• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طارق بلوچ صحرائی،لاہور

میرے اندر ایک عجیب سی بے چینی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ لگتا تھا، جیسےسُکون کے پنچھی بے کَلی کے گھنے جنگلوں کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ آنکھوں کے متلاشی خواب کی طرح مجھے کسی اللہ والے کی تلاش ہے، جو اس گرداب سے نکالے،مگر مَیں عجیب عہد میں زندہ ہوں، جہاں عکس آئینے میں اُترنے سے گریزاں ہیں۔ جہاں خواب، چُبھن کے پتھروں کے ساتھ تولے جاتے ہیں۔مَیں نے کئی بار یہاں دانائی کو الفاظ کا کشکول اُٹھائے بھی دیکھا ہے۔ اس نئے دَور میں زمینی حقائق کا دیو اتنا بڑا ہے کہ اگر کوئی اس سے ٹکرا کر بچ بھی جائے، تو خواب مرجاتے ہیں۔

مجھے اب بھی اپنا توتلا بچپن یاد ہے۔ ماں کہتی تھی، جس گھر میں محبّت نہ ہو، خیر مقدم کرنے والی بانہیں گونگی ہوجائیں، تو اس گھر میں ’’پچھل پیریاں‘‘ آنے لگتی ہیں۔ سُرخ رومال، جس پر ماں نے میرے والد کا نام کاڑھا ہوا تھا، وہ اُسے دھوتے دھوتے گنگنانے لگتی تھی اور اس کا چہرہ سُرخ ہو جایا کرتا تھا ۔ اس کو بس ایک ہی دکھ تھا کہ چراغ اب قبروں پہ بھی جلانے کی رسم باقی نہیں رہی۔یادوں کی دُھند مجھے ماضی کے خیمے میں لے جاتی ہے۔ مجھے اب بھی اپنے اندر بوڑھے فقیر کی کھانسی اور مٹّی کے کھلونے بیچتی خانہ بدوش عورت کی اونچی آواز سُنائی دیتی ہے۔ ہمارے گائوں میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ ماں سرِ شام دیا جلا دیا کرتی۔ جب کبھی چمگادڑیں ہمارے گھر میں اُڑتی نظر آتیں، تو ماں دوسرا دیا بھی جلا دیا کرتی۔ مَیں نے سُنا تھا چمگادڑیں انسان کا خون پیتی اور کانوں میں گھس جاتی ہیں۔ مَیں چمگادڑوں کو مارنے کی لیے کئی بار زخمی بھی ہوا تھا۔ایک بار ان کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اندھیرے میں گر کر ٹانگ بھی ٹوٹ گئی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے، اُس دِن میری ماں بہت روئی تھی۔ پھر اس نے مجھے ہلدی والا گرم دودھ پلایا اور بولی، ’’پُتّر! یہ دنیا چمگادڑوں کا مسکن ہے۔ کتنی چمگادڑیں مارو گے۔ بیٹا! چمگادڑیں صرف اندھیرے ہی میں دیکھنے پر قادر ہیں۔ ان سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے، روشنی کو گُل نہ ہونے دو۔‘‘اب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں، ماں صحیح کہتی تھی، خون پینے والی چمگادڑوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ روشنی کو گُل نہ ہونے دو، چراغوں کو بجھنے نہ دو۔ ہم ساری زندگی نفرتوں کی چمگادڑوں کو مارتے مارتے گزار دیتے ہیں، مگر محبّت کا چراغ نہیں جلاتے۔اللہ نے ہمیں بہت سے چراغ عطا کیے ہیں۔ جیسے علم کا چراغ،اُمید کا چراغ، مثبت سوچ کا چراغ ،اللہ کی یاد کا چراغ،کملی والے کی محبّت کا چراغ۔ رشتوں کے تقدّس کا چراغ، یہ سب روشنیوں کے چراغ ہی تو ہیں۔

تاریخ آج تک وہیں پہ ٹھہری ہوئی ہے، جہاں دوات کی سیاہی اور مورخ کی سچائی ناپید ہو گئے تھے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ تاریخ کا دسترخوان نمک حرامی کے ’’کھیوڑہ‘‘ سے بَھرا پڑا ہے۔ سفر کی اذّیتیں پائوں کے آبلوں سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے۔ بے حسی اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ فاختہ کی تصویر والی تلواریں بازار میں بکتی ہیں۔ آج بیساکھ کا آخری دِن تھا۔ کچھ سرمئی بادل ہوا کے ساز پر رقص کر رہے تھے۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی مَیں نے اندھیرے کی آواز سُنی تھی، رات کا آرکسٹرا بجنا شروع ہو گیا تھا اور پھر مَیں ماضی کے جنگل میں نکل گیا۔ مجھے یاد نہیں، میرے بچپن کا آخری دِن کیسا گزرا تھا یا جوانی کا پہلا دِن کون سا تھا۔ مگر مجھے یاد ہے میرا بڑھاپے کا پہلا دِن کیسا تھا۔ جب میرے بیٹے نے مجھے کہا تھا، ’’بابا! آپ خوا مخواہ ہر بات میں نہ بولا کریں۔ یہ نیا دَور ہے، آپ پُرانے زمانے کے آدمی ہیں۔‘‘ اور پھر مَیں نے بیٹے کے ہاتھ کا سہارا چھوڑ دیا اور بازار سے لاٹھی خرید لایا تھا۔ درحقیقت ہر ایک کے بڑھاپے کا آغاز اُسی دِن سے ہوجاتا ہے، جس دِن سے اُس کی اولاد اُسے نظرانداز کرنا شروع کر دے۔یہاں ہر کوئی ’’قضائے عُمری‘‘ ادا کر رہا ہے۔ یہاں خلا میں بھی اسیری کی بُو ہے۔ جبر ایسا ہے کہ اب کُھلی فضا میں بھی زنداں کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے موت پر اعتراض نہیں، مگر پیدا ہونے سے پہلے مرنے کا شدید دُکھ ہے۔ جس کو ادھوری نظم ڈس لے، جس کو کٹا ہوا شجر رات بَھر اور فاختہ کی آنکھ میں سہما ہوا آنسو ساون بَھر سونے نہ دے، وہ ’’ابوجہل کی نگری‘‘ میں کیوں کر رہ سکتا ہے۔ مگر اس گُنجلتا میں کون اُلجھتا ہے، سب کو پیٹ کی فکر ہے، سب زندگی سے خائف ہیں۔

