• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممتاز مفتی

جوں جوں عینی اور آن جوان ہوتی جارہی تھیں، توں توں ان کی والدہ صدیقہ بیگم کا دل فکر میں ڈوبا جارہا تھا۔ توں توں ان کو اپنے میاں منور علی سے شکایت بڑھتی جارہی تھی کہ انہیں احساس ہی نہ تھا کہ لڑکیاں جوان ہوگئی ہیں اور وہ بیٹیوں کے رشتے کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے۔ گھر کی فضا بھی مکدر ہوتی جارہی تھی۔

سیانے کہا کرتے تھے سہج پکے سو میٹھاہو۔ سچ کہتے تھے لیکن سیانوں کو پتا نہیں تھا کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے، جب مٹھاس ناقابل قبول ہوجائے گی، لوگ تلخی کی آرزو کریں گے۔ کھانوں میں تلخی، مشروبات میں تلخی، مزاجوں میں تلخی، محبوباؤں میں تلخی۔ عینی اور آن دونوں ہی مٹھاس سے بھری تھیں۔ خدوخال میں مٹھاس، نگاہوں میں مٹھاس، دونوں کی شخصیتوں سے مٹھاس کے چھینٹے اڑتے تھے۔ اگر انداز میں خالی مٹھاس ہوتی، تو بھی گزارہ ہوجاتا، لیکن ان میں حیا دامن گیر تھی، کسی کی بے تکلف نگاہ پڑجاتی تو چھوئی موئی ہوکر سمٹ جاتیں، نگاہیں جھک جاتیں۔ گالوں پر سرخی کی لہر دوڑ جاتی، انہیں پتا نہیں تھا کہ جھکی جھکی آنکھوں کا دور گزر چکا ہے، اب تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی پڑتی ہے۔ پرانے زمانے میں دوسرے کو مغلوب کرنے کے لیے حیا بہت بڑا نسوانی ہتھیار تھی۔ اب تو حالات بالکل الٹ چکے تھے، حیا کی جگہ نمائش نے لے لی تھی۔

ایک بدقسمتی یہ بھی تھی کہ وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم تھیں جسے ‘‘کزن’’ کہتے ہیں۔ ان کا کوئی رشتہ.دار نہ تھا۔ تقسیم کے وقت ان کے دادا بڑی مشکل سے اپنی بیوی اور بچے کی جانیں بچا کر پاکستان پہنچے تھے، جو بچے تھے وہ بکھر گئے تھے، کسی کو دوسرے کے پتے کا علم نہ رہا تھا۔

پرانے زمانے میں رشتوں کی آسانیاں کزن کے رحم وکرم سے ہوتی تھیں۔ کزن، بیٹیوں کی ماؤں کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھے۔ لیکن کزن تو مشترکہ خاندان کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں تو فیملی ہی ٹوٹ رہی ہے،پھر ایک غیر متوقع واقعہ عمل میں آیا، دو سال کے لیے منور علی کی ڈیوٹی اسلام آباد میں لگ گئی، اس پر گھر والے ہکا بکا رہ گئے۔ یہ خبر حیران کن تھی، مگر ساتھ ہی خوشگوار بھی۔

اسلام آباد کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، بانچھیں کھل گئیں، اتنا خوبصورت شہر، روشنیوں کا شہر، پھولوں کا شہر، بنگلوں کا شہر، اسلام آباد آنے پر سب ہی خوش تھے۔

منور علی اس لیے خوش تھے کہ ان کی ترقی کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ لڑکیاں اس لیے خوش تھیں کہ وہ نئے شہر میں آئی تھیں۔ صدیقہ سمجھتی تھیں کہ اسلام آباد میں لڑکیوں کے رشتے ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پہلے چند روز تو خوشی کے عالم میں گزر گئے، پھر کچھ دنوں کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام آباد میں آکر بڑے افسر بننے کے بجائے وہ بالکل ہی چھوٹے بن کر رہ گئے ہیں، اتنے چھوٹے کہ کوئی انہیں قابل التفات نہیں سمجھتا۔ اسلام آباد تو اسٹیٹس کا شہر ہے اور اسٹیٹس کا نظام تو منورجی کے ذات پات کے نظام سے زیادہ کڑا اور مہلک ہے۔ اس بارے میں جان کر صدیقہ بیگم نے لڑکیوں کے رشتوں کے بارے میں جو امیدوں کا محل بنایا ہوا تھا، وہ دھڑام سے گر گیا۔

