پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی
اس حقیقت سے سب بہ خوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی، خوش حالی، استحکام اور بقا کا انحصار اُس کی نسلِ نو پر ہوتا ہے۔ کہنے کو تو یہ بات ہم ضرور کہہ دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اُس بات کی معنویت اور حقیقت سے بھی باخبر ہیں ،جو ہم اکثر اپنی زبان سے ادا کرتے رہتے ہیں؟ ممکن ہے کہ یہ سوال کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے۔افراد ہوں یا اقوام، ان کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت ہمیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے باربار گزرتے ہیں۔ خاص طور پر اُن معاملات میں یہ صورتِ حال زیادہ سامنے آتی ہے جو اُن کی بقا، استحکام اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی وہ شعبے، ادارے، مناصب اور ان پر فائز افراد مسلسل ان نظروں کی زد میں رہتے ہیں جو نگرانی، نکتہ چینی یا چھان پھٹک کے لیے ان پر ٹھہری ہوئی ہوتی ہیں، یا اس مقصد کے لیے رہ رہ کر ان کی طرف لوٹتی ہیں۔ اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ خوداحتسابی دراصل بقا اور ارتقا کے ضمن میں لازمی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کام رُک جائے ،تو فرد یا قوم کے انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے ،جو اُس کے مکمل طور پر زوال کا شکار ہونے کی راہ تیزی سے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ خوداحتسابی کا عمل آخر رکتا کس وجہ سے ہے؟ یہ عمل عام طور سے اُس وقت رُک جاتا ہے جب فرد، ادارہ، معاشرہ یا قوم ،سمجھنے لگتی ہے کہ وہ ترقی اور کام یابی کے اس مرحلے پر ہے کہ اس سے آگے سر کرنے کے لیے اُس کے لیے اب اور کوئی منزل ہی نہیں ہے ۔ گویا بلندی اور عظمت کی خوش فہمی اور زوال آمادگی کی پیدا کردہ مایوسی، دونوں ہی صورتیں خوداحتسابی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں،چناںچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دونوں مواقع پر زیادہ خود آگہی کا ثبوت دیا جائے اور خوداحتسابی کے عمل کو حرکت آشنا رکھا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن معاملات پر توجہ دی اور جن مسائل کی بطور خاص نشان دہی کی اُن میں ایک مسئلہ نسل نوکی تعلیم کا بھی ہے۔ ملک کےسوا دو کروڑ بچے عام طور سے اس لیے تعلیم حاصل نہیں کررہے، گویا کم و بیش یا سب بچے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہی آسان نہیں ہے، سو تعلیم کا کیا سوال۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کے انتظام سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر بچے چھے سات برس کی عمر سے ہی گھر کی روٹی کے لیے ماں باپ کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ گلی محلے کے چائے خانوں، ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں، سبزی فروشوں، میکینک کی ورکشاپ اور گھروں میں چھوٹے موٹے کام کرنے پہ مجبور ہیں،جن حالات میں یہ بچے کام کرتے ،استحصال کے تجربات سے گزرتے ، حالات اور لوگوں کا سامنا کرتے ہیں ،وہ سب کچھ ان کے کردار پر کس طرح اثر انداز ہوتا اور ان کی شخصیت کے کیسے رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتا ہے، یہ سب باتیں اس لیے بھی توجہ طلب ہیں کہ پھر آگے چل کر یہی رویے اور مزاج معاشرے میں ان کے کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اجتماعی سطح پر اچھے برے نتائج کا ذریعہ بنتا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں ایک ایسا گمبھیر معاملہ ہے، جس کے متعدد پہلو ہیں اور ان پر بیک وقت اور ہمہ جہت کارروائی کی ضرورت ہے ورنہ خاطر خواہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔یہ بات یقیناً خوشی کا باعث ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس مسئلے کو قابلِ توجہ سمجھا گیا، لیکن ہمارے یہاں نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ صرف ان بچوں تک محدود نہیں ہے جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں دونوں سطحوں پر دیکھنے، سمجھنے اور اقدامات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
