اقراء ہاشمی
کہا جاتا ہے نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سرمایہ اس وقت تک نا قابل استعمال ہوتا ہے، جب تک اس میںعقل و شعور نہ بیدار ہو۔اکثر نوجوان یہ کہتے ہوئےتو نظر آتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ لیکن ہمارا سوال ہے کہ تعلیمی اداروں سے شروع ہو کر نوکریوں کی تلاش میں ختم ہو جانے والے اس سفر میں نوجوانوں نے ملک کے لیے کیا ،کیا؟ ملک کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچا یا نہیں؟ کیا ان کی اپنی کوئی سوچ ہےیا وہ بھیڑ چال کی طرح بس دوسروں کی اندھی تقلید کیے جا رہے ہیں۔ سیاست میںان کی دل چسپی دیر پا ہے یا بس انتخابات تک محدود ۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا واضح جواب شاید کسی کے پاس نہیں ۔دیکھا جائے تو ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اضطراری کیفیت کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان نہیں بلکہ شعور کا نہ ہونا ہے۔ سب سے اہم بنیادی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے،کیوں کہ ہمارے گھر اور تعلیمی اداروں میں سکھایا، سمجھایا نہیں جاتا،بلکہ ڈگری لینے کی ریس میں شامل کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ذہن کے دریچے نہیں کھلتے، شعور بیدار نہیں ہوپاتا۔اگر عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے، توسب سے پہلے سوشل میڈیا کا خیال آتا ہے،جوآج کے جو نوجوانوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ عام انتخابات 2018 میں سوشل میڈیا میں سیاست سے متعلق خبروں کا جس قدر بہائو تھا اس سے کہیں زیادہ رائے ان تحریروں کے نیچے کمنٹس کی صورت موجود تھے۔
کم و بیش ہر ایک نوجوان نے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت اور امیدواروں کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن جب ان سے یہ پوچھا جاتا کہ اس لیڈر، سیاسی جماعت کو پسند کرنے کی کوئی جامع دلیل یا ٹھوس وجہ بتائیں تو وہ منہ تکنے لگتے۔ بہت ہی کم نوجوان ایسے تھے ، جو مدلل جواب دے سکے۔ نوجوانوں کی اکثریت یہ تو جانتی ہے کہ ان کا پسندیدہ لیڈر کون ہے، لیکن یہ نہیں جانتی کہ انہیں فالو کرنے کی وجہ کیا ہے۔سقراط نےایک بار کہا تھا کہ ’’ سب سے برا وقت انسانی حیات کا تب ہوتا ہے ،جب لوگ دلیل سے نفرت کرنے لگیں۔‘‘اس کی مثال ہمیں حالیہ عام انتخابات میں بہت زیادہ دیکھنے میں ملی،کوئی ڈنڈے کے زور پہ اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہا تھا تو کوئی بحث کر کے،اگر کسی نےدلیل دینے کی کوشش بھی کی تو اس کی نہ سنی گئی۔ہمارےمعاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں میں کی اکثریت بس اپنی بات، اپنے نظریے کو ہی درست مانتی ہے، اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے ، تو نظر انداز کر دیتی یا غصہ ہوجاتی ہے۔دوسری جانب بڑے ، بزرگ بھی نسل نو کوپیار و محبت، شفقت سے سمجھانے میں ناکام رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نوجوانوں کا ہر اقدام غلط ہی ہوتا ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ تجربے کا تعلق عمر سے ہوتاہے، لیکن یہ ہر گز ضروری نہیں کہ عقل و شعور کا تعلق عمر سے ہو، کبھی کبھی ایک چھوٹا بچہ بھی زندگی کا بڑا سبق سکھا دیتا ہے۔ اس لیے ضرروی ہے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے، دوسروں کی باتوں کا جواب دلائل اور شائستگی سے دیا جائے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات سنی جائے، تو دسروں کا نکتۂ نظر بھی سننے کی عادت ڈالیں۔ یہ نہیں کہ ’’ہم صحیح ہیں ‘‘کا راگ الاپا جائے۔ ملک کی ترقی کی ذمے داری ہمیشہ ہی سےنوجوان نسل سے منسوب رہی، کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
کیوں کہ وہ پُر عزم ہوتے ہیں۔آج سے اکہترسال قبل نوجوا ن ، طالب علم ہی تھے، جو قائد اعظم کی آواز ، ان کے بازو بنے، جنگِ آزادی میں ایک بڑا حصہ ان کا رہا، قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا، ڈر کو دل میں جگہ نہیں دی،فیصلہ کیا اور آگے بڑھے ،کیوں کہ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی ،عقل و شعور تھا۔ تعلیمی شعبے کا انتخاب کرنا ہو یا لیڈر ،بہت ہی کم نوجون ایسے ہوتےہیں ،جو قوت فیصلہ و مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں۔انتخابات کے دنوں میں بھی نسل نو ایسی ہی اضطراری کیفیت کا شکار نظر آئی۔ بات صرف ایک سیاسی لیڈر منتخب کرنے کی نہیں ہے، بلکہ پورے ملک کے مستقبل کی ہے۔نوجوانو! یاد رکھوہم سب میں کہیں نہ کہیںایک لیڈرضرور ہوتا ہے،بس اسے تلاش کر کے جگانے کی ضرورت ہوتی ہے، مدلل بحث کریں،دوسروں کی بات سننے کا بھی حوصلہ رکھیں۔