• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوش ملیح آبادی

اے کربلا کے ابرِ گُہر بار ، السلام

اے ہادیوں کے قافلہ سالار ، السلام

اے کعبۂ سواد کے معمار ، السلام

اے جنسِ آبرو کے خریدار، السلام

اے سورما ، دلیر ، جیالے ، تجھے سلام

اے فاطمہؓ کی گود کے پالے، تجھے سلام

٭…٭…٭

اے مصحفِ حیات کی تفسیر ، السلام

اے مدعائے آیۂ تطہیر، السلام

اے دستِ ذوالجلال کی شمشیر ، السلام

اے مصطفےٰ ؐکے خواب کی تعبیر، السلام

اے زندگی کے سوزِ نہانی ، سلام لے

کوثر بدوش ، تشنہ دہانی ، سلام لے

٭…٭…٭

اے بوستانِ، سایۂ دامانِ مصطفےٰ ؐ

اے مدوجزرِ چشمہ ٔ ایوانِ مصطفےٰ ؐ

اے نورِعینِ حیدرؓ و، اے جانِ مصطفےٰ ؐ

اے خوش جمالِ یوسفِ کنعانِ مصطفےٰ ؐ

اےتشنہ ابنِ ساقیِ کوثر، سلام لے

آفاق کی زباں سے، بّہتر سلام لے

٭…٭…٭

ہاں!مرحمت ہو خاطرِ بیدار ، یا حسینؓ

حرفِ غلط سے جرأتِ انکار، یا خسینؓ

تاب و توانِ عابدِؓ بیمار،یاحسینؓ

جھنکارِ ذوالفقار کی جھنکار،یا حسینؓ

ہاں! سوئے جذبۂ حرکت ، باگ موڑ دے

ہاں! توڑدے، جمود کی زنجیر توڑ دے

مرزا اسد اللہ خان غالب

ہاں! اے نفسِ بادِ سحر، شعلہ فشاں ہو

اے دجلۂ خوں، چشمِ ملائک سے رواں ہو

اے زمزمۂ قم ، لبِ عیسیؑ پہ فغاں ہو

اے ماتمیانِ شہِ معصوم، کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات، بنائےنہیں بنتی

اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

٭…٭…٭

تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں، ہم کو

ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو

گھر پھونکنے میں اپنے، محابا نہیں ہم کو

گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو

یہ خرگہہِ نہہ پایا، جو مدت سےبچھا ہے

کیا خیمۂ شبیرؓسے، رتبے میں سوا ہے

٭…٭…٭

کچھ اورہی عالم نظر آتا ہے ، یہاں کا

کچھ اور ہی نقشہ ہے، دل و چشم و زباں کا

کیسافلک اور مہرِ جہاں تاب ، کہاں کا

ہوگا دلِ بے تاب ، کسی سوختہ جاں کا

اب مہر میں اور برق میں، کچھ فرق نہیں ہے

گرتا نہیں اس رو سے کہو، برق نہیں ہے

٭…٭…٭

 فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر ؓپہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیرؓ کی ویرانی کی شب ہے

٭…٭…٭

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں کامل

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

٭…٭…٭

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

نیزے کی انی تھی، خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

٭…٭…٭

فرمایا کہ کیوں درپئے ،آزار ہو لوگو

حق والو،سے کیوں ،برسرِ پیکار ہو لوگو

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

کیوں آپ کے آقاؤں،میں ،اور ہم میں ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

٭…٭…٭

سَطوت، نہ حکومت ، حشم چاہیے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیےہم کو

زر چاہیے، نے مال و دِرم چاہیے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیے ہم کو

سرداری کی خواہش ہے، نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں، ہمیں، بس ہے

٭…٭…٭

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ،ابرار کہے گا

جو بندۂ، حُر ہے، ہمیں، احرار کہے گا

نام اونچا زمانے میں ،ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

٭…٭…٭

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیرؓ

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیرؓ

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیرؓ

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیرؓ

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ،فردوس کا در تھا

تازہ ترین
تازہ ترین