اور پھر…مَیں سُکون کی تلاش میں صدیوں کی تھکن سمیٹے خوابوں کی راکھ کی پوٹلی اُٹھائے اپنے پُرانے گائوں چلا آیا۔ مَیں نے سُنا تھا، شہروں میں فتنے اور جنگلوں میں برکات ہوتی ہیں۔ ہماری ویران حویلی کے ساتھ خالی جگہ پر ایک ڈھلتی عُمر کا شخص رہ رہا تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا، وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے، اُس کا نام کیا ہے۔ اُس نے گائوں میں تھوڑی سی زمین ٹھیکے پر لی اور کاشت کاری کرنے لگا۔’’اتنی تھوڑی سی زمین پر گزارہ ہو جاتا ہے؟‘‘مَیں نے ایک روز اُس سے سوال کیا، وہ مُسکرایا ’’روٹی مل جاتی ہے، شُکر کے سالن کے ساتھ کھا لیتا ہوں۔ شُکر نہ ہو تو من و سلویٰ سے بھی ذائقہ اُڑ جاتا ہے۔یہ میری اُس سے پہلی ملاقات تھی۔

پرسوں میرے پاس گائوں کا امام آیا تھا۔ بڑا عبادت گزار شخص ہے، مگر عقیدے کی سختی کی وجہ سے اس کا چہرہ تنا ہوا ہے تھا۔ پوچھنے لگا،’’کون سے فرقے سے ہو‘‘مَیں نے جواب دیا، ’’صرف دینِ اسلام سے ہوں۔ فرقے تو تقسیم کرتے ہیں، دین تو اُن کو جوڑنے کے لیے آیا ہے۔‘‘’’شہر سے کیوں بھاگ آئے ہو؟‘‘اُس نے پھر سوال کیا۔’’مَیں اُس ہوا کی تلاش میں ہوں،جس نے رقصِ درویش دیکھا ہو۔ مَیں کسی اللہ والے صوفی کی تلاش میں ہوں۔ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کی دیواروں میں کوڑھ نکل آیا ہے۔ صلیبیں درختوں پر اُگ آئی ہیں۔ راہ داریوں میں تلواریں لٹک رہی ہیں۔ زندہ جسم، مردہ روحیں لیے پھر رہے ہیں۔ کارخانے جوانیوں کو نگل رہے ہیں۔روٹی کے بدلے بچّے اپنا بچپن بیچ رہے ہیں۔ وہاں کی ہوا بھی خالص نہیں، دھوئیں اور گردوغبار میں لپٹی ہوئی ہے۔شہروں میں ہر شخص ایک ایسے سفر میں ہے، جس کی کوئی منزل نہیں۔‘‘’’سچ کہتے ہو۔‘‘وہ بولا۔’’شہروں میں صرف دائروں کا سفر ہے اور دائرے کے سفر میں وصل تو ہے، مگر منزل نہیں۔‘‘مَیں نے سوال کیا، ’’محبّت کیا ہے؟‘‘وہ مُسکرایا اور بولا،’’محبّت کے بغیر زندگی ایسے ہی ہے، جیسے اعتراف کے بغیر محبّت۔محبّت کائنات کا تیسرا بڑا سچ ہے۔‘‘’’پہلا اور دوسرا سچ کیا ہے؟‘‘اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بولا،’’اس کائنات کا پہلا سچ اللہ رب العالمین اور دوسرا سچ رحمت اللعالمین ہیں۔‘‘مَیں نے سوال کیا، ’’اور صاحبِ ایمان کون ہے؟‘‘اُس نے آنکھوں کو پونچھا اور بولا۔’’جب کملی والےﷺوالے کا ذکر ہو اور اُس کی آنکھیں پُرنم ہو جائیں۔‘‘ ’’اور دین؟‘‘’’دین ایک راستے، ایک سسٹم کا نام ہے۔دینِ اسلام وہ راستہ ہے، جو سراجِ منیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روشن کردہ ہے۔جو قرآن کا راستہ ہے، جو محبّت، اخلاص، درگزر، ہم دردی، ایثار اور عاجزی کا راستہ ہے۔‘‘

کچھ عرصے بعد معلوم ہوا، وہ بابا گھر بیچ کے کہیں چلا گیا ہے۔ مجھے بہت دُکھ ہوا، مجھے اُس سے مل کر ایک سکون، اِک اطمینان کا احساس ہوتا تھا۔ گائوں میں کوئی نہیں جانتا تھا، اس کا نام کیا تھا، کہاں سے آیا تھا، کہاں گیا۔اور مَیں جو کسی مَردِ مومن، صوفی، ولی، درویش کی تلاش میں تھا۔ اُس کے جانے کا سُن کر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ سچ کہتا تھا،’’درویش اللہ کی رحمت کو محدود نہیں سمجھتا۔درویش پسِ محراب جلتا ہوا دیپ ہے…اور بے نشانی ہی درویش کی نشانی ہے۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین