• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں چند روز قبل زمین پر گرے ہوئے بجلی کے تاروں سے ٹکراکر دو بچّوںکے ہاتھوں سے محروم ہوجانے اور ایک بچّے کے ہلاک ہوجانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد ذرایع ابلاغ میں بہت شور مچا،لیکن پھردیگر واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی پسِ منظر میں چلاگیا۔متاثرہ بچوں کے والدین اور بعض سیاسی و سماجی تنظیموں نے اس بارے میں آواز اٹھائی تو قانون بہت پس وپیش کے بعد حرکت میں آیا۔لیکن ایسے واقعات پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے معاملات کی طرح یہ معاملہ بھی کچھ عرصے بعد دب جائے گا اورمزید ایسے واقعات سامنے آتے رہیں گے۔ اس کی وجہ متعلقہ ملکی قوانین اور صارفین کے حقوق سےعوام کا آگاہ نہ ہوناہے۔ اگر متاثرہ بچوں کے والدین ان سے آگاہ ہوتے تو وہ جائے وقوعہ سے باقاعدہ انداز میں ثبوت اور شواہدجمع کرکے ٹھوس انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرتے اور متعلقہ ادارے کے خلاف قانونی جنگ آسانی سے جیت جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا،لہذا پاکستان جیسے ملک میں انہیں اس معاملے میں تیکنیکی بنیادوں اور قانونی موشگافیوں کی وجہ سے مکمل انصاف ملنامشکل نظر آتا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ یہ پاکستان ہے۔ یہاں عام آدمی کا کوئی حق نہیں۔یہاں سرکاری اداروں نے کہا کہ بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے ہرسال لوگوں کی جیبوں سے غیر قانونی طورپر اربوں رو پے لوٹ رہے ہیں،یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس تک پہنچا،مگر یہ غیر قانونی کام کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں ملی۔البتہ ازالے کی بات کی گئی۔

یہ درست ہے کہ مادّیت کے دور میں انسان پیسہ کمانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کررہا ہے ،مگر تہذیب یافتہ قومیں اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔وہ ایسے قوانین بناتی اور ان کا سختی سے نفاذ کرتی ہیں جن کے ذریعےزرپرستوں کو نا جا ئز طریقوں سے دولت کمانے سے روکا جاتا ہے۔

صارف ہروہ شخص ہوتاہے جو خدمات یا سامان خر ید تاہے۔ غذا، ملبوسات، کار یا ٹی وی، سامان کی چندمثالیں ہیں۔ ڈرائی کلیننگ، کار کی مرمت یا ریستوران میں کھانا کھانا خد ما ت میں شامل ہے۔ جب آپ کریانے کی دکان یا کسی اسٹور سے سامان خریدتے ہیں،بینک میں کھاتہ کھولتے ہیں،موبائل ٹیلی فون کی سم خریدتے ہیں، بس پر سوار ہوتے ہیں ، بجلی یا ٹیلی فون کا کنکشن لیتے ہیں ، ٹیکس ادا کرتے ہیں ،وغیرہ تو آپ صارف ہیں۔

صارفین کے حقوق منوانے کی جدوجہد

صارف کے حقوق دراصل آٹھ نکات کا مجموعہ ہیں، جس میں اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول اور شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق شامل ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے حالات مخدوش ہیں۔یہاں صارف اپنے حقوق سے عمومی طور پر ناآشنا ہے۔ روزانہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے والے کروڑوں صارفین کا قدم قدم پر استحصال ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ فلیٹ یا پلاٹ بُک کراتے اوربینک میں کھاتہ کھولتے ہوئے صارف ان جانے میں کئی شرائط کے لیے ہامی بھر لیتاہے۔ ملک میں صارفین کے تحفظ کے لیے کنٹریکٹ ایکٹ، سیلز اینڈ گڈز ایکٹ سمیت دیگر قوانین موجود تو ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظران میں ایک جانب ترمیم کی اشد ضرورت ہے تو دوسری جانب ان پر موثر انداز میںعمل درآمد کی۔

