خبر ہے کہ کل ان کا ہے۔ اور انہیں اسی ملک کے تعارف کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہماری قوم اور ہمارے نوجوانوں میں اتنا دم خم اور اتنی طاقت اور توانائی ہے کہ وہ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور ان پر قابو بھی پاسکتے ہیں۔ اس بار نوجوانوں کی بڑی تعداد منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچی ہے، جو اس یقین اور اعتبار کا ثبوت ہے جو قوم نے ان پر کیا ہے۔ اب قوم کی ان پرخصوصی نظر بھی ہے اور امید بھی کہ وہ گرتی ہوئی معیشت کیلئے جامع منصوبہ بندی کریں گے۔ پاک سرزمین کو سرسبز بنانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ دہشت گردوں کے بجائے پرامن اور محبت کرنے والی قوم کا درجہ حاصل کریں گے۔ دوسروں سے مدد کے بجائے خود انحصاری پر ایمان رکھیں گے۔ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے جذبہ اور جنون کے ساتھ تعمیر اور ترقی کے سفر میں آگےبڑھیں گے۔ہم جانتے ہیںکہ ہم اپنی مٹی سے وفا کریں گے تو ہی دنیا ہمیں قبول کرے گی۔ اور ان تمام کامیابیوں کیلئے سب سے پہلی چیز یقین ، تنظیم اور اتحاد ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کےلیے جذبے کے ساتھ تعلیم اور صرف تعلیم کی ضرورت ہے۔ سچائی اور وفاداری اپنے آپ سے، اپنے کام سے، اپنے ملک سے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہے بلکہ اپنے آپ سے وعدہ بھی کرنا ہے کہ ہم چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ہر وہ کام جو ہماری ذمہ داری ہے،سچائی سے کریں گے، کیونکہ اس سچائی کے ساتھ اللہ کی رضا اور کامیابی کا یقین بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں۔
دشوار سمجھنا منزل کو دشواریاں پیدا کرتا ہے
منزل تو وگرنہ دنیا میں اے دوست کوئی دشوار نہیں
اسی طرح یاسیت اور مایوسی جو عمل کی راہ میں رکاوٹ ہے، ختم ہو جاتی ہے۔ میرے ملک کے نوجوانوں میں جذبہ جنوں ، شوق اور حوصلہ کی بھی کمی نہیں ہے ،انہیں جب بھی موقع ملا ہے، انہوں نے پوری دنیا میں اپنے آپ کو منوایا ہے،چاہے وہ میدان تعلیم ہو یا کھیل،موسیقی ہو یا گلوکاری ، سائنس ہو یا ٹیکنالوجی۔ میرے ملک کے نوجوان حیرت انگیز ہیں۔
میں نوجوانوں کی خوش گمان
آنکھوں کو دیکھتی ہوں
اور مسکراکر سوچتی ہوں
میرے ملک کی زمین یک لخت
کتنی خوبصورت ہوگئی ہے،کہ یہاں’’ ارفع کریم ‘‘ نو سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سوفٹ کمپیوٹر انجینئر بن جاتی ہے۔
جس ملک میں 38فی صد بچے پہلی جماعت مکمل کئے بغیر اسکول چھوڑ دیتے ہیں ’’علی معین نوازش‘‘ ایک سال میں اکیس مضامین میں اے لیول لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کردیتا ہے۔
جس ملک میں لوگ گھروں کا چولہا روشن رکھنے کےلئے غیرملکی کوہ پیمائوں کے قلی بن جاتے ہیں وہاں ’’ نذیر صابر ‘‘ اور ’’حسن مہ پارہ ‘‘ مائونٹ ایورسٹ سر کرلیتے ہیں۔اور تو اور یہاں پانچ سالہ ننھا طالب علم ’’عسٰی ظہیر کی چائلڈ لیبر پر بنی شارٹ فلمبین الاقوامی فلم فیسٹول میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیتی ہے۔جہاں نا بیناوں کیلئے تعلیم اور روزگار کی ضمانت نہ ہونے کے باوجو اس ملک کی نابیناوں کی کرکٹ ٹیم دوورلڈ کپ جیت جاتی ہے ۔جس لڑکی کے پاس جمنازیم جانے کیلئے کرایے کے پیسے نہ ہوں وہ ’’ نسیم حمید‘‘ جنوبی ایشیا کی تیز رفتار ترین لڑکی کا تاج سر پر سجا لیتی ہے۔
