• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑکپن میں جو حکایتیں پڑھی تھیں، بظاہر یاد نہیں۔ لیکن بعض حالات رونما ہوں تو یاد داشت کے انبار میں کہیں دبی ہوئی کوئی نصیحت آموز حکایت یوں ابھر کر سامنے آتی ہے جیسے ابھی پچھلے برس ہی پڑھی تھی۔ ان دنوں مجھے ان بڑے میاں کی کہانی یاد آرہی ہے جو اپنے جواں سال بیٹے اور باربردار گدھے کو لے کر شہر کی طرف پیدل چلے تھے۔راہ میں لوگوں نے کہا کہ دونوں کتنے احمق ہیں، اپنی ٹانگیں تھکا رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک تو گدھے پر سوار ہو سکتا تھا۔ راہ گیروں کے طعنے سن کر بڑے میاں نے بیٹے کو گدھے پر بٹھا دیا ۔ذرا آگے چلے تھے کہ راہ گیر کہنے لگے کہ کتنا بے حیا ہے لڑکا کہ خود تو مزے سے گدھے پر سوار ہے اور بوڑھے باپ کو پیدل چلا رہا ہے۔ قدم قدم پر یہی طعنہ سن کر باپ نے بیٹے کو نیچے اتارا اور خود سوار ہوگیا۔ چند قدم ہی چلے تھے کہ راہ گیروں نے کہنا شروع کردیا کہ کیسا کاہل بڈھا ہے کہ کمسن لڑکے کو پیچھے پیچھے دوڑا رہا ہے۔اس پر باپ اور تو کچھ نہ کرسکا، اس نے بیٹے کو بھی گدھے پر بٹھا لیا۔ یہ دیکھ لوگ آوازے کسنے لگے کہ تم دونوں ہٹے کٹے مرد اس غریب جانور پر لدے ہوئے اس کی کمر توڑے ڈال رہے ہو۔باپ بیٹے حیران و پریشان تھے کہ اب کیا کریں۔ آخر انہوں نے ایک لمبی سی شاخ کاٹی۔ گدھے کی اگلی پچھلی ٹانگیں باندھ کر ان میں شاخ باندھی اور گدھے کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر چلے۔وہ چلتے جاتے تھے، خلقت انہیں دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوئی جاتی تھی۔یہاں تک کہ وہ ایک پل کے اوپر پہنچے۔ اتنے میں گدھے کی بندھی ہوئی ٹانگوں میں سے ایک کی رسی ڈھیلی ہوگئی۔ اس نے لڑکے کو زور دار لات ماری ۔لڑکا اوندھے منہ گرا اور گدھا چھلانگ مار کر نیچے پانی میں جا گرا۔ اس کی ٹانگیں بندھی ہوئی تھیں ، کچھ نہ کر سکا۔ ڈوب گیا۔ یہ سارا منظر دیکھنے والا ایک بوڑھا راہ گیر بولا:

