• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورِ بے نقاب

نہ جانے کیوں اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ہمیں بے نقاب کر رہا ہے، ہماری اچھائیاں برائیاں سامنے آتی جا رہی ہیں، کشتی ڈبونے والے، کشتی پار لگانے والے ایک جیسے لگنے لگے ہیں، مگر جس نے بے نقاب کیا وہی ہماری کشتی کو بار بار غوطے دے کر پھر سطح آب پر لے آتا ہے، کیا اس لئے کہ یہ کشتی پانی میں اسی نے اتاری تھی، اسے کھویا بھی اسی نے دیا، اور اس کے بنانے والے کو آئیڈیا دینے والا بھی اسی کی عطا تھی، اس کشتی پر بڑے دور آئے، مگر یہ ڈوبتی ابھرتی آج بھی منجدھار میں لہروں سے نبرد آزما ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ بھی اس کی حالت بدلنے میں شامل ہو چکا ہے شاید اسے یقین آ گیا کہ ہم اپنی کشتی طوفانوں سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور ٹیڑھے سیدھے چپو چلانے شروع کر دیئے ہیں، پردئہ غیب سے ملاح ظاہر ہونے لگے ہیں، ہم نے یا ہمارے ملاحوں ہی نے خزانے کے ساتھ اپنی پانی والی چھاگل بھی خالی کر دی، اب خالی خزانہ، خالی چھاگل لئے ہم چل نکلے ہیں انجام کیا ہو گا کس کو خبر مگر بھرنے والے نے شاید ارادہ کر لیا ہے کہ ان کے دونوں بھانڈے بھر دیئے جائیں نقاب ایک ایک کر کے اترتے جا رہے، منظر بدلتے جا رہے ہیں ہمیں اعتبار نہیں اس لئے بے نقاب کو مذاق سمجھ کر طرح طرح کے لطیفے سناتے ہیں، اور ہنسنے کے بعد پھیکے پڑ جاتے ہیں، جنہوں نے ہم سے لے کر اپنا مقام بنایا ہم نے انہی اپنے ہاتھوں کے بنائے بتوں کی پرستش شروع کر دی، ہم دلنواز ہیں اسی لئے غلط نواز ہیں، بہرحال لا الٰہ کا ، لا نافذ ہو چکا ہے بالکل اسی طرح جیسے وہ غیر محسوس انداز میں رات، سحر میں بدل جاتی ہے، کلیاں پھول بن جاتی ہیں، وہ جو بھی کرتا ہے حرکت نظر نہیں آنے دیتا، میرا شعور نئے منظر دیکھ رہا ہے، مگر اسے یہ شعور نہیں کہ مناظر خوشنما ہیں یا بدنما، بہرحال ایک ابدی قوت نے اب ہمیں شاید کوئی سرپرائز دینا ہے، یہ قیامت بھی ہو سکتی ہے حسنِ قامت یار بھی، سردست سارے نقاب سرکنے لگے ہیں۔ زیر کتاب کیا کچھ ہے جو دھیرے دھیرے طلوع سحر کی مانند ظاہر ہوتا جا رہا ہے۔

٭٭٭٭

بھاویں چنگی آں بھانویں مندی آں

آصف علی زرداری:جمہوریت کو درپیش خطرات کی نوعیت تبدیل ہو گئی، بظاہر تو ان کا یہی مطلب ہے کہ جمہوریت کو خطرے لاحق ہیں مگر ان کی شکل و صورت بدل گئی ہے، ہمیں جمہوریت سے عشق ہے نہیں ہے یہ الگ بحث لیکن ہمارے ہاتھ کا جمہوری ٹشو پیپر ہم سے بزبانِ جمہوریت کہہ رہا ہے

بھانویں چنگی آں بھاویں مندی آں

صاحب! تیری بندی آں

جس جمہوریت کو حکمرانی دینا تھی اسے کنیز بنا کر قیمتی لباس پہنایا اس پر گانے گہنے سجائے، اور ہمارے سارے خالی جام بھر گئے، جمہوریت نے نہیں بھرے خود بخود چھلک گئے، اب بھرے پیمانوں کا ایک ہجوم اور عاشقان جمہوریت ہیں، یہ ساغر و مینا کہاں چھپائیں کوئی جگہ محفوظ ہی نہیں رہی، جمہوریت پر ایسا وقت آ گیا ہے کہ پیمانے رقص میں آ گئے ہمیں جب بھی کوئی خطرہ دامن گیر ہوتا ہے جمہوریت کو وکھری ٹائپ کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، آصف زرداری اس دور ناہنجار میں جمہوریت پر جھگی بنا کر پہرہ دے رہے ہیں، یہ جمہوری نہیں تو اور کیا ہے، شاید جمہوریت کو کسی نامحرم نے چھو لیا ہے اس لئے اس کے محافظ بیقرار ہیں، کہ جو ہماری محرم رہی ہر قدم پر ساتھ رہی اسے کوئی غیر ہاتھ لگائے تو واقعی جمہوریت کو درپیش خطرات کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے، اس خطرناک تبدیلی کو روکنے کیلئے جمہوری ہتھیار استعمال کرنا ہوں گے، وہ نواز شریف سے بھی بگاڑ بیٹھے ورنہ آج کہتے ؎