ہر انسان بہت سی اشیا کا صارف ہے،لہذا ہر انسان کے بہ حیثیت صارف کئی حقوق ہیں۔چناں چہ دنیا بھر میں ہر سال 15 مارچ کو صارفین کے حقوق کے تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر صارفین کے حقوق کے تحفظ اورناجائز منافع خوروںکے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں اور دیگر زیادتیوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عہد کیا جاتا ہے۔ پہلی بار یہ دن 1983ء میں منایا گیا تھا۔ یہ دن اس قرارداد کے حوالے سے منایا جاتا ہے جو 1962ء میں 15 مارچ کو امریکی کانگریس میں منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی۔اس قرارداد میں صارفین کے 4 حقوق تسلیم کیے گئے تھے۔ عالمی تحریکِ صارف نے اس میں مزید چار حقوق کا اضافہ کیا ۔

دراصل 9 اپریل 1958ء کو اقوام متحدہ نے گا ئیڈ لائنز فار کنزیومر پروٹیکشن کےعنوان سے ایک قرارداد منظور کی تھی جو اس عالمی ادارے کی جانب سے صارفین کے حقوق کا اعتراف تھا۔ قرارداد میں صارفین کے 8 حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس پر دست خط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس بات کا پابند ہے کہ اس قرارداد کی روشنی میں قوانین وضع کرے۔ صارفین کے وہ حقوق جنہیں پہلی مرتبہ تسلیم کیا گیا ان میں تحفظ کا حق، معلومات کا حق، انتخاب کا حق ، شنوائی کا حق، بنیادی ضروریات کا حق،تلافی کا حق ،علم کا حق، صحت مند ماحول کا حق شامل ہیں۔

تحفظ کا حق:یعنی صارف کوپیداواری عمل سے خریداری کے مراحل تک تحفظ اور راہنمائی فراہم کی جائے۔

معلومات کا حق:صارف کا حق ہے کہ اسے تمام معلومات صحیح انداز میں فراہم کی جائیں۔

انتخاب کا حق: یہ صارف کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق خدمات یا اشیاکا انتخاب کرے۔

شنوائی کا حق: تمام اقسام کی پالیسیز مرتب کرتے وقت صارف کے مطالبات اور تجاویز سنی جائیںاور انہیں پالیسیز میں مناسب جگہ دی جائے۔

ضروریات کا حق:بنیادی ضروریات،جن میں معیاری اشیائے خورونوش ،پینے کے صاف پانی کی فر ا ہمی ، صحت، صفائی، رہائش اور لباس وغیرہ کی فراہمی شامل ہے، صارف کا حق ہے۔

تلافی کا حق:صارف کو کسی بھی قسم کا نقصان ہونے کی صورت میں تلافی کا حق دیا جائے اور ہونے والا نقصان پورا کیا جائے۔

تعلیم کا حق:صارف کو تربیت اورمعلومات حاصل کرنے کےضمن میں مناسب تعلیم دی جائے۔

صحت مند ماحول: صارف کو صاف ستھرا اور صحت مند ماحول فراہم کیا جائے، جس سے اس کی زندگی کا معیار بلند ہو اور ماحولیاتی آلودگی کے خطرات اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔صارف کی ذمے داریوں میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ ہر وقت خدمات ، معیار اور قیمت کےبارے میں محتاط رہے۔

صارف کی ذمے داریاں

صارف کی ذمے داریاں وہ اقدامات ہیں جو آپ کو یہ یقینی بنانے کے لئے اختیار کرنے چاہییں کہ:

کوئی خدمت یا مصنوع خریدنے سے قبل آپ اچھی طرح باخبر ہوں۔

آپ جس شئے یا خدمت کامعاوضہ ادا کرتے ہیں وہ ہی آپ کو فراہم کی جائے۔

کسی خدمت یا مصنوع کے ساتھ پیدا شدہ دشواریوں کو فوری طور پر آپ کے اطمینان کی حد تک دور کردیا جائے۔