ان ہی دنوں ساتھ والے بنگلے کی میڈ زبیدہ کی صدیقہ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بر سبیل تذکرہ رشتوں کی بات چھیڑ دی۔ زبیدہ نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’بیگم آپ کس خیال میں بیٹھی ہیں، نہ بی بی، یہاں گریڈ پوچھتے ہیں، تنخواہ نہیں۔ اوپر کی آمدنی گنتے ہیں۔ پلاٹ دیکھتے ہیں، گاڑیاں گنتے ہیں۔ میل کرانے والی ایک ہے تو سہی اسے میڈم کہتے ہیں، لیکن وہ بیس سے کم گریڈ والے کا کیس نہیں لیتی۔‘‘پھر زبیدہ ان کے گھر آنے جانے لگی۔ دونوں بیٹھ کر لڑکیوں کے رشتوں کی باتیں کرتیں۔ زبیدہ طبیعت کی بڑی ہنس مکھ تھی، بے تکلف بات کرتی تھی،اونچی آواز میں، اس نے بھی نہ سوچا تھا کہ لڑکیاں سن رہی ہیں، اس لیے سرگوشی میں بات کرے، الٹا وہ تو چاہتی تھی کہ لڑکیا ں سنیں۔

وہ صدیقہ سے کہا کرتی’’بی بی ایک ہی طریقہ ہے کہ لڑکیاں از خود کچھ ہمت کریں۔‘‘اس پر صدیقہ حیرت سے ہونٹوں پر انگلی رکھ لیتی’’ہئے یہ کیا کہا تو نے زبیدہ ....! لا حول ولا۔۔‘‘

زبیدہ قہقہہ لگا کر جواب دیتی ’’بی بی اب لا حول چھوڑ، اللہ رکھے تیری بیٹیاں خوش شکل ہیں، بس یہی ہے نا کہ انگلش میڈیم نہیں ہیں، پھر کیا ہوا....؟ بی بی تو انہیں پھول پتیاں لگا، بال کٹوا، جینزٍ پہننی سکھا، بھنووں کی کمان ہو، آنکھوں میں سرمے کی دھار، ہیلو ہائی ہیلو ہائی کرتی پھریں، تو چار دن میں بوائے فرینڈ پیچھے لگا ہوگا، آزما کر دیکھ لو بی بی....!‘‘

آزمائے بغیر ہی، پھول پتیاں لگائے بغیر ہی، آن کے پیچھے ایک لڑکا لگ گیا۔ پتا نہیں اسے آن کی کون سی ادا پسند آگئی تھی۔ ایک روز جب وہ کالج کے باہر بس کا انتظار کر رہی تھیں، تو لمبی کالی کار آن کے قریب سے زوں کرکے نکل گئی، ابھی وہ دونوں سنبھلنے نہ پائیں تھیں کہ وہی کار زوں کرکے بیک مار رہی تھی۔ ان کے قریب آکر وہ رک گئی، ایک البیلا نوجوان باہر نکلا، آن کے روبرو کھڑا ہو کر بولا ‘‘کم ہیو اے لفٹ’’ آن نے منہ موڑ لیا۔

پھر ایک دن وہ کالج بس کے ساتھ ساتھ آن والی کھڑکی کے ساتھ گاڑی چلاتا رہا۔ جب وہ بس سے اترتی تو اسے ٹاٹا کرکے چلا جاتا۔

آن، عینی سے دو سال بڑی تھی لیکن دونوں بہنیں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ وہ آپس میں اس قدر بے تکلف تھیں، جیسے بالکل ہم عمر ہوں، ایک روز آن کہنے لگی ،’’عینی، یہ تو لسوڑی کی لیس ہوگیا ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہوا باجی ‘‘عینی نے جواب دیا۔