چھیتی بوڑیں وے طبیبا نئیں تاں میں مر گئیاں

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

اپوزیشن متحد ہوتی تو جمہوریت پر وائرل اٹیک کو مل کر روک لیتی، مگر افسوس کہ ملک کی مایہ ناز دو بڑی جمہوری جماعتوں نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دے دیا، اور اس سے غیر جمہوری وائرس وائرل ہو گیا، اب اس نوعیت کے تبدیل شدہ خطرات کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔

٭٭٭٭

چیچہ وطنی کا مقروض

چیچہ وطنی میں مقروض پاگل ہو گیا بہن بھائی کو ذبح کر دیا۔ مقروض چاہے پا گل ہو جاتا مگر بہن بھائی کو تو ذبح نہ کرتا، بہت افسوسناک سانحہ ہے، ہم من حیث القوم مقروض ہیں، خدا نہ کرے کہ ہم پر چیچہ وطنی کے مقروض کا سایہ بھی پڑے، محلے کی دکانوں پر اکثر لکھا ہوتا ہے ادھار محبت کی قینچی ہے، ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، اور اب تو آئی ایم ایف بھی کہنے لگا ہے پپو یار تنگ نہ کر، ہماری کیا بات ہے قرضے کی کجا اس کے سود کی قسطیں ادا کرتے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضے لے کر کتنے ملکوں نے اپنی گرتی معیشت کھڑی کر لی اور ہم نے اسے دفنا دیا، گڈ گورننس ہو جمہوریت ہو اس کا ہمیشہ نام لیا کام نہ لیا، اور اب یہ حالت کہ

جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

جہاں بھی کوئی جرم ہوتا ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ پیمانے الگ الگ سہی شراب تو ایک جیسی ہے، جتنے پیمانے تھے، مینا میں اتنے ہی سوراخ کئے، چیچہ وطنی کے اس دلدوز واقعہ نے بتا دیا کہ حکومت اپنی ترجیحات میں عوام کو ریلیف دینے کا بندوبست کرے ورنہ یہاں تو قوم تبدیلی سے پہلے ہی ذبح ہو چکی ہو گی، اللہ جانے اس بندہ مقروض پر کتنا ذہنی دبائو ہو گا کہ پہلے پاگل ہوا پھر قاتل، یہ علامت خوفناک ہے، کہیں ’’ڈن کِرک‘‘ کے قلعے میں محصور لوگوں والا حشر نہ ہو جب سارا راشن ختم ہو گیا تو ایک دوسرے کو کھانے لگے، بہرصورت نئی حکومت نئے لوگ اور پرانے شکارزدگان خدایا! ہو گا کیا، تحریک انصاف والے جذبے جوش جنون کے دھنی ہیں، ابھی تک گرتے پڑتے ٹھیک جا رہے ہیں مگر آگے بڑی کھائیاں ہیں، وہ تو اب فارغ ہوئے جنہوں نے مٹھائیاں کھائیاں ہیں بس ان کا حساب کتاب باقی ہے، جو ہو رہا ہے، مگر نتائج اس کے بھی غیر حتمی غیر سرکاری ہیں۔

٭٭٭٭

نوجوان آگے آئیں

....Oبلاول بھٹو:جمہوریت ہی مضبوط و خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔

بلاول بھٹو کے اقوال، زریں ہوتے ہیں۔

....Oاسحاق ڈار نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لئے غور شروع کر دیا۔

اچھا خیال ہے یہ کوشش بھی کر دیکھیں۔

....O فروغ نسیم:احتساب قانون میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

اطلاع دیتے ہیں قانون نہیں بدلتے، وزارت بھی ہے پارلیمنٹ قانون سازی کریں، قانون تو بیشمار بدلنے والے ہیں اب یہ کام شروع کر دینا چاہئے۔

....Oعمران خان کی کراچی سے چھوڑی گئی سیٹ پر سماجی تنظیم کے بانی عالمگیر خان کو ٹکٹ جاری۔

نچلے درجے سے اپنی سیاست کا آغاز کیا، کام کیا، مار بھی کھائی مگر آخر انہیں ٹکٹ مل گیا، شاید کامیاب بھی ہو جائیں، اچھا ہے کام کرنے والے نوجوان آگے آئیں، بشرطیکہ پیچھے نہ چلے جائیں۔

تازہ ترین