ایک سطح پر ان بچوں کو مسئلہ ہے،جو تعلیم کے حصول سے محروم ہیں اور دوسری سطح پر یہ مسئلہ اُن بچوں کے حوالے سے ہے، جو اسکول اور کالج جاتے ہیں، لیکن کیا واقعی وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ تعلیم جو کردار کی تعمیر اور شخصیت کی تشکیل کرتی ہے، کیا واقعی وہ اِس عمل سے گزر رہے ہیں؟ اُن کی تعلیم کا معیار کیا ہے؟ علم حاصل کرنے کے بعد کیا وہ اپنے معاشرے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے؟ کیا یہ تعلیم ان کی اپنی زندگی کو بہتر سطح پر لانے میں معاون ہوگی؟ ضروری ہے کہ ان سوالات کا عملی طور پر نہایت ذمے داری سے جائزہ لیا جائے۔وہ بچے جو سرے ہی سے تعلیم حاصل نہیں کررہے، ان کا مسئلہ تو ایک طرح سے واضح ہے، یعنی وہ اسباب جو بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کا تعین کیا جائے اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ملک میں رائج نظامِ تعلیم کے منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے مسائل پیچ در پیچ سامنے آتے ہیں۔
البتہ اس وقت تعلیم کی جو صورتِ حال ملک میں چل رہی ہے، اس کا غائرنگاہ سے جائزہ لینے اور اُس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ اس لیے کہ وہ کام جو اس وقت جاری ہے اُس کے لیے وسائل استعمال ہورہے ہیں، چناںچہ دیکھنا چاہیے کہ جس کام پر وسائل صرف ہورہے ہیں، وہ مطلوبہ ہدف بھی حاصل کررہا ہے یا نہیں۔
ملک و قوم کی بقا اور ترقی کا دارومدار اُس کے نوجوانوں پر ہوتا ہے۔اس کی تصدیق کسی بھی دور اور خطے کی اقوام اور ممالک کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ معاشرے اپنی نئی نسل سے کبھی غافل نہیں ہوتے، اس کی صورتِ حال، اس کو درپیش مسائل اور اُس کے آئندہ کے امکانات، اجتماعی رجحانات اور وقت کے تقاضوں اور چیلنجز پر ہمیشہ نگاہ رکھتے ہیں۔اس میں کبھی غفلت اور کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اب اگرہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ہماری قومی بقا اور ترقی کی ضامن ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نسلِ نو صرف اسی صورت میں یہ ذمے داری اٹھانے کی اہل ہوسکتی ہے، جب وہ تعلیم و تربیت کے اس مرحلے سے گزری ہو ،جو اجتماعی احساس اور قومی شعور پیدا کرتا اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک سماج میں اُس کے ہر فرد کی اجتماعی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں اور کیسے ادا کی جاتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اسی انداز سے کررہے ہیں، جو اُس کے افراد میں یہ اہلیت پیدا کرسکے کہ وہ اپنی اجتماعی اور قومی ذمے داریوں کو سمجھیں اور پورا کرسکیں۔
جہاں تک ’’تعلیم‘‘ کا تعلق ہے، تو یہ بات ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں ایسے جھول اور خامیاں ہیں ، جو نئی نسل کو مطلوبہ اہلیت کا حامل بننے ہی نہیں دیں گی۔ اس وقت کوئی ایک نہیں، بلکہ پورے چار نظام ہائے تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چار نظام ہائے تعلیم دراصل ملک میں پائے جانے والے طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان میں پہلا نظام ہے سرکاری تعلیمی ادارے، دوسرا وہ تعلیمی ادارے جو پرائیویٹ ہیں اور جن میں ہمارے معاشرے کے اوسط معاشی حیثیت رکھنے والے افراد کے بچے پڑھ رہے ہیں، تیسرا وہ جہاں اعلیٰ طبقے کی اولاد تعلیم پاتی ہے اور چوتھا ہے مدرسوں کا نظامِ تعلیم۔ آخرالذکر کے بھی دو درجے ہیں، ایک تو وہی پرانا کہ جہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دوسرا وہ جہاں وقت کے تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔لہٰذا وہاں دین کے ساتھ یا مذہبی تدریس کے ایک خاص درجے کے بعد جدید تعلیم کا بھی ایک حد تک اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان چاروں نظام ہائے درس و تدریس کے اپنے اپنے کچھ مسائل ہیں، جو ان کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے مزاج اور شخصیت کے رجحانات میں ظاہر ہوتے ہیں۔
کم، بہت ہی کم سرکاری ادارے ایسے ہوں گے جہاں تعلیم کی صورتِ حال تھوڑی بہت بھی قابلِ لحاظ نظر آتی ہو۔ ایسا اگر کہیں ہے تو وہ صرف اور صرف بعض اساتذہ یا دوسرے افراد کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال پرائمری، مڈل یا ہائی اسکول کی سطح تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ خرابی اسکول سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیمی مراحل تک سب ہی جگہ ملتی جلتی سطح پر دیکھی جاسکتی ہے۔اس حقیقت کا ثبوت ہمیں قدم قدم پر ملتا ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی انگریزی یا اردوزبان میں درخواست تک لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، جو ہمارے نظام تعلیم کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔افسوس، صد افسوس کہ یہ تمام حقائق کس قدر ’’دلِ پُرخون فشاں‘‘ہیں ، لیکن ، ’’اثر اُس پر ذرا نہیں ہوتا !‘‘