آن بولی ’’مجھ سے کہہ رہا تھا چلو ایک کپ کافی کا ہوجائے۔‘‘

’’کیا حرج ہے باجی ‘‘عینی بولی۔ وہ زبیدہ کی باتیں سن سن کر سیانی ہوگئی تھی۔ پھر ایک روز تو اس لڑکے نے حدود توڑ دی، جب آن بس میں بیٹھنے لگی تو اپنی گاڑی لاک کرکے وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بس میں سوار ہوگیا اور آن کے ساتھ بیٹھ گیا، کہنے لگا ‘‘آن تم کیا چیز ہو، کیا گونگی بہری ہو‘‘ وہ بولے جارہا تھا۔

آن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، بس میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں حسرت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

اگلے دن سارے کالج میں اس بات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ لڑکیاں زیرِ باتیں کر رہی تھیں۔ پتا نہیں آن میں وہ کون سی بات ہے کہ جہانگیر اس کے پیچھے پاگل ہورہا ہے۔

لڑکیوں کی زیر لبی باتیں سن کر آن کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ عینی اسے سمجھا رہی تھی، ’’باجی آپ گھبرائی ہوئی کیوں ہیں، کیا ہوا، اگر وہ بس میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، کیا ہوا، اگر اس نے آپ سے دو باتیں کرلیں ۔‘‘

ایک روز آن اپنے کمرے میں بیٹھی اسٹڈی ٹیبل پر نوٹس لکھ رہی تھی۔ اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ سامنے بنگلے کے بیک یارڈ میں کرسی پر بیٹھا ہاتھ ہلا رہا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ سیدھی عینی کے پاس گئی، اس سے شکایت کی، ’’عینی وہ تو یہاں آپہنچا، سامنے بنگلے کے بیک.یارڈ میں، آؤ میں تمہیں دکھاؤں، وہ سامنے، آیا نظر، اب میں کیا کروں....؟‘‘

عینی بولی، ’’باجی آپ کھڑکی میں نہ بیٹھیں اپنی میز کسی اور جگہ لگالیں۔‘‘

اپنی اسٹڈی ٹیبل کو کھڑکی سے ہٹا نا آن کو منظور نہ تھا چونکہ پڑھتے پڑھتے جب وہ بور ہوجاتی تھی، تو سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنے لگتی۔ باہر کا منظر اس قدر خوبصورت تھا کہ اس کی ساری بوریت ختم ہوجاتی تھی۔

جہانگیر اکثر سامنے بنگلے کے بیک یارڈ میں آبیٹھتا۔ بلکہ کبھی کبھی اس کی کھڑکی کی پرانگلی سے ٹک ٹک شیشہ بجاتا، اس پر وہ گھبراجاتی۔ پھر ایک دن اس کی سہیلی نے کھڑکی کا مسئلہ حل کردیا۔ کہنے لگی، ’’نو پرابلم گرینڈ اسٹیشنری مارٹ میں وال پیپر جیسا ایک شیٹ ملتا ہے، جسے شیشے پر لگادیں، تو اندر سے باہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے لیکن باہر سے اندر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

پہلے تو آن کو یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا ایک طرفہ کاغذ بھی ہوسکتا ہے لیکن جب سہیلی نے لا کر دیا، تو وہ حیران رہ گئی۔

اس رات دونوں بہنوں نے بڑے اہتمام سے وہ ون وے شیٹ کھڑکی کے شیشے پر لگایا، پھر آن یوں مطمئن ہوگئی، جیسے اس نے خود کو محفوظ کرلیا ہو۔

ایک روز زبیدہ نے آکر صدیقہ کو خبر سنائی کہنے لگی،’’بی بی وہ کل لڑکی کو دیکھنے آرہے ہیں۔‘‘

’’کون آرہے ہیں....؟‘‘ صدیقہ نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’لڑکے کے ماں اور باپ، لڑکا سعودی عرب میں ڈاکٹر ہے، اس کے رشتے کے لیے لڑکی کو دیکھنے کے لیے آغا صاحب اور ان کی بیگم پنڈی سے آرہے ہیں۔ میں نے انہیں آپ کا پتا دیا تھا۔‘‘