ساری دنیا کو خوش کرو گے تو کوئی بھی خوش نہ ہوگا۔

ایسپ کی یہ پوری حکایت یوں لکھنی پڑی کہ لوگوں نے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا ہے ،بہتوں نے پہلے کبھی اور کہیں سنی ہی نہ ہوگی۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں بھی ان راہ گیروں میں شامل ہوں جو ایک بوڑھے، ایک نو جوان اور ایک گدھے کی کچھ ایسی ہی درگت بنتے دیکھ رہے ہیں اور قہقہے لگانے کی بجائے گہری فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میرا جس معاشرے سے تعلق ہے اس معاشرے کے ماحول میں صبح و شام یہی منظر دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیسے دنیا سے ہم آہنگی اٹھ رہی ہے۔ آپ کچھ بھی کریں، کتنی ہی بڑی نیکی، کیسا ہی کار ِ ثواب، کوئی غضب کا فیصلہ، کوئی بڑی ہی صائب رائے، کچھ بھی کریں۔ جواب میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی آپ کے خلاف ضرور لب کشائی کرے گا۔ یک لخت کوئی آپ کے کام میں عیب نکالے گا۔ سوا ل اٹھائے گا کہ اس سے کیا حاصل؟یہ آپ کو کیا سوجھی۔ اسی پر بس نہیں، کسی آسمانی صحیفے سے کوئی مقولہ نکال کر آپ کو جاہل ثابت کردے گا۔ اس کی دو مثالیں دوں گا۔ ایک چھوٹی، ایک بڑی۔ اعلان ہوا کہ کراچی کا گورنر ہاؤس دن میں دو مرتبہ عوا م کے لئے کھولا جائے گا۔ کنبے کھلی فضا میں وقت گزار سکیں گے، پرانے نوادر دیکھ سکیں گے۔ فوراً ہی سوال ہوا۔ کیوں بھلا؟ اس سے کیا حاصل ہوگا؟احمقانہ تجویز ہے۔ دوسری اور بڑی مثال پانی کی ہے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ دنیا میں پانی کی قلّت شروع ہوگئی ہے اور پاکستان میں سات آٹھ برس بعد قحط کا خطرہ ہے، اس کا حل سیدھا سادہ ہے، پانی کا ذخیرہ کیا جائے۔ کسی زیرک اور ہوش مند کے منہ سے یہ فقرہ نکلنے کی دیر تھی کہ پانی کے ڈیم بناؤ، ایک دیوانوں کے مجمع نے نعرہ لگایا کہ نہیں۔ فضول ہے ، غلط ہے، نامناسب ہے اور احمقانہ ہے۔ بالکل یوں جیسے آپ ہی کی تجویز آپ کے منہ پر دے ماری ہو۔جہاں یہ ڈیم بننے ہیں، اس علاقے میں میرا جانا بھی ہوا تھا۔ بات اب پرانی ہوئی لیکن یاد ہے۔اونچے پہاڑوں کے بیچ دریائے سندھ چاندی کی لکیر جیسا نظر آتا تھا۔ ہمارے دور کے بڑ ے تاریخ داں احمد حسن دانی مرحوم سے بات ہو رہی تھی۔ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ ایک جرمن ماہر کو تھاکوٹ سے اسکردو تک لے گئے۔ ماہر نے جو دریائے سندھ کو چٹانوں سے سر ٹکراتے دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ قدرت نے تمہیں اتنی توانائی دی ہے اور اس دریا میں اتنی طاقت ہے کہ اسے بروئے کار لاؤ تو نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پورے وسط ایشیا کو بجلی مہیا کر سکتے ہو۔ پھر ہوا یہ کہ کئی حکمرانوں نے اس علاقے میں بند باندھنے شروع کئے۔ کتنوں نے تو فیتہ کاٹ کر کام کا افتتاح بھی کیا اور شاید اپنے نام کی تختی بھی لگوا دی ہوگی۔ مگرکام اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، ڈیم پر آنے والے خرچ کا تخمینہ آسمانوں کو چھوتا گیا۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ہیں جو اب بھی ہمت کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ مرحلہ ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ پانی کم ہوتا جارہا ہے۔ گلیشیر پگھلتے جارہے ہیں۔ جن بالائی علاقوں سے گزر کر پانی پاکستان میں آتا ہے، پڑوسیوں نے وہاں اپنا حصہ کا قرار دے کر پانی کاٹنا شروع کردیا ہے۔سنہ دو ہزار پچیس کے نام ہی سے خوف آتا ہے کہ اُس وقت کیا منظر ہوگا اور کیا کیفیت ہوگی۔ آبادی بڑھتی جارہی ہے یعنی پانی کے صارفین کی تعداد کو پر لگے ہوئے ہیں اور اس کی روک تھام کے آثار نظر آنے بند ہوگئے ہیں۔ایسے میں دردمند لوگوں نے رقم جمع کرنے کی ٹھانی ہے۔(جسے نہایت حقارت سے چندے کا نام دیا جارہا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس کی بھی پریشانی ہے)۔ اس کا حل یہی ہے کہ بدخواہوں کی بات پر کان نہ دھرا جائے،شمالی علاقہ جات کے باشندوں کو پیار سے سمجھایا جائے کیونکہ پانی کے بڑے بڑے ذخیرے بننے سے ان کی زمینیں اور بستیاں متاثر ہوں گی۔ ان لوگوں کو سہارا دیا جائے،انہیں روزگار دیا جائے کیونکہ ڈیم اٹھانے کے کام میں ہزاروں افراد شریک ہوں گے۔ وہ خوش حال ہوں گے تو کام نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ معلوم نہیں وہ روشن ، چمکتا دمکتا دن دیکھنا ہمارے نصیب میں ہوگا یا نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ہمارے بچّے جب وہ نقرئی پانی پئیں گے تو ڈیم بنانے والوں کو دعائیں بھی دیں گے اور بچوں سے زیادہ کسی کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

تازہ ترین