صارف کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ:

مصنوعات پر درج ہدایات پڑھیں اور آپ سے انہیں جس طرح استعمال کرنےکی توقع کی جاتی ہے اسی طرح استعمال کریں۔ خدمت فراہم کرنے والوںکی صلاحیتو ں کی جانچ کریں۔

مطلوبہ معلومات طلب کریں۔

آپ جو خدمات حاصل کرتے یاجو سامان خریدتے ہیں ان کے بارے میں خبروں کے علاوہ صارفین کی رپورٹس پڑھ کر اور سوالات پوچھ کر معلومات حاصل کریں۔

قیمتوں کا موازنہ کریں، مصنوعات اور خدمات کے نرخوںکےمابین فرق کے بارے میں پتا کریں اور باخبر رہ کرفیصلے کریں۔

اگر آپ خریدی ہوئی شئے یا حاصل کردہ خدمات سے مطمئن نہیں ہیں تو منصفانہ اور معقول لین دین پر اصرار کریں۔

قدرتی وسائل کو جوں کا توں رکھ کراورایسی مصنوعات کا انتخاب کرکے، جن سے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا ، صحت بخش ماحول بنانے میں مدد کریں۔

اپنی ضروریات اور توقعات خدمات اور سامان فروخت کرنے والے کاروباری افراد اور حکومت کے علم میں لائیں۔

پاکستان میں صارفین سے متعلق قوانین

پاکستان میں قومی سطح کا صارف سے متعلق کوئی قانون موجود نہیںہے،البتہ محدود پیمانے کے قوانین موجود ہیں۔ صارفین کسی پیشہ ور وکیل کی خدمات لیے بغیر بہ راہِ راست عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہ قوانین صارفین کی شکایات کی تلافی کے لیے اشیا کے تیار کنندگان کو ادائیگی کا پابند بنانے پر اصرار کرتے ہیں۔ تاہم کسی بھی قانون میں مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

ملک کے آئین کے تحت صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔پاکستان میں صارفین کے حقوق کے لیے پہلی بار بے نظیر بھٹوکے دورِ حکومت میں1995 میں قانون متعارف کرایا گیا تھا۔ تاہم اس وقت اس پر بیوروکریسی کی جانب سےیہ اعتراض کیا گیاتھا کہ وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔اس بارے میں اس وقت کے وزیر قانون اقبال حیدر نے کہا تھا کہ اس وجہ سے حکومت نے وہ قانون اسلام آباد اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں نافذ کردیا اور تمام صوبوں کو اس کا مسودہ بھیج دیا تھا۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں صارفین کے تحفظ کا نہ صرف قانون موجود ہے بلکہ صارفین کے تحفظ کی کونسلز بھی موجود ہیں۔سب سےزیادہ دگرگوں صورتِ حال سندھ میں ہے۔ یہاں قانون صرف نام کو ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم نیکسٹ کے مطابق پاکستان میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سےسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صارف کی شکایت کے ازالے کے لیے کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ کار موجود نہیں ہے۔تنظیم کے مطابق پاکستان میں بینک کی شاخ کا مینیجر صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھتا ہے کہ اس کی شاخ میں زیادہ سے زیادہ پیسہ آجائے۔اکاؤنٹ کھولنے جائیں تو فارم پر شرائط بہت باریک انداز میں لکھی ہوتی ہیں اور صارف کو ان کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا جاتا۔بینکنگ محتسب نام کا ادارہ تو ہے مگربہت کم افراد اس سے واقف ہیں۔پاکستان میں سرکاری ادارے نیپر ا ، اوگرا اور پی ٹی اے جو بالترتیب بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے نرخ ریگولیٹ کرتے ہیں، ان کا بھی یہ فرض ہے کہ صارفین کو یہ بتائیں کہ وہ شکایت کی صورت میں کیا کریں اور کس سے رجوع کریں۔

