4 شعبان، 4ہجری کی پُرنور، روشن اور حَسین صبح، خاتونِ جنّت، جگر گوشۂ رسولؐ، سیّدۃ النساء، فاطمۃ الزہراؓ کے گھر سے آنے والی مسحورکُن خوش بُو مدینہ طیّبہ کی مقدّس فضائوں کو مزید معطّر کررہی ہے۔ آج اللہ نے اُنہیں ایک اور عظیم فرزندِ ارجمند سے نوازا ہے۔ ولادتِ باسعادت کی اطلاع پا کر امام الانبیاءؐ، سرورِ کونینؐ، رحمتِ عالمؐ،ساقیٔ کوثر ﷺ بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ چہیتی اور لاڈلی بیٹی کو پیار کیا، پھر جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ کو گود میں لے کر کانوں میں اذان دی اور دعائوں کے اَن مول تحفوں کے ساتھ اپنا لعابِ مبارک نومولود کے دہن میں داخل فرمایا۔ ساتویں دن، حضرت علی مرتضیٰؓ نے عقیقہ فرما کر’’حرب‘‘ نام تجویز کیا، لیکن پھر سرکارِ دوعالمؐ کی ہدایت پر ’’حُسین‘‘ نام رکھا گیا۔
حسنین کریمینؓ، آئینہ نورِ مصطفیٰ ﷺ ہیں کہ جن کا چہرۂ انور اور جسمِ اطہر مشابۂ رسولؐ ہے۔ جو نبیٔ مکرّمؐ کے باغ کے پھول اور جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جن کے بارے میں حضور ﷺنے فرمایا کہ’’ جس نے حَسنؓ و حُسینؓ کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اُس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ ایک مرتبہ مسجدِ نبویؐ میں خطبے کے دَوران نبیٔ کریمؐ نے حضرت حُسینؓ کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا اور صحابہؓ سے فرمایا’’ لوگو! پہچان لو، یہ میرا نواسہ حُسینؓ ہے۔
حُسینؓ مجھ سے ہے اور مَیں حُسینؓ سے ہوں۔‘‘ آپؓ سات برس تک سرورِ کونینؐ کے زیرِ سایہ پرورش پاتے رہے اور حضرت علی مرتضیٰؓ کی شفقتِ پدری، خاتونِ جنّت، سیّدہ فاطمۃ الزّہراؓ کی آغوشِ محبّت میں صبر و استقامت، حق و صداقت، جرأت و شجاعت، تسلیم و رضا، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مر مِٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ہجری 10محرّم الحرام کو ارض و سما نے کربلا کے صحرا میں حق وباطل کا محیّرالعقول واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیتِ الہیٰ اور شریعتِ محمدی ؐکے تحفّظ و بقا کے لیے نواسۂ رسولؐ اور لختِ جگر علی ؓو بتولؓ نے یزیدیت کے سامنے سَر جھکانے کی بجائے اپنے گھرانے کے افراد کو نانا کے دین پر قربان کردیا۔
ایک ایک کرکے عزیز و احباب اور جگر گوشوں کے لاشے خاک و خون میں تڑپتے رہے۔ معصوم بچّوں کے سینے زہر آلود تیروں سے چھلنی ہوتے رہے۔ پیاسی اور بھوکی بچّیوں کی صدائوں سے کربلا کی فضائیں لرزتی رہیں، یہاں تک کہ آپؓ نے خود بھی سیکڑوں دشمنوں کے سَر قلم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما کر مظلوم انسانیت کو وقت کے یزیدوں کے سامنے کبھی نہ جُھکنے کا لازوال سبق دیا۔واقعۂ کربلا دراصل تاریخِ انسانیت کا وہ بڑا سانحہ ہے کہ جس نے تاریخ کے اوراق میں حق و صداقت کے ایک نہایت روشن باب کا اضافہ کرکے مظلوم انسانوں کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف باطل قوّتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا شعور دیا۔
نواسۂ رسولؐ، شہیدِ کربلا ؓنے طاقت کے نشے میں چُور، تکبّر و نخوت کے پیکر، یزید کو ببانگِ دہل للکار کر شجاعت و بہادری کی وہ عظیم الشّان مثال قائم کی کہ جس نے جہاں ایک طرف، دنیا کو حیرت زدہ کردیا، تو دوسری طرف، کربلا کے صحرا میں بہنے والے خانوادۂ حُسین ؓکے خون نے اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔ مولانا محمّد علی جوہرؒ نے اسے یوں بیان کیا؎ قتلِ حُسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے…اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
مسندِ خلافت پر یزید کا قبضہ: رجب 60ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد اُن کا بیٹا، یزید مسندِ خلافت پر براجمان ہوا، تو فسق و فجور، ظلم و جبر، ناانصافی و عہدشکنی کے دَور کا آغاز ہوگیا۔ نیز، یزید نے خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے عالمِ اسلام سے بزورِ جبر اپنے حق میں بیعت لینا شروع کردی۔ اُس وقت مدینہ منورہ میں یزید کا چچازاد بھائی، ولید بن عقبہ گورنر تھا۔
یزید نے اُسے ایک مختصر سا حکم نامہ ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ’’ حُسینؓ ابنِ علیؓ، عبداللہؓ ابنِ عُمرؓ اور عبداللہؓ ابنِ زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ نہ مانیں، تو اُن کے ساتھ پوری سختی کی جائے، یہاں تک کہ تینوں بیعت کرلیں۔‘‘ حضرت امام حُسینؓ کو یہ اطلاع ملی، تو آپؓ مدینہ منورہ سے مکّہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ اُدھر اہلِ کوفہ تواتر کے ساتھ خطوط اور وفود کے ذریعے یہ اصرار کرتے رہے کہ آپؓ کوفہ آجائیں تاکہ اہلِ کوفہ آپ ؓکے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔
حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت: کوفے والوں کے بے انتہا اصرار اور لاتعداد خطوط کے جواب میں آپؓ نے پہلے اپنے چچازاد بھائی، حضرت مسلم بن عقیل ؓکو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ کرکے اطلاع دیں۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓنے کوفہ پہنچ کر’’عوسجہ‘‘ نامی ایک شخص کے گھر قیام کیا اور لوگوں سے حضرت امام حسینؓ کے لیے بیعت لینی شروع کردی ۔ جلد ہی بارہ ہزار لوگوں نے خفیہ طور پر بیعت کر لی، جس پر اُنھوں نے حضرت امام حُسینؓ کو خط لکھ کر جلد کوفہ پہنچنے کی گزارش کی۔
حضرت حُسینؓ نے خط ملتے ہی کوفہ جانے کی تیاری شروع کردی۔ اُدھر کوفہ کے نئے گورنر، عبیداللہ بن زیاد کو حضرت مسلم بن عقیل اور حضرت حُسین ؓکی بیعت کے بارے میں مخبری ہوگئی، چناں چہ چند سازشی عناصر کے ذریعے حضرت مسلم بن عقیل کو ہانی بن عروہ کے مکان سے گرفتار کرکے شہید کردیا گیا اور اہلِ کوفہ بزدلی، خوف اور بے بسی کی تصویر بنے، شہادت کا یہ رُوح فرسا منظر دیکھتے رہے۔
حضرت حُسینؓ کی کوفہ روانگی : 3ذی الحجہ 60ہجری بروز دوشنبہ، حضرت امام حُسینؓ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہم راہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور یہ وہی دن تھا کہ جب حضرت مسلم بن عقیل ؓکو ابن زیاد نے بے دردی سے شہید کردیا تھا۔ اہلِ مدینہ اور صحابہ کرامؓ نے آپ ؓکو روکنے کی کوشش کی۔ اہلِ کوفہ کی بے وفائیاں اور شہادتِ علی مرتضیٰؓ یاد دلائی، مگر آپؓ نے فرمایا’’ مَیں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے۔ حضورؐ نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے۔
اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔‘‘ لوگوں نے آپؓ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی، تو آپ ؓنے فرمایا’’مَیں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتائوں گا۔ یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل سے جا ملوں گا‘‘(ابنِ اثیر، البدایہ والنہایہ)۔ ابھی آپؓ کوفہ کے راستے میں قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُر بن یزید تمیمی سے سامنا ہوا، جو ایک ہزار افواج کے ساتھ آپؓ ہی کی تلاش میں تھا۔
یہ بھی اُن لوگوں میں شامل تھا کہ جنہوں نے کوفہ آنے پر اصرار کیا تھا، لیکن اب یزید کے ساتھ تھا۔ وہ آپؓ سے ملا اور حضرت مسلم کی شہادت سمیت پوری رُوداد سُناتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت مسلم کی شہادت کی خبر سُن کر اُن کے بھائیوں نے کوفہ جانے پر اصرار کیا، چناں چہ آپؓ نے سفر جاری رکھا۔ راستے میں کوفہ سے آنے والے لوگوں نے آگے نہ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ’’ اہلِ کوفہ کے دِل تو آپ ؓکے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔‘‘
کربلا میں قیام : 2 محرّم 61ہجری کو ایک مقام پر آپؓ نے قافلے کو روک کر اس جگہ کا نام دریافت کیا۔ بتایا گیا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپؓ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا کہ’’ یہی جگہ ہماری مقتل گاہ ہے۔‘‘ چناں چہ وہاں خیمے نصب کردیے گئے، لیکن ابنِ زیاد کے حکم پر وہاں سے خیمے ہٹا دیے گئے اور دریائے فرات سے تین مِیل کی دُوری پر صحرا میں لگا دیے گئے کہ جہاں دُور دُور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ کربلا میں عمرو بن سعد 4ہزار فوجیوں کے ساتھ آپؓ کے محاصرے پر مامور تھا۔
اُس وقت آپ ؓکے خیموں میں معصوم شیرخوار بچّوں، بیمار زین العابدین اور خواتین سمیت 72؍نفوسِ قدسیہ ذکرِ الہیٰ میں مصروف تھے۔ حضرت حُسینؓ نے عمرو بن سعد کے سامنے تین شرائط رکھیں (1) مجھے واپس مکّہ یا مدینہ جانے دیا جائے۔ (2)کسی سرحدی مقام کی جانب نکل جانے دیا جائے۔ (3)یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات طے کرلوں۔
عمرو بن سعد نے شرائط ابن زیاد کو لکھ بھیجیں، لیکن اُس نے یہ تینوں شرائط قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ’’ حُسینؓ بن علیؓ کو فوراً گرفتار کرلیں یا پھر جنگ کرکے اُن کا سَر کاٹ کر بھیج دو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اُس نے ایک سفّاک شخص، شمرذی الجوشن کو نیا سالار بنا کر بھیج دیا۔
خاندانِ حُسینؓ کا پانی بند: وہ ساتویں محرّم کی ایک اداس اور غم گین صبح تھی، جب شقی القلب، عبیداللہ بن زیاد کے حکم سے ساقیٔ کوثر ﷺ کے چہیتے نواسے اور اُن کے خاندان کا پانی بند کردیا گیا۔ عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500یزیدی فوجی دریائے فرات کا محاصرہ کرلیتے ہیں۔ کربلا کے تپتے صحرا، غصّے سے آگ برساتا سورج اور خیموں میں معصوم بچّوں کی بھوک و پیاس سے بلبلاتی آوازیں زمین کا سینہ شق کردینے کے درپے ہیں۔
ایسے میں عبّاس عَلم بردارؓ سے بچّوں کی تشنہ لَبی دیکھی نہیں جاتی۔ فرطِ جذبات میں مشکیزہ اٹھا کر پانی لینے نکل پڑتے ہیں۔ دریائے فرات پر متعیّن فوجی جب ایک شہ سوار کو دھوپ کی تیز روشنی میں چمکتی برہنہ تلوار لیے سرپٹ اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں، تو خوف کے مارے بھاگ اُٹھتے ہیں۔ دریائے فرات کا بہتا ٹھنڈا پانی سامنے ہے۔
حضرت عبّاسؓ خود بھی پیاسے ہیں، لیکن صرف مشکیزہ بھرتے ہیں کہ پہلے معصوم پیاسے پانی پی لیں۔ ابھی مشکیزہ لے کر خیمے پر پہنچتے ہیں کہ تیروں کی بوچھاڑ سینے اور مشکیزے دونوں کو گھائل کردیتی ہے۔ پانی معصوموں کے حلق کو تر کیے بغیر ہی بہہ جاتا ہے اور سیّدنا عبّاس عَلم بردارؓ شہادت کا مرتبہ پا کر جنّت کو سدھارتے ہیں۔
حضرت امام حُسینؓ کو یقین تھا کہ اب شہادت کا وقت بہت قریب ہے، چناں چہ آپؓ نے اپنے رفقاء سے فرمایا’’ اے میرے جاں نثار رفقاء! یزید کی فوج صرف میرے خون کی پیاسی ہے۔ تم لوگ یہاں سے جس طرف مناسب سمجھو، نکل جائو۔‘‘ مگر آفرین ہے حُسین ؓکے ان پیاروں پر۔ اُس وقت ہر شخص نے آپؓ کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرنے کا عزم کیا۔
یومِ عاشور: شبِ عاشور، سیّدنا حضرت حُسینؓ خیمے کے دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ ہلکی سی اونگھ آجاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہیں، تو حَسین چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح منور ہے۔ ہلکی سی مُسکراہٹ نے فضا میں پھول بکھیر دیے ہیں۔ رفقاء سے فرماتے ہیں کہ’’ نانا ﷺ خواب میں آئے تھے۔ فرمایا کہ ’’حسینؓ! اب ہم سے ملنے کی تیاری کرلو۔‘‘ راہِ حق کے متوالوں کی پوری رات عبادت میں گزری۔
صبح آپؓ نے یزیدی فوج کے سامنے ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی’’ اے لوگو! تم جانتے ہو کہ مَیں رسول اللہؐ کا نواسہ، حیدرِ کرارؓ کا نورِ نظر اور خاتونِ جنّت ؓکا لختِ جگر ہوں۔ تم واقف ہو کہ رسول اللہؐ نے ہم دونوں بھائیوں کو جنّت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔ تم سب نے مجھے خط لکھ کر بلایا، اب تم اپنے وعدوں سے پِھر چُکے ہو۔ مَیں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے جنگ نہ کرو اور مجھے اپنے رفقاء سمیت مکّہ یا مدینہ واپس جانے دو۔‘‘ اس تقریر سے متاثر ہوکر حُر بن یزید تمیمی نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت امام حُسینؓ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