اس خبر نے گھر میں ہلچل مچادی۔ کارپٹوں پر گرد جھاڑنے کی مشین چلنے لگی۔ بانس پر بندھے کپڑے سے دیواریں صاف ہونے لگیں۔ کھڑکیوں کے شیشوں پر چاک کے کوٹ ہونے لگے۔ کچن کے تینوں چولہے جل گئے۔ ایک پر پکوڑے تلے جانے لگے، دوسرے پر گاجر کا حلوہ اور تیسرے پر کباب۔ سب کی توجہ آن پر مبذول تھی۔ ماں بار بار عینی کو سمجھاتی‘‘ آن کو بنانے سنوارنے کی تمام تر ذمہ داری تجھ پر ہے سمجھی....؟ ’’عینی خود باجی پر نچھاور ہوئی جارہی تھی۔

’’باجی اگر وہ کچھ پوچھیں تو سر لٹکا کر خاموش نہ ہوجانا، گھبرا نہ جانا۔‘‘

جب تک مہمان بیٹھے رہے، صدیقہ کے شانوں پر منوں بوجھ پڑا رہا۔ مہمان چلے گئے تو جان میں جان آئی لیکن دل میں کھتر پھتر رہی۔ امتحان تو ہوچکا تھا لیکن ابھی نتیجہ باقی تھا۔

اگلے روز شام کو زبیدہ آئی، تو آن اچھل کر کھڑی ہوگئی، وہ دروازے سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔ ضرور یہ پیغام لائی ہوگی۔ وہ دروازے سے کان لگا کر سننے لگی۔

’’بیگم مبارک ہو، آغا اور ان کی بیگم کو آپ لوگ بہت پسند آگئے ہیں۔ سارے گھر کی تعریفیں کرتے تھے لیکن انہوں نے چھوٹی پسند کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو منظور ہو تو اگلے مہینے منگنی اور تیسرے مہینے شادی۔‘‘

چھوٹی کو پسند کیا ہے....؟ آن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ گرے جارہی تھی، اتھاہ گہرائیوں میں گرے جارہی تھی۔ ایک گہرے سیاہ کالے اندھیرے نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، پھر جو اسے ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑی تھی۔

پھر اسے ہوش آیا، تو امی ابا آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے لیکن ان کی مدھم آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

ابا کہہ رہے تھے،’’صدیقہ میں کہتا ہوں رشتہ منظور کرلو، کم از کم ایک بوجھ تو اتر جائے گا۔‘‘

یہ سن کر آن دیوانہ وار اٹھی، اپنی اسٹڈی ٹیبل کے پاس آکر کھڑی ہوگئی، اس نے ایک نظر اس نیلے ون وے کاغذ کو دیکھا، جو کھڑکی پر لگا رکھا تھا اور ایک جھٹکے سے اسے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا۔ وہ شیلف کی طرف گئی۔ سامنے نیند کی گولیوں کی بوتل پڑی تھی، جس میں صرف دو گولیاں باقی تھیں۔ اس نے حسرت سے ان دو گولیوں کو دیکھا اور پھر انہیں کھا کر لیٹ گئی۔ جب وہ جاگی تو کمرے میں دھوپ آچکی تھی۔ دفعتاً اسے کل کی باتیں یاد آگئیں، غصے کی ایک رو اس کے جسم میں لہرا گئی، پھر اس کی نگاہ کھڑکی پر جا پڑی۔ نیلا کاغذ کھڑکی پر جوں کا توں لگا ہوا تھا۔ وہ حیرت بھرے غصے سے چلائی ‘‘یہ کس نے لگایا ہے....؟‘‘

’’میں نے لگایا ہے باجی!‘‘عینی نے کہا۔ وہ اس کے بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھی تھی۔ ’’کیوں....؟’’ وہ غصے میں چلائی۔‘‘

’’باجی میں نے ابو سے کہہ دیا ہے کہ یہ رشتہ مجھے منظور نہیں۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین