• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائوس آف لارڈز میں مذہبی نمائندگی کا مطالبہ خوش آئند قرار، رواداری کو فروغ ملے گا، جنگ سروے

بری، مانچسٹر (خورشید حمید/علامہ عظیم جی/غلام مصطفیٰ مغل) برطانوی سیاسی ایوان ہائوس آف لارڈز میں دیگر مذاہب کے نمائندوں کے لیے بھی نشستیں مختص کرنے کے برطانوی وزیر برائے مذہبی امور لارڈ نک بورن کی جانب سے چرچ آف انگلینڈ کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو برطانوی ایوان بالا میں نمائندگی دینے کا مسلمان حلقوں کی جانب سے خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ اسلامک سینٹر چرچ سٹریٹ کے لیاقت علی نے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہاہے کہ اگرچہ ابھی یہ صرف تجویز ہے، ملک کے سب سے سیاسی ایوان میں برطانوی سوسائٹی میں بسنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی شمولیت سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی فضا پیدا ہوگی۔ حکومت میں جلد از جلد اس تجویز کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ ممتاز عالم دین مولانا قاری محمد خان نےبرطانوی وزیر برائے مذہب لارڈ میں نمائندگی دینے کے مطالبے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس معاشرے میں جنم لینے والے عدم مساوات اور مذہبی انتہا پسندی جیسے رجحانات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ کمیونٹی رہنما راجہ ضیاء الحق نے کہا کہ مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں کی اعلیٰ برطانوی سیاسی ایوان میں نمائندگی سے کمیونٹیز کے درمیان تعلقات مضبوط اور خوشگوار ہوں گے۔مانچسٹر ماسک کونسل کے چیئرمین قدیر احمد چوہان نے کہا ہے کہ برطانوی وزیر برائے مذہبی امور لارڈ نک بورن کا مطالبہ بروقت اوربرطانوی ملٹی فیتھ ملٹی کلچرل معاشرے میں ہم آہنگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ برطانوی حکومت ہر سال ریمبرنس ڈے مناتی ہے جوکہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے ہیروز کی یاد ہوتی ہے۔ا س میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب رکھنے والوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اسی طرح ملٹی فیتھ میں بھی مختلف مذاہب رکھنے والوں کی نمائندتی ہوتی ہے، اس لیے حکومت کو لارڈز میں دیگر مذاہب کو بھی نمائندگی دی جائے البتہ اس میں مسلمانوں کی نمائندگی اکثریتی پریکٹسنگ مسلمانوں میں سے ہونی چاہیے۔ عبدالجبار قریشی نے کہا ہے کہ ہائوس آف لارڈ میں نمائندگی کا لارڈ نک بورن کا مطالبہ اگرچہ اچھا ہے، لیکن مسلمانوں کی نمائندگی پر اختلاف پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ برطانیہ میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے تاہم کئی ایسے لوگ ہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے برعکس ہیں۔ اس لیے مذہبی بنیادوں پر ہائوس لارڈز میں نمائندگی سے ایک نیا پینڈورا بکس کھل جائے گابہتر ہے کہ مذہبی بنیادوں پر نمائندگی کے سوال کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ پہلے ہی اسلامو فوبیا پھیل رہا ہے اور نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ اگر نمائندگی مذہبی بنیاد پر دی گئی تو بہتری کے بجائے ملٹی فیتھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔سابق ممبر شوریٰ جمعیت المسلمین مانچسٹر محمد شاہد نے کہا ہے کہ ہائوس آف لارڈز میں چرچ آف انگلینڈ کے علاوہ دوسرے بڑے مذاہب کی نمائندگی کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ اسلام کے ماننے والے برطانیہ میں عیسائی مذہب رکھنے کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی امن اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے بھی دیگر مذاہب کی ہائوس آف لارڈز میں نمائندگی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی برطانیہ کی سیاسی، سماجی اور مذہبی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے نمائندگی کا مطالبہ لارڈ نک بورن کی بہتر سوچ کا غماز ہے۔ حکومت برطانیہ کو اس پر فوری غور کرکے چرچ کے علاوہ دیگر مذاہب خصوصاً مسلمانوں کو نمائندگی دینی چاہیے تاکہ برابری مساوات کو فروغ ملے اور مذہبی بنیادوں پر نفرتوں کو کم کیا جاسکے۔ چوہدری سعید عبداللہ، ڈاکٹر محمد یونس پرواز اور حاجی محمد اسلم چشتی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ہائوس آف لارڈ میں الگ مخصوص نشستیں ہوں گی تو اقلیتوں کو بھی نمائندگی ملے گی اور وہ بھی اپنے مسائل حل کرانے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔ ہائوس آف لارڈمیں پہلے بھی مسلمان کمیونٹی اور دیگر جماعتوں کے نمائندگان موجود ہیں۔

تازہ ترین