کراچی (امداد سومرو) سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد نے وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 153، 154 اور 155کی میبنہ خلاف ورزی کی مذمت کی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبوں اور وفاق خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں پانی کے مسئلے پر تقسیم سے قبل اور بعدہونے والے تنازعوں کے تاریخی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اور آرٹیکل 153، 154 اور 155کو سامنے رکھتے ہوئے بار چیف جسٹس آف پاکستان اور وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے مذکورہ آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئین میں دئے گئے طریقہ کار اختیار کرنے کی بجائے وفاقی حکومت بڑے ڈیموں کی مہم چلا کر مذکورہ آرٹیکلز کو بائی پاس کر رہے ہیں اور سندھ کے آئینی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق کو غصب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں جبکہ سندھ انڈس ریور سسٹم کا بینیفشری ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ برطانوی راج میں اور پاکستان کے قیام کے بعد مرتب کی گئی متعدد رپورٹس اور کمیٹیوں کے فیصلے پڑھنےکے بعد بار کا خیال ہے کہ سندھ دریاے کے ذیلی کنارے پر واقع ہے اور انڈس ریور سسٹم کا 50فیصد حصہ دار اور بینیفشری ہے اور 1859سے سندھ کے حقوق غصب کئے جارہے ہیںاور تب سے پنجاب اس کے حق کا پانی غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر حاصل کررہا ہے۔ بیان کے مطابق سندھ کی شکایات پر برطانوی حکومت نے 1901میں انڈیا اری گیشن کمیشن، 1919میں کاٹن کمیٹی، 1935میںاینڈرسن کمیٹی اور 1941میں راو کمیشن تشکیل دئے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد 1968میں اختر حسین کمیٹی، 1970میں فضل اکبر کمیشن، 1981میں انوارالحق کمیشن اور 1983میں حلیم کمیشن تشکیل دئے گئے جبکہ مشرف کے دور حکومت میں اے این جی عباسی کے سربراہی میں تکنیکی کمیٹی برائے آبی ذخائرتشکیل دی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد ان تمام کمیٹیوں اور کمیشن کی جانب سے مرتبہ کردہ رپورٹوں، فیصلوں کو پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ 50فیصد حصہ دار سندھ کی رضا مندی کے بغیر پنجاب کی جانب سے برطانوی حکومت کی مدد سے مختلف نہریں اورڈیم بنانا غیر قانونی اور غیر آئینی ہےاور جس کے باعث پنجاب کو کسی بھی ڈیم بنانے سے روک دیا گیا تھا۔ بار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد انڈس واٹر سسٹم پر سندھ کی رضامندی کے بغیرکسی بھی قسم کے ڈیم یا نہر بنانے کی شدید مذمت کرتا ہے اور دریا کے نچلے کنارے پر واقع ہونے اور 50فیصد حصہ دارہونے کے باعث سندھ کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ سینیٹ میں پیش کی گئی پرانی اور حالیہ رپورٹس سے تصدیق ہوتی ہے کہ کوٹری ڈاون اسٹریم پر پانی کی مطلوبہ مقدار نہ ہونے کے باعث سندھ ہزاروں کی تعداد میں اپنی زمین سمندر میں کھورہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد کا خیال ہے کہ تمام تر کمیٹیوں اور کمیشن کی رپورٹس سے تصدیق ہوتی ہے کہ سندھ اس معاملے میں کمزور پارٹی ہے جسے ڈیڑھ صدی سے پانی کی زبردست چوری کا سامنا ہے، 1945میں سندھ اور پنجاب کو کسی معاہدے پر پہنچنے کی ہدایت کی گئی جس کے بعد 28ستمبر 1945کو سندھ پنجاب معاہدے کا مسودہ تیار ہوا جس پر دونوں صوبوں کے چیف انجینئرز نے دستخط کئے، اس معاہدے کا آرٹیکل 8کہتا ہے کہ سندھ حکومت کی منظوری کے بغیر پنجاب دریائے سندھ یا اس کو کسی بھی نہر پر کوئی ڈیم تعمیر نہیں کرسکتا۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن حیدر آباد کو یقین ہے کہ سمندر میں پانی کا بہاو پانی کا ضیاع نہیں بلکہ انڈس ڈیلٹا کی ضرورت ہے جسے گذشتہ تین دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی نہ ہونے کے باعث سطح سمند میں اضافے سے مشکلات کا سامنا ہے۔