• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کی مثبت اور خوشگوار بنیادوں پر پائیدار استواری کا علاقائی امن و استحکام میں کلیدی اہمیت کا حامل ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ تاہم خطے میںبعض طاقتوں کی جانب سے اپنے مفادات کی خاطر نافذ کی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں دونوں برادر ملک کئی عشروں سے بدترین دہشت گردی کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا چلے آرہے ہیں۔ اس صورت حال سے نجات پانے کیلئے ان غلط فہمیوں کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ ضروری ہے جن کی وجہ سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں پچھلے برسوں میں بار بار تعطل کا شکار ہوتی رہیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے سابقہ دور میں ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی مطلوبہ فضا قائم نہ رہ سکی جس کے باعث پاک افغان معاملات میں بھی فریقین کے درمیان بدگمانیاں حائل رہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے آج حکومت پاکستان اور تمام ریاستی اداروں کے درمیان ایسی مکمل ہم آہنگی موجود ہے جس کی کوئی مثال ماضی کے ادوار میں مشکل ہی سے ملے گی۔ اس بناء پر موجودہ حکومت ریاستی اداروں کی مکمل حمایت کے ساتھ افغانستان سے تعلقات کی بحالی کیلئے پیش قدمی اور اس مقصد کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کی بہترین پوزیشن میں ہے ۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئے بالکل درست طور پر افغانستان کا انتخاب کیا۔ہفتے کو ہونے والے ان کے اس ایک روزہ دورے میں کئی حوالوں سے نمایاں پیش رفت ہوئی۔ دفتر خارجہ کی جانب سے وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق شاہ محمود قریشی نے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور اپنے ہم منصب سے ملاقاتیں کیں۔وزیر خارجہ نے افغان قیادت کو خیر سگالی کا پیغام پہنچایا، دونوں ممالک نے مشترکہ اقتصادی کمیشن اور افغانستان پاکستان ایکشن پلان پر کام جاری رکھنے ، جلال آباد قونصل خانے کی سیکورٹی کے معاملات جلد حل کرنے اور اسے دوبارہ آپریشنل کرنے پر اتفاق کیا۔ شاہ محمود قریشی نے امن کے لئے افغان حکومت کی سربراہی میں سیاسی عمل کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اس میں پاکستان کی طرف سے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر خارجہ کی جانب سے افغان پولیس کو پاکستان میں تربیت دینے کی پیشکش بھی کی گئی ، کابل انتظامیہ نے یہ پیش کش قبول کرلی تو باہمی روابط میں یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اس موقع پرباہمی تعلقات میں استحکام کیلئے پاکستان کی طرف سے ایک اور اہم قدم افغان درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر نے کی شکل میں اٹھایا گیا۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے چالیس ہزار ٹن گندم کے تحفے کا خط بھی وزیر خارجہ نے افغان صدر کے حوالے کیا۔ افغان مہاجرین کی با عزت واپسی ایک ایسا معاملہ ہے جسے اب بہرصورت حل ہوجانا چاہیے لہٰذا وزیر خارجہ نے افغان قیادت کواس جانب بھی توجہ دلائی ۔ افغان صدر اور پاکستانی وزیر خارجہ کی سربراہی میں وفود کے سطح پر مذاکرات کا پینتالیس منٹ کے طے شدہ وقت کے بجائے ٖڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کا موقف تسلی کے ساتھ سنا اور سمجھا گیا جبکہ افغان صدر اور شاہ محمود قریشی کے درمیان پون گھنٹے کی براہ راست ملاقات بھی ہوئی ۔ بات چیت میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے حالیہ دورہ پاکستان پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔امید ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کا افغان قیادت سے یہ پہلا براہ راست رابطہ آنے والے دنوں میں مزید نتیجہ خیز اقدامات کا ذریعہ بنے گا ۔ حکمت و تدبر کا تقاضا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ ایک دوسرے سے ناقابل شکست دائمی تاریخی، جغرافیائی، دینی، تہذیبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ، اوران کا نفع نقصان ایک ہے، اس لیے دونوں برادر ملکوں کو کسی بھی دوسری طاقت کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے اور اپنے معاملات افہام و تفہیم کے ذریعے خود حل کرنا چاہئیں۔

تازہ ترین