بروس ڈی برائون امریکا میں آزادی صحافت پر اپنے مضامین کے سبب خاصے مقبول ہیں۔ اِس سال فروری میں شائع کردہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ پہلے اُن کا خیال تھا کہ اُ نہیں جلد شمالی و جنوبی امریکا کے ایسے ممالک کا دورہ کرنا ہوگا جہاں آزادی صحافت زیر عتاب ہو۔ لیکن کچھ ہی عرصے قبل برائون اپنی توقعات کے بر عکس امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے ونیزویلا، ارجنٹائن، پروُ اور میکسیکو کے صحافیوں پر مشتمل ایک وفد کا استقبال کررہے تھے ۔ برائون لکھتے ہیں کہ یہ غیر ملکی صحافی امریکا میں آزادی صحافت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لینے آئے تھے ۔
بیسویں صدی میں اظہار کی آزادی ، جمہوریت اور انقلاب کی جدوجہد میں شامل روشن خیال ذہنوں میں کبھی اِتفاقاً بھی یہ خدشہ پیدا نہیں ہوا ہوگا کہ نئے ملینیم کی دوسری دہائی مکمل ہوتے ہوتے، بڑی جمہوریتوں سمیت دنیا کے اہم خطوں میں اُن کی یہ جد وجہد خاک میں ملتی دکھائی دے رہی ہوگی۔آزادی صحافت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ جبر محض پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ جنوبی و شمالی ایشیا ئی ممالک اور شمالی امریکا میں کہیں زیادہ تشویشناک صورتحال اختیار کررہا ہے۔تجزیہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا اِس صورتحال کی ذمہ داری اِن خطوں پر مسلط ولادیمیر پیوٹن، نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ پر مشتمل دائیں بازومزاج کی حامل قیادتوں پر عائد ہوتی ہے یا اِن خطوںمیں آزادی صحافت پر حملہ آور یہ تین رہ نما، محض بگڑتی ہوئی تاریخ کا بہانہ ہیں؟ گزشتہ صدی میںامریکی نیوزانڈسٹری پرگزری ہوئی قیامت کا مطالعہ، ماضی کی جانب سفر کے اِس خدشے کوکسی حد تک تقویت دیتا ہے۔
اگرچہ امریکی قیادت دوسری جنگ عظیم میںسوویت یونین کے ہاتھوں جرمنوںکی عبرت ناک شکست کے سبب سے پہلے ہی خائف تھی لیکن دنیا میں کمیونزم کا پھیلائو امریکیوں کے لئے سوویت یونین کے خلاف مستقل جنگ کا سب سے بڑا جواز بن گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وسطی و لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ، افریقہ اور مشرق بعید سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی مہم جو ، کمیونسٹ حکومتوں کیخلاف دست و گریباں ہوگئے ۔امریکیوں کو جلدیہ اندازہ بھی ہوگیا کہ محض جاسوسی اور گوریلا وار فیئر کے بل بوتے پرکمیونزم سے مقابلہ آسان نہیں تھا ۔ لہٰذا ملک کے بڑے اخبارات ، جرائد اور صحافیوں کو خریدنا یا اپنے نظریات کے پیچھے چلنے پر مجبور کرناریاست کا فرضِ اولین سمجھ لیاگیا۔کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ’’ آپریشن ماکنگ برڈ (Operation Mockingbird)‘‘نامی ایک خفیہ مہم کا آغاز کیا گیا ۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں مقبول میڈیا ہاوسز اور نامور صحافیوں کو امریکی مفادات کی نگرانی پر معمورکرنا اس مہم کا بنیادی مقصد تھا۔
سال 1975 میںاظہار رائے اور صحافت کی آزادی کی شدید خوش فہمی میں مبتلا امریکی قوم کو اس وقت غیر متوقع صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب امریکا کی سینیٹ سلیکٹ کمیٹی کے رو برو چند سرکاری عہدیداران کے بیانات سے ثابت ہوگیا کہ اپنی مرضی کی خبر چلوانے اور من پسند معلومات کا پرچار کرنے کے لئے صحافیوں ، اخبارات اور رسائل کو خریدا جاتا رہاہے۔
اس سے قبل انیس سو اڑتالیس میں امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام کے بعد اِس کے زیرانتظام آفس آف پالیسی کورڈنیشن سے متعلق انکشاف ہوا کہ عالمی پروپیگنڈے، اقتصادی جنگوں، سبوتاژ اور مداخلت کے ذریعے کمیونسٹ حکومتوں کو سبق سکھانا اِس ادارے کے بنیادی مقاصدمیں شامل تھا۔ منصوبے کے تحت، کہا جاتا ہے کہ، نامور امریکی اخبارات اور نیوز چینلز پر ناپسندیدہ خبروں کی حوصلہ شکنی اور من پسند مواد کی نشرواشاعت کیلئے دبائو بتدریج بڑھایا جانے لگااور جلد ہی تھائی لینڈ، فلپائن اور اٹلی کے ممتاز اخبارات پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا گیا ۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب دنیا کے کسی بھی جریدے کے سرورق پر لگی تصویر یا اخبار کی سرخی کے پیچھے کسی نامعلوم ہاتھ کا ہونا کوئی نا قابل یقین بات نہیں تھی ۔ حد یہ ہے کہ سال 1993میں سیون اسٹوریز پریس کی شائع کردہ ،
Power,Privilege and the Post:The Katharine Graham Story
میں کیرل فیل سینتھال Carol Felsenthal انکشاف کرتی ہیںکہ پچاس کی دہائی میں چند اہم افسروں کی ملاقاتوں میںطے کیا جاتا تھاکہ کون سا صحافی کس قیمت پر دستیاب ہے!ـ کتاب میں درج ہے کہ اُس دوران بہت سے مخالف اخبارات اورچینلز بھی کھڑے کھڑے خریدلئے گئے ۔
مارچ 1968میںویتنام میں مائی لائے کے مقام پر بڑی خونریزی کا بھانڈہ پھوڑنے والے شہرہ آفاق رپورٹر سیمور ہرش (Seymour Hresh) کہتے ہیں کہ ابتدا میںتمام امریکی اخبارات نے اُن کی اِس رپورٹ کوشائع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکی مفادات کے انتہائی مبہم اور بے معنی بوجھ تلے امریکی میڈیا کی یہ بے بسی آزادی صحافت پرغیر علانیہ قدغن کی بدترین مثال ہے۔
بیس اکتو بر1977کے دن رولنگ اسٹون میگزین میں ، واٹر گیٹ اسکینڈل کے ذریعے صدر نکسن کو گھر بھیجنے والے کارل بر نسٹین کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ میں تقریباً چار سو سے زائد فعال صحافی در اصل جاسوس ہیں اور اِن میں بڑے نام بھی شامل ہیں۔
امریکا میں صحافیوں اور میڈیا ہائوسز پر دبائو یا اُن سے سودے بازی کا سلسلہ 1989 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بظاہر جاری نہیں رہالیکن موجودہ امریکی قیادت کا قدامت پسندانہ مزاج ایک بار پھر کھلم کھلا آزادی صحافت و اظہار پر حملہ آور ہے۔ ستم یہ کہ امریکیوں کے روایتی حریف روس اور ایک اہم اسلامی و ایشیائی ملک ترکی میں مطلق العنان حکمرانوں اور پڑوس میں واقع دنیا کی سب سے بڑ ی جمہوریت کی انتہا پسند قیادت کے زیر اثر معاملات میں فی الحال بہتری کی گنجائش بظاہر بعید از قیاس ہے۔
گجرات میں خونریزی اور کشمیر سے متعلق اپنی بے باک رپورٹنگ کے سبب ہندوستان کے قدامت پسند حلقوں میں ناپسند کی جانے والی صحافی برکھا دت کی مثال دنیا کے سامنے ہے ۔ اُنہوں نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت کی چنداہم شخصیات اِن سے ناراض رہتی ہیں۔ ایک نڈر اور بے باک صحافی ہونے کے باوجود برکھا دت شدید دبائو کے تحت فی الحال صحافیانہ سرگرمیوں سے دور ہیں۔
پاکستان میں آزادیِ صحافت و اظہارسے متعلق صورتحال گزشتہ ستّر برسوں میں اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے ۔اِن سات دہائیوں میں اخبارات و جرائد کی بندشوں کے ان گنت واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ پھر سال 2001کے بعد پرائیویٹ الیکٹرانک نیوز انڈسٹری کے بڑھاوےکے بعد بھی میڈیا ہائوسز سے بر سراقتدا ر حکومتوں کی ناراضیاں گویا معمول رہی ہیں۔ آج پاکستان میں یقیناً کوئی مطلق العنان یا انتہا پسند حکومت نہیں ہے لیکن کہتے ہیں کہ سفارت کاری اور سیاست میں ڈومینو افیکٹ(Domino Effect) کی اہمیت سے انحراف ممکن نہیں۔ اِس قانون کے تحت کسی ریاست پر پڑوسی یا کسی اہم ملک کے سیاسی و سماجی حالات کا براہ راست اثر پڑنے کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے ۔ اگرچہ حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا آزادی صحافت سے متعلق بیان ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے لیکن مستقبل میں پڑوس اور چند اہم ممالک کے اندرونی حالات کا اثر نہ لینا اِن کے لئے یقیناً ایک چیلنج ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)