• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک لابی سی پیک متنازع بنانے کیلئے پراپیگنڈہ کررہی ہے،احسن اقبال

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں سابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں ایک لابی سی پیک کو متنازع بنانے کیلئے پراپیگنڈہ کررہی ہے، حکومت انتہائی اہم اور سنجیدہ موضوعات کو نہایت غیرسنجیدگی سے لے رہی ہے، ن لیگ کی حکومت نے سی پیک کو کاغذ کے ٹکڑے سے اربوں ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا، گزشتہ حکومت نے جہاں سی پیک چھوڑا موجودہ حکومت کو وہاں سے آگے لے کر جانا چاہئے، پی ٹی آئی حکومت پچھلی حکومت کو بدنام کرنے کیلئے ہر چیز کو سیاست زدہ کررہی ہے، حکومت بتائے ہم نے سی پیک میں قوم سے کیا مذاق کیا، ہمارے سی پیک کے منصوبوں سے پاکستانی قوم فائدہ اٹھارہی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا ہماری بنیادی وفاداری پاکستان سے ہے، سی پیک میں پاکستان کے بہترین مفاد کو دیکھا اور چین نے بھی بڑے دل کا مظاہرہ کیا، چین بھی چاہتا ہے اس کا اتحادی بیمار معیشت کے بجائے انڈسٹریل اکانومی بنے، سی پیک میں توانائی کے تمام منصوبے شفاف طریقے سے نیپرا نے کیے، سی پیک پر نظر رکھنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی جس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی بھی تھی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سی پیک سے متعلق اجلاسوں میں شریک ہو تے رہے، سی پیک کی کوئی چیز پارلیمنٹ، اداروں اور قوم سے مخفی نہیں رکھی گئی، پاکستان میں ایک لابی سی پیک کو متنازع بنانے کیلئے پراپیگنڈہ کررہی ہے، تمام آئینی اداروں نے سی پیک منصوبوں کی ضابطوں کے مطابق منظوری دی۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کو سی پیک پر نظرثانی کرنی ہے تو اپنے ملک میں کرے انٹرویو میں کیوں متنازع بنارہے ہیں، عبدالرزاق داؤد کی طرف سے تردید پر خوشی ہے لیکن ابھی بھی مکمل مندرجات کی تردید نہیں کی گئی، عبدالرزاق داؤد کے ماضی میں سی پیک سے متعلق تحفظات غلط تھے، یو ایس ایڈ ، جائیکا یا کوئی بھی ملک سستا قرضہ دیتا ہے تو اپنے کنٹریکٹرز لاتے ہیں، چین نے رعایتی قرض دیا تو منصوبوں پر عملدرآمد چینی کمپنیوں کے ذریعہ کرنے کا کہا جو دنیا بھر کی پریکٹس ہے، چینی کمپنیوں کو ٹیکس اور ڈیوٹیز میں رعایت اس لئے دی کہ ان سے جتنا ٹیکس لیں گے اتنا قرضہ بڑھ جائے گا۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ چین پاکستان تعلقات کو سیاسی پارٹنرشپ سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں ڈھال رہا ہے، یہ ایسا منصوبہ نہیں جس سے چین پاکستان میں ولن بن جائے اور عوام چین کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں، چین نے پاکستان کی اس وقت مدد کی جب کوئی دس ڈالر یہاں لگانے کیلئے تیار نہیں تھا، تجارتی خسارے کا تعلق سی پیک سے نہیں ہے، چین کے ساتھ کھلی تجارت کا معاہدہ 2004ء میں جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا، چینی کمپنیوں کو کوئی ایسا فائدہ نہیں دیا گیا جو پاکستانی انڈسٹری پر اثر انداز ہوگا، پاکستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر آنے کیلئے خود کو اٹھانا پڑے گا، پرائیویٹ سیکٹر کو عالمی مقابلہ کیلئے خود کو تیار کرتے ہوئے عالمی سرمایہ کاری کو موقع سمجھنا چاہئے،چین کو کسی ایسی مد میں ڈیوٹی معاف نہیں کی گئی جہاں پاکستانی بزنس کوالیفائی کرتا ہو، چینی کانٹریکٹرز وہ پراجیکٹ کررہے ہیں جو چینی سرمایہ کاری سے منسلک ہیں۔چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے پیٹرولیم محسن عزیز نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ایل این جی معاہدہ کو خفیہ رکھا اس کے مقاصد سمجھ نہیں آئے، ہمیں ملنے والے کاغذات کے مطابق کنسلٹنٹ نے طویل مدتی ڈیل کو پاکستان کے مفاد کیخلاف قرار دیتے ہوئے مختصرمدتی ڈیل کی سفارش کی تھی، ہم نے بریفنگ میں ایل این جی معاہدہ اور ٹرمینل پر اعتراضات کیے تھے، ایل این جی معاہدہ پر دوبارہ مذاکرات کی کوشش کی جائے گی، ایل این جی اور ٹرمینل سے متعلق معاملات تحقیقاتی ایجنسی کے حوالے کرنے کی سفارش کی ہے۔ ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ انٹرنیشنل ادارے بلوم برگ کی رپورٹ دیکھیں تو ایل این جی معاہدہ میں پچھلی حکومت نے بچت کی ہے، پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج درآمدات کنٹرول کرنے کا درپیش ہے، زرمبادلہ بڑھانے کیلئے قرض لینے یا درآمدات کم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، اکنامک ایڈوائزری کمیٹی نے درآمدی بل کم کرنے کیلئے بہت اہم درآمدات کی نشاندہی کی ہے، نئی اور پرانی گاڑیوں کی درآمدات پر پاکستان کے اربوں ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء میں صرف پنیر ہی نہیں بہت سی اشیاء شامل ہیں جنہیں درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، انٹرنیشنل ٹریول پر بھی ٹیکسز بڑھادیئے جائیں تو اس میں اخراجات بھی کنٹرول ہوسکتے ہیں، عالمی معاہدوں کی وجہ سے جن اشیاء کی درآمدات نہیں روکی جاسکتی ان پر ڈیوٹیز بڑھادی جائیں، برآمدات بڑھانے کیلئے کابینہ کی میٹنگوں میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے، پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر کاروباری برادری میں تحفظات ہیں، پاکستانی معیشت جس مشکل میں ہے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا ہے۔
تازہ ترین