صارفین کے لیےعدالتیں

سردست پاکستان کے صرف صوبہ پنجاب کے11 اضلاع میں صارفین کی عدالتیں قائم ہیں اورایسی صرف ایک عدالت اسلام آباد میں کام کر رہی ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ناقص اشیائے خورو نوش و دیگر ناقص مصنوعات اور غیر معیاری خدمات یا سروسزسے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005ء کے تحت فیصل آباد، لاہور، سرگودھا اور ساہیوال سمیت پنجاب کے گیارہ اضلاع میں کنزیومر کورٹس یا صارف عدالتیں قائم ہیں۔ان عدالتوں میں صارفین کنزیومر پروٹیکشن کونسل کے نام اپنے حلفیہ بیان کے ساتھ بغیر کسی کورٹ فیس اور وکیل کے درخواست دے سکتے ہیں۔اگر صارف اپنے کیس کو عدالت لے جانا چاہتا ہو تو اس کے لیے اُسے پہلے 14 دن کا نوٹس متعلقہ کمپنی کو دینا ضروری ہو گا۔ اس کے بعد وہ کنزیومر کورٹ سے رابطہ کر سکتا ہے۔

مغرب کی تصویر

پاکستان میں توصارفین کے حقوق کے تحفظ کاکوئی تصوّر نہیں ہے اور اگر کچھ حقوق ہیں تو ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔لیکن ترقی یافتہ ممالک میں کوئی شئے پسند نہ آنےیا ناقص نکلنے پر مقررہ مدّت (جو سات تا تیس یوم ہوتی ہے)میں واپس کی جا سکتی ہے۔ امریکا میں آپ کوئی بھی شئے تیس روز کے اندر اندرواپس کر سکتے ہیں۔اس کے لیے کسی واضح نقص کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مَیں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ حتیٰ کہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب میرا اس سلسلے میں ذہن بدل گیا ہے۔ وہاںبڑے کارپوریٹ اسٹورز کی خریداری کی رسید کی پشت پر سامان کی واپسی کی مکمل پالیسی طباع ہوتی ہے۔ صارفین کے حقوق کے دائرے میںرہتے ہوئے ان سٹورز کو اپنی پالیسی وضع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔بعض اشیاءایسی ہیں، مثلاً تازہ سبزیاں ، پھل وغیرہ، جن کی واپسی مشکل ہوتی ہے،کیوں کہ یہ اشیاجلد خراب ہونے والی ہوتی ہیں، اس لیے اگر بعض اسٹورز ایسی اشیاواپس لیتے ہیں تو اس کے لیے بہت مختصر وقت دیا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ شرط ہوتی ہے کہ آپ کی رقم واپس نہیں ہو گی بلکہ پسند کی دوسری شئے خرید سکتے ہیں۔

کپڑے، جوتے، الیکٹرانکس کے آلات، فرنیچر وغیرہ تیس روز میں بآسانی واپس کیےجاسکتے ہیں۔ ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی کہ آپ نے انہیں کھولایا استعمال نہ کیا ہو۔کیوں کہ پیکٹ کھولے بغیر اور بعض اشیا استعمال کیے بغیر آپ کو کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ صحیح طورپرکام نہیں کر رہی ہے۔ البتہ اس کے لیے بعض اسٹورز کی شرط یہ ہوتی ہے کہ اصل پیکنگ ضایع نہ کی جائے،بےشک کھولنے میں پیکنگ کٹ پھٹ جائے، لیکن اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر کپڑے، جوتے وغیرہ یا ایسا سامان جس پر”ٹیگ“ لگے ہوں،اس کے ٹیگ بھلے اتارلیے گئے ہوں، لیکن وہ محفوظ ہوں اور آپ کے پاس خریداری کی رسید بھی ہو تو آپ اسےواپس کرسکتے ہیں۔ بعض اسٹورز خریداری کی رسید کے بغیر بھی سامان واپس لے لیتے ہیں، کیوں کہ ٹیگ اور پیکنگ کی اسکیننگ سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ شئےاس اسٹور سے خریدی گئی تھی یا نہیں ۔ وہا ں ایسے اسٹورز بہت کم ہیں جو واپسی کے لیے معمولی فیس چارج کرتے ہو ں ۔ بعض اوقات لوگ کپڑے، جوتے وغیرہ کئی کئی یوم تک( احتیاط کے ساتھ)استعمال کر کے واپس کر دیتے ہیں۔ وہاں تو یہ تک ہوتا ہے کہ بعض کنجوس یا مجبور مائیں کسی خاندانی یا اسکول کی تقریب کے لیے بچوں کے ملبوسات اسٹورز سے خرید کر لاتی ہیں اور تقریب میں استعمال کرنے کےبعد اسٹور کوواپس کر دیتی ہیں۔وہاںاکثر ایسی مائیںتقریب کےبعد بچوں کو کپڑے تبدیل کراتی ہوئی نظر آتی ہیں۔کیوںکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ بچہ کھیل کھود میں کپڑے زیادہ خراب نہ کر دے۔