جہاں انسانی حقوق کا حصول ذرا مشکل ہو وہاں اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق پر مضمون نگاری کے عالمی مقابلے میں’’ ولید امجد ملک‘‘ اول آجاتا ہے۔
جہاں 80فی صد خواتین محرم کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم نہ نکال سکتی ہوں وہاں ’’ عزہ نسیم‘‘ انٹار کٹیکا پر قدم رکھ دیتی ہے۔
جہاں جوتے خریدنے کے پیسے نہ ہونے کے باوجود ’’ ہاشم خان ‘‘ ناقابل شکست بن کر اسکوائش کے میدان میں کامیابی کا ایسا جھنڈا لگاتا ہے کہ اگلے باون برس تک اس کا خاندان اس جھنڈے کو گرنے نہیں دیتا۔
جہاں معیاری تعلیم کا حصول مشکل ہو وہاں کیمبرج کے امتحان میں’’ حیدرزمان ‘‘دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرلیتا ہے۔
جہاں16سالہ ’’ شہر نیازی‘‘ تحقیقاتی مقالہ پیش کرکے نیوٹن سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ فہرست بڑی طویل بھی ہے اور خوش کن اور حیران کن بھی ۔ تو یہ ثابت ہوا کہ
بڑی نم ہو تو یہ مٹی
بڑی زرخیز ہے ساقی
اس فہرست میں آج کے نوجوان مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔ تو پھر آو نوجوانوں آج خود ہی اپنا تجزیہ کرتے ہیں، اپنا اپنا احتساب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم قائد اعظم کے فرمانوں اور تقریروں میں کہاں ہیں۔ اقبال کے شاہینوں کی کون سی صفت ہم اپنائے ہوئے ہیں۔
مایوسی کی ضرورت نہیں، بس یہی وقت ہے خود کو بدل دینے کا، جو وقت ضائع ہوگیا اس پر پچھتانا چھوڑ دو، اب اٹھنا ہوگا، مشکل فیصلہ کرنا ہوگا، چاہے خود سے لڑنا پڑے ،خواہ اپنے آرام، جذبات واحساسات کی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ اب وقت کو ضائع نہیں ہونے دینا۔ اپنی سوچوں ، باتوں، عادتوں اور ملاقاتوں میں تبدیلی لانا پڑے گی ۔ خود سے عہد کرنا ہوگا کہ مشکل میں رو بھی پڑیں گے، مگر پھر سے آنسو پونچھ کر چہرے پر مسکراہٹ سجاکر ہمت کرکے اٹھیں گے، خود کو دوبارہ اٹھانے کےلئے۔
تو نوجوانوں اس بار ایک عہدکریں۔
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں۔
موسم بھی نظر ڈالے گا تو چونکے گا ہماری محنت پر سورج بھی ہمیں دیکھئے گا تو رشک کرےگا ہمت پراب یہ نہ کہیں گےارض وسما ہم دن منایا کرتے ہیں ۔اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں میرے وطن کے نوجوانوں یہ قوم تمہارے سروں پر محنت، شوق ، علم رواداری، حسن سلوک، آنکھ کی شرم، نرم لہجہ، دشمن سے مروت، بے شناخت مہمان داری،خاموش مدد، شعر کی سمجھ اور موسیقی کے دھنک رنگوں سے رنگی اور سجی دستار سجا رہی ہے، جس کی لاج اب تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ تم امید ہو روشنی ہو ۔ ہمارا مستقبل ہو ۔کامیابیوں کے حصول کے لئے اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خود کو کردار سازی کے ذریعے مضبوط کرنے پر توجہ دو۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا مستقبل تمہارا کل بہت اجلا اور روشن ہے۔
آنکھیں کھولو۔ اور دیکھو
ستارہ صبح کی دہلیز تک آیا
سورج کی کرنوں کے طلوع ہونے سے پہلے چند لمحوں کیلئے ٹھہرا۔ پھر نور پھیلا نئے، روشن سویرے کو سلامی دی روشنی کے ہاتھ میں جتنے خواب تھے تکمیل کی جانب بڑھے کردار ابھرے
ان گنت رنگوں سے خوشبو سے
فضا میں دلکشی پھیلی
دن نکل آیا۔۔۔!!!