شمرذی الجوشن نے جب یہ منظر دیکھا، تو اُسے فکر ہوئی کہ فوج میں بغاوت نہ ہو جائے، اُس نے عمرو بن سعد سے کہا کہ’’ اب دیر نہ کرو۔‘‘ عمرو نے حضرت امام حُسینؓ کی جانب پہلا تیر پھینک کر سانحۂ کرب و بلا کا آغاز کیا۔ لشکرِ حسینیؓ سے سب سے پہلے آپ ؓکے ساتھیوں، بریر ہمدانی، عابس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر اور دیگر نے میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔ اب اقربا کی باری ہے۔ عون، محمّد، جعفر و قاسم، علی و عبداللہ غرض ایک ایک کرکے سب آتے رہے اور جنّت کو سدھارتے رہے۔
شہادتِ امام عالی مقامؓ : آخر میں لختِ جگر، علی اکبر ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے۔ والدِ محترم کو مُسکراتی نگاہوں سے الوداعی سلام کیا اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ خیموں سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، تو حضرت امام حُسینؓ نے جاکر فرمایا’’ تمہارے رونے کی آوازوں سے یزید کے فوجی خوش ہوتے ہیں۔‘‘ سامنے ہی چھے ماہ کے علی اصغر لیٹے تھے، گود میں اٹھایا اور باہر آکر کہا’’ دیکھو! یہ معصوم تین دن سے پیاسا ہے‘‘ ابھی الفاظ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک تیر آیا اور شیرخوار شہہ زادے نے باپ کے ہاتھوں میں دَم توڑ دیا۔
اب حضرتِ حُسینؓ تنہا رہ گئے تھے۔ لشکرِ یزیدی نے چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ امام عالی مقامؓ نے آسمان کی جانب دیکھا، شمشیرِ حیدری کو داہنے ہاتھ میں پکڑا اور نعرۂ تکبیر بلند کرتے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔ شمشیرِ حسینی خوف زَدہ فوجیوں کے سَر قلم کرتی میدانِ جنگ میں چاروں جانب چل رہی تھی کہ اچانک کہیں دُور سے اذان کی آواز آئی۔
حضرت امام حُسینؓ نے ہاتھ روک لیا اور بآوازِ بلند نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب شمر کے جوش دلانے پر مالک کندی نے دوشِ نبویؐ کے شہہ سوار پر ایسا کاری وار کیا کہ تلوار کلاہِ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسۂ سَر تک پہنچ گئی۔ خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا اور سارا بدن خون کے چھینٹوں سے لالۂ احمر ہوگیا۔ آپؓ نے زخمی سَر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، ہزاروں کے حصار میں اکیلے حسینؓ کے جسمِ اطہر پر زخموں کے نشانات بڑھتے جارہے تھے۔
زخموں کی شدّت نے آپؓ کو نڈھال کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود کسی میں اتنی ہمّت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہِ گراں کو شہید کرسکے۔ آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا’’ آگے بڑھو اور شہید کردو۔‘‘ یہ سُنتے ہی آپؓ پر تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ ایک تیر گردن پر پیوست ہوگیا، جسے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چُور، فاطمہؓ کے لالؓ پر وار کیا۔ بایاں بازو کٹ کر دُور جاگرا، عین اسی حالت میں سنان بن انس نے نیزا مارا۔
امام عالی مقامؓ زمین پر گر گئے۔ خولی بن یزید سَر قلم کرنے آگے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے، پیچھے ہٹ گیا۔ سنگ دل اور شقی القلب، سنان بن انس نے سَر مبارک کو جسمِ اطہر سے جدا کردیا۔ ابنِ زیاد کے حکم پر ان وحشی فوجیوں نے جسمِ اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا۔ علّامہ ابنِ جوزی نے’’ تذکرۃ الخواص‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ آپ ؓکے جسمِ اطہر پر 33زخم نیزوں کے 43تلواروں کے تھے اور آپ ؓکے پیرہن شریف پر 121سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم ،جسمِ مبارک کے اگلے حصّے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا‘‘ (جامع التواریخ)۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