نوابشاہ (محمد انور شیخ) شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی میں طالبہ ہراسگی کے معاملے کا ڈراپ سین ہوگیا ، وزیر اعلی سندھ کی قائم کردہ کمیٹی نے طالبہ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انگریزی کے شعبہ کے سربراہ کو الزام سے بری الذمہ قرار دیدیا۔ دوسری جانب طالبہ فرزانہ جمالی کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کی طالبہ فرزانہ جمالی نے الزام لگایا تھا کہ انگلش ڈپارٹمنٹ کے انچارج لیکچرار عامر سعید خٹک 6 ماہ سے انہیں جنسی طور پر ہراساں کررہے ہیں اور اس الزام کے میڈیا پر رپورٹ ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چار رکنی کمیٹی جس کے سربراہ سابق وائس چانسلر مہران انجینئرنگ ڈاکٹر اے کیو راجپوت اور ممبران ڈاکٹر پروین صوفی وی سی صوفی یونی ورسٹی بھٹ شاہ ، ڈپٹی سیکریٹری ایجوکیشن بورڈ سہیل انور بلوچ اور ڈی سی نوشہرو فیروز انور علی شر شامل تھے قائم کی گئی تھی کمیٹی نے فرزانہ جمالی کے لیکچرار عامر خٹک پر جنسی ہراسگی کے الزام کو مسترد کردیا اور قرار دیا کہ مسئلہ فرزانہ کی کلاس میں غیر حاضری کا تھا جس کو جنسی ہراسگی کا روپ دیا گیا ۔ اس سلسلے میں شعبہ انگلش کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور لیکچرار عامر سعید خٹک نے جنگ کو بتایا کہ فرزانہ جمالی کا جو واقعہ ہوا یہ سب کلاس میں غیرحاضری کا معاملہ تھا جسے طالبہ نے اپنی انا کا مسئلہ بنایا اس کے والد نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا جس کی میں نے ایف آئی آر کٹوادی اور اگلے دن جب حاضری اشو پر راضی نامہ نہیں کیا تو مجھ پر جنسی ہراسگی کا الزام لگا دیا گیا جس پر وزیر اعلی سندھ نے کمیٹی بنائی جس کی رپورٹ میں مجھے پر الزام بے بنیاد ثابت ہوا میں اس رپورٹ سے مطمئن ہوں۔اس سلسلے میں یونی ورسٹی کے رجسٹرار نجم دین سوہو نے جنگ کو بتایا کہ طالبہ فرزانہ جمالی کا جو معاملہ تھا اس پر ہم سب کا شروع سے موقف تھا کہ یہ جھوٹ ہے کیونکہ یونی ورسٹی کے قیام سے اب تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور دوسرا یہ کہ 2014 سے یونی ورسٹی میں ہراسمنٹ سیل بنا ہوا ہے جس میں آج تک ایسا کوئی واقعہ رجسٹرڈ نہیں ہوا ہے ۔طالبہ ہراسگی کے سلسلے میں وزیرا علیٰ نے جو کمیٹی بنائی اس کی رپورٹ میں معاملہ کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے اصل معاملہ کلاس میں حاضری کا تھا جسے طالبہ نے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا اور غلط الزام عائد کیا۔ اس حوالے سے شہید بینظیر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ارشد سلیم نے جنگ کو بتایا کہ یونی ورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ فرزانہ جمالی کے معاملے پر وزیر اعلی سندھ کی کمیٹی کی رپورٹ آچکی ہے جس میں جنسی ہراسگی کے اشو کو بے بنیاد قرار دے دیا گیا ہے۔ شہید بینظیر بھٹو یونی ورسٹی میں ہزاروں طلبہ و طالبات بغیر ہراساں ہوئے آج تک پڑھے چلے آرہے ہیں کسی کی جانب سے کوئی شکایت نہیں آئی یہی ہماری اور یونی ورسٹی کی کامیابی کی دلیل ہے ۔انہوں نے کہا کہ یونی ورسٹی میں گذشتہ پانچ سالوں سے ہراسمنٹ سیل بنایا ہوا ہے جس میں فرزانہ جمالی کی جانب سے کوئی درخواست نہیں دی گئی جبکہ طالبہ کا موقف ہے کہ اسے چھ ماہ سے ہراساں کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب جنسی ہراسگی کا الزام عائد کرنے والے شعبہ انگلش کی طالبہ فرزانہ جمالی کے کلاس فیلونور محمد خاصخیلی نے جنگ کو بتایا کہ فرزانہ جمالی کے ساتھ میری بھی حاضریاں کم تھیں جس کی وجہ سے ہمارے لیکچرار عامر خٹک نے ہمیں کلاس سے باہر نکالا اور ہمارے ساتھ فرزانہ جمالی کو بھی باہر نکال دیا اور دوسرے روز میں نے ان سے معذرت کی اور کلاس میں آگیا جبکہ میں نے فرزانہ جمالی کو بھی کہا کہ آپ بھی سر سے معذرت کرلیں اور کلاس میں آجائیں لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے سر پر الزام عائد کردیا جبکہ دو سال سے ہم سر عامر خٹک کی کلاس میں پڑھ رہے ہیں اور ان میں ہم نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جبکہ وہ اپنے آفس میں کسی اسٹوڈنٹ سے نہیں ملتے اور انہوں نے لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو کلاس میں ڈسکس کیا جائے اور اسی طرح فرزانہ جمالی کے ساتھ کلاس سے نکالی گئی طالبات نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی حاضری کم ہونے کے باعث کلاس سے نکالا گیا تھا جس پر انہوں نے لیکچرار عامر خٹک سے معذرت کرکے کلاس میں آگئیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ لیکچرار عامر خٹک کے خلاف کی گئی جنسی ہراسگی کے الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔جبکہ دوسری جانب طالبہ فرزانہ جمالی کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