• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آمنہ فاروق

عصر حاضر میں ہر انسان ،وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کاروناروتا نظر آرہاہے ،ایسا کیوں ہے؟ کسی حد تک اس کے ذمے دارہم خود ہیں۔ ہم سنتے چلے آئے ہیں کہ جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ہمارے اندر ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور اسٹیٹس بڑھانے کی دوڑ نے کئی خاندانوں کے پاؤں چادر سے باہر نکال دیے ہیں۔ ہماری اس خود نمائی کی اصل وجہ انا کی تسکین ہے جو ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے مقروض بنارہی ہے ،جس سے نہ صرف رشتوں میں تلخیاں بڑھ رہی ہیں بلکہ ذہنی سکون بربادہورہاہے ۔مہنگی گاڑیوں،برانڈڈملبوسات اور ہوٹل میں کھانے کو فی زمانہ اوڑھنا بچھونہ بنا لیا گیا ہے۔خاص کر باہر کھانے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے ۔’’ہوٹلنگ‘‘وہ بھی مہینے میں ایک بار تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ہر ویک اینڈپر ریستورانو ں کا بھر جانا سمجھ سے باہر ہے،بعض جگہوں پر تو روزانہ ہی لوگوں کی بڑی تعداد کھانا کھانے پہنچی ہوتی ہے۔ متوسط خاندان اس دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جب سے ہمارے ہاں پلاسٹک منی یعنی کریڈٹ کارڈ کا رجحان عام ہوا ہے تو گویاجیسے تمام مسائل ہی حل ہوگئے ہوں ۔کارڈ پر شاپنگ کرنا اور کھانا کھانا بہت آسان ہوگیاہے۔فٹ پاتھ کے چھوٹے ہوٹلوںسے لے کر بڑے ہوٹلز تک لوگوں سے کھچا کھچ بھرے دکھائی دیتے ہیں۔گھر کا کچن سونا کر کے بیوی بچوں کے ساتھ باہر کھانا کھانا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا۔اگر ایک کلو چکن خرید کر گھر میں پکا لیاجائے تو 5 تا 6 افراد بہ آسانی سیر شکم ہوسکتے ہیں مگرخودنمائی اور خود کو دوسروں کی نظر میں خود بڑا دکھانے کی چکر میں خاص کرمتوسط گھرانے کے لوگ بھی چکن بریانی و چکن کڑھائی کھانے کے لیےہوٹل کارخ کرتے ہیں ،جس کی قیمت انہیں اتنی ادا کرنی پڑتی ہے کہ تو کم و بیش 5 دنوں کا گھرکا خرچ آسانی کے ساتھ چل سکتاہے۔اسی طرح فروزن فوڈ کا استعمال بلا شبہ وقت کی بچت اور سہولت کا باعث تو بنتا ہے لیکن آج کل خواتین نے یسے بھی معمولات میں شامل کر لیا ہے۔مہمانوں کی تواضع کرنی ہو یا بچوں کو ٹفن بنا کر دینا ہو،فروزن اسنیکس اورکھانوں کوہلکا گرم یا فرائی کر کے پیش کر دینا یا بچے کے ٹفن میں ڈال دینے کا ترددکرنا خواتین ضروری سمجھتی ہیں اور فخریہ بتاتی ہیں کہ میرا بچہ تو چکن نگٹس یا ڈونٹس ہی اسکول لنچ میں لے جاتا ہے ۔ 

خواتین کی باتوں میں آکر شوہر نامدار بھی فاسٹ فوڈ سے چکن اور مٹن کی مختلف فروزن کھانےخرید کر لاتے ہیں ،جبکہ بیویوں کی بے جا خوہشات کو پورا کرنے کے لیےقرض لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ گھروں میں چولہا نہ جلانے اور کام نہ کرنے سے ہماری خواتین موٹاپا اور دیگر امراض کا شکار ہورہی ہیں۔ اگر کفایت شعار ی سے کام کریں تو گھر کا کوئی بھی فرد ہوٹلنگ کرنا پسند نہ کرے ۔ لڑکیوں کو بچپن سے ہی بچت اور صحت سے متعلق تربیت دینی چاہئے۔ انہیں صابر اور شاکر بننے کی ٹریننگ دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت ، ایک خاندان کی بنیاد ہوتی ہے ۔ ہر عورت کو گھر کے بجٹ کو کنٹرول میں رکھنے پر توجہ دیناچاہئے ۔گھر کے افراد کی صحت اور بچت بیوی کے ہاتھ میں ہے ۔

تازہ ترین