ڈیم بنانے کی سیاست نے دیگر تمام موضوعات کو اب پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ایشوز جو ہیلی کاپٹر کے استعمال اور پاک پتن کے ڈی پی او کے حوالے سے سامنے آئے تھے وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھاشادیامیر ڈیم کے لئے ’’چندہ مہم‘‘ کے اعلان نے ڈیم بنانے کا کریڈٹ لینے کی دوڑ کو سب سے نمایاں کردیا ہے۔ یہ واحد موضوع ہے جس پر بالآخر مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنی زبان بندی ختم کی اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے ایک ارب 20 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے جس سے نہ صرف دیامیر بھاشا ڈیم کی مجوزہ جگہ مکینوں سے خریدی گئی بلکہ اس کی تعمیر کیلئے فزیبلٹی رپورٹس بھی تیار کرالی گئیں۔ اگر وہ وزیراعظم رہتے تو گزشتہ سال اس کی تعمیر کا آغاز بھی ہوچکا ہوتا۔ گویا ڈیم کی تعمیر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان کریڈٹ لینے کی وجہ تنازع بن گئی ہے۔ دوسری طرف وزیراطلاعات فواد چوہدری نے شہباز شریف کی پریس کانفرنس کو بے وقت کی راگنی قرار دے دیا اور کہا کہ دیامیربھاشا ڈیم اگر مسلم لیگ ن کی حکومت کی ترجیحات میں ہوتا تو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس پر بہت سا کام ہو جاتا اور اب یہ ڈیم تعمیر مکمل ہونے کے قریب ہونا تھا۔
قصہ یہ ہے کہ یہ سارا عمل اس وقت نمایاں ہوا جب چیف جسٹس آف پاکستان نے دیامیربھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز کے قیام کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ڈیم ہر صورت بنایا جائے کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔تاہم ملتان کو پنجاب کابینہ کے دوسرے مرحلہ میں نمائندگی دینے کے جوامکانات نظر آ رہے تھے ویسا نہیں ہوسکا اور دوسرے مرحلے میں صرف ایک معاون خصوصی دے کر ملتان کو پھر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ملتان کی سیاست میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان خاموش رسہ کشی حکومت بننے کے باوجود ابھی جاری ہے۔ ایم پی اے سلمان نعیم کے معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ملتان کی نمائندگی کے حوالے سے جہانگیر ترین کا پلڑا مخدوم شاہ محمود قریشی پر حاوی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سلمان نعیم ہیں جنہوں نے شاہ محمود قریشی کو صوبائی نشست پر شکست دی تھی اور جنہیں اسلام آباد بلا کر وزیراعظم عمران خان نے صوبائی وزارت کیلئے انٹرویو بھی کیا تھا مگر عین آخری لمحہ میں انہیں ڈراپ کردیا گیا تھا چونکہ اس وقت جہانگیر ترین بیرون ملک تھے۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو شاید سلمان نعیم کو پہلے مرحلہ میں ہی کابینہ کا حصہ بنا دیا جاتا۔ تاہم جونہی وہ واپس آئے دوسرے مرحلہ میں سلمان نعیم معاون خصوصی بنا دیئے گئے اگرچہ کابینہ میں ملتان کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور کہا یہی جا رہا ہے کہ دو بڑوں کی کشمکش اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب پہلے مرحلے میں کابینہ کے ناموں کا اعلان ہو رہا تھا تو ملتان کے ایم پی اے ڈاکٹر اختر ملک کے بارے میں یہ اطلاعات سرگرم تھیں کہ انہیں سپیشل ہیلتھ کیئر کا وزیر بنایا جا رہا ہے مگر ان کا نام بھی آخری وقت میں نکال دیا گیا اور اس کی وجہ بھی یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ چونکہ شاہ محمود قریشی کے کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہیں وزارت نہیں دی گئی۔
اس کا فائدہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہوا جنہیں پہلے پرائمری ہیلتھ کیئر کی وزارت دی گئی مگر سپیشل ہیلتھ کیئر کا وزیر نہ بننے کی وجہ سے وہ چارج بھی انہیں دے دیا گیا اور اب ان کی تجویز پر سپیشل ہیلتھ اور پرائمری ہیلتھ کو ضم کرکے ایک ہی وزارت بنا دی گئی ہے اور ڈاکٹر یاسمین راشد صحت کی ایک مضبوط اور بااختیار وزیر بن گئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اہم وزارت کو عوامی ریلیف کیلئے ڈاکٹر یاسمین راشد کیسے استعمال کرتی ہیں کیونکہ صحت کا شعبہ گوناگوں مسائل کا شکار ہے اور سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی آئے روز میڈیا کے ذریعے بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آتی ہے۔ کیا وہ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے اور ڈاکٹروں کی ایک دیرینہ رہنما رہنے کا تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے اس اہم کمیونٹی کو عوامی خدمت کی طرف مائل کرسکیں گی؟ ادھر پنجاب کے مختلف بڑے شہروں کے میئرز اپنی میئر شپ کھو جانے کے ڈر میں مبتلا ہیں اور پیش بندی کے طو پر وہ اپنی اجتماعی آواز بلند کر رہے ہیں جس کا مقصد حکومت کی طرف سے ممکنہ طور پر بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے اور نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے سامنے آنے والی افواہوں کے سدباب کیلئے خود کو تیار کرنا ہے۔
ملتان میں تیسری میئر کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن اس کانفرنس کے ماحول اور نتائج کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں کوئی ایسا سخت پیغام حکومت کیلئے موجود نہیں تھا کہ جس کے باعث پنجاب حکومت اگلے تین ماہ میں جو نیا بلدیاتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے اس پر عملدرآمد کرنے سے رک جائے۔ اس کانفرنس میں صاف طور پر یہ نظر آیا کہ موجودہ میئرز اس بات پر آمادہ ہیں کہ حکومت اگر ان کے ساتھ کوئی رابطہ کرے تو وہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کام کرنے سے انکار نہیں کریں گے لیکن ایک مسئلہ جو حکومت اور موجودہ بلدیاتی نظام کے ان میئرز کے درمیان وجہ تنازع ہے وہ میئرز اور چیئرمین ضلع کونسلوں کے انتخاب کا طریقہ کار ہے۔ نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں میئرز اور چیئرمین ضلع کونسلوں کا انتخاب براہ راست ہوگا جبکہ موجودہ میئرز ، چیئرمین بالواسطہ انتخاب کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں۔ کیا پنجاب حکومت اس نکتہ پر مصلحت کے تحت ان میئرز اور ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کو قبول کرے گی۔
اس کانفرنس میں حکومت کو یہ تنبیہہ بھی کی گئی کہ اگر انہیں غیرآئینی طور پر عہدوں سے ہٹایا گیا یا بلدیاتی ادارے توڑے گئے تو وہ عدالتوں سے رجوع کریں گے کیونکہ ان کا انتخاب پانچ سالوں کیلئے ہواہے اور اس سے پہلے انہیں گھر نہیں بھیجا جاسکتا مگر وہ اس امر کو نظرانداز کر گئے کہ پنجاب حکومت کے وزیر بلدیات جس تیزی سے بلدیاتی اداروں میں نقب لگا رہے ہیں اس کے ہوتے ہوئے ان میئرز اور ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کے خلاف ایوان کے اندر سے تبدیلی آسان ہو جائے اور اس کے بعد انہیں توڑ کر نئے انتخابات کرادیئے جائیں۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت گراس روٹ لیول پر اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کا جو منصوبہ رکھتی ہے اس پر کیسے عملدرآمد ہوتا ہے اور فنڈز دینے کا جو وعدہ وزیراعظم عمران خان نے کر رکھا ہے وہ موجودہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے یا اس کیلئے نئے عوامی نمائندے سامنے لائے جاتے ہیں۔