امریکی صارفین نےیہ منزل پانے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ صارفین کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ نےجوچارٹر منظور کیا تھا 1955ءمیں اس پر عمل درآمد کے لیے وہاںصارفین نے جدوجہد کا آغاز کیاجس کے نتیجے میں15 مارچ 1960ءکو صارفین کے حقوق کا بل منظورہوا۔بعد میں امریکا کا صدر منتخب ہونے والے جان ایف کینیڈی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بل منظور کرانے کا وعدہ کیا تھا، جو انہوں نے پورا کیا۔ اس کے بعد بھی صارفین کا کام ختم نہیں ہو ا۔امریکی انفرادی طورپر اور انجمنوں کی صورت میں نظر رکھتے ہیں کہ کون کون سے ادارے یا اسٹورز صارفین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔ امریکی صارفین حکومت پر تمام ذمے داری ڈال کر بیٹھے نہیں رہتے۔ بعض اوقات وہ صرف دس ڈالر کی شئے کے لئے ہزاروں ڈالرز خرچ کرکےقانونی لڑائی لڑتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں ۔ وہاں اسٹورز کے مالکان حکومت سے زیادہ صارفین اور صارفین کی انجمنوں سے ڈرتے ہیں۔

صارفین کے لیے عدالتوں کا قیام بہت ضروری ہے

سندھ میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پوری دنیا میں صارف سب سے بڑی قوت ہے۔ صارف عدالتیں نہ ہونے کے باعث سب سے زیادہ سندھ کا صارف متاثر ہورہا ہے۔ اگر سندھ میں صارفین کے لیے عدالتیں موجود ہوتیں تو تھر کا المیہ جنم نہ لیتا۔ دنیا آگے کی بات کررہی ہےاور ہمارا صارف ابتدائی حقوق سے بھی محروم ہے۔ بہت سے نجی اداروں کے خلاف صارفین کی شکایتوں کا انبار لگا ہوا ہے ۔دنیا بھر میں تجارتی ادارے کوئی خدمت فراہم کر نے سے پہلے صارفین کا سروے کرکے ان کی رائے معلوم کرتی ہیں، لیکن یہاں صارف کوصرف اور صرف لوٹا جارہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو صوبے میں فوری طور پر کنزیومر کورٹس قائم کرنی چاہییں۔

سپریم کورٹ میں حقوقِ صارفین سے متعلق دل چسپ مقدمہ

عدالت عظمیٰ میں چند برس قبل ایک ٹی وی مکینک کی جانب سے صارف کا اصلی جاپانی ریموٹ کنٹرول بے کار کرکے اسے چینی ساختہ غیر معیاری ریموٹ کنٹرول دے کر ٹرخا دینےکے خلاف صارفین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بہت دل چسپ مقدمےمیں مکینک کی جگہ ایک اور وکیل کی جانب سے مبلغ5ہزار روپےبہ طور جرمانہ ادا کرنے کی یقین دہانی پر اپیل نمٹا دی گئی تھی۔اس وقت جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ا ور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلےکے خلاف ایک دل چسپ اپیل کی سماعت کی تھی تو اپیل کنندہ محمد اکرم ملک ایڈووکیٹ اور مکینک احسان نقیب عدالت میں پیش ہوئے۔اپیل کنندہ نے موقف اختیار کیاتھا کہ انہوںنے مسئول علیہ کو اپنے جاپانی ٹیلی ویژن کا اصلی جاپانی ریموٹ کنٹرول ٹھیک کرنے کے لیے دیا تھا جو اس نے مزید خراب کردیا اور چین کا بنا ہواایک غیر معیاری ریموٹ کنٹرول دے کر ٹرخانے کی کوشش کی جس پر اس کے خلاف متعلقہ صارفین کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے اسی طرح کا نیا جاپانی ریموٹ کنٹرول یا مبلغ پانچ ہزار روپےبہ طور جرمانہ دلوانے کی استدعا کی گئی تھی۔تاہم عدالت نے وہ درخوا ست خارج کردی، جس پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو وہاں سے بھی خارج ہوگئی ،جس کے خلاف سپر یم کورٹ میں اپیل دائر کی گئ۔

دورانِ سماعت اپیل کنندہ نے اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ میں دیئے گئے صارفین کے حقوق کے حوالہ سے اتنے زور وشور سے دلائل دیے کہ بنچ کے تینوں معزز ججز بھی اسےچپ کرانے میں ناکام ہوگئے۔ اپیل کنندہ نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ اسے مکینک سے مبلغ پانچ ہزار روپے دلوائے جائیں تاکہ غیر ذمے دار مکینکس اور دیگرکاری گروں کے لیے نئی مثال قائم ہو سکے ۔اس موقعے پرمکینک نے عدالت کے استفسار پر بتایا تھاکہ اپیل کنندہ کا ریموٹ کنٹرول پندرہ سال پرانا تھا، ٹیکنالوجی بدل گئی ہے اس لیے اسے ٹھیک نہ کر سکا اور اس کے بدلے میں نیا ریموٹ کنٹرول دینے کی پیش کش کی تھی۔اس موقعےپر اپیل کنندہ نے دوبارہ کہا کہ میرا ریموٹ کنٹرول اصلی جاپانی تھا،مکینک نے اصلی ریموٹ بے کار کرکے غیر معیاری ریموٹ کنٹرول دیاتھا۔جاپان اورچین کی ٹیکنالوجی میں بہت فرق ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل نے اپیل کنندہ کو پیش کش کی کہ وہ مکینک کی جگہ اسے پانچ ہزار روپے دینے کو تیار ہیں جس پر اپیل کنندہ نے کہا کہ بے شک یہ پانچ ہزار روپے اسے دینے کے بجائے ایدھی ہومز کودے دیے جائیں، لیکن مکینک کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔اس کے بعد دوسرے وکیل کی تحریری یقین دہانی پر معاملہ حل ہوگیا اور فاضل عدالت نے اپیل نمٹادی تھی۔

پاکستان میں اگرچہ صارفین کے حقوق سے متعلق قوانین اور عدالتیں موجود ہیںلیکن اس حوالے سے کم علمی ،مصروفیت اوررحجان نہ ہونے کی وجہ سے عموماً صار فین مختلف خدمات فراہم کرنے والے اداروں،دکان داروں اور کاری گروں کی بڑی بڑی زیادتیوں پر بھی صارفین کی عدالت سے رجوع کرنےسے گریز کرتے ہیں۔دوسری جانب سرکاری اداروں کی طرف سے صارفین کے حقو ق کے تحفظ کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ان حالات میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے درج بالا مقدمہ پوری قوم کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ایک شخص نے ایک چھوٹی سی شئےکے بارے میں بہ حیثیت صارف اپنا حق منوانے کی خاطر طویل علامتی جدوجہد کی۔

تازہ ترین