• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی روزمرہ مشکلات اور چیلنجز سے عبارت ہے۔ جو اقوام اور انسان اپنی قومی اور نجی ترقی کے عروج پر پہنچ جاتی ہیں، ان کے اہداف بھی ختم نہیں ہوتے (یہی انسانی زندگی کا حسن ہے) یہ پوزیشن حاصل کرنے والا معاشرہ ہو یا فرد، ان کے لئے اپنی موجود قابل رشک پوزیشن برقرار رکھنا اور گنجائش کے مطابق مزید بہتری کے ہدف حاصل کرنا ہی ’’سرگرمی‘‘ جیسے سرمائے سے ممکن ہوتا ہے۔ جیسے چیف جسٹس صاحب نے پوری قوم کو ڈیمز کے لئے سرگرم کر دیا ہے۔ جب حرکت نہ ہو تو برکت بھی نہیں ہوتی۔ اگر ہم افراد یا اقوام اپنی حرکات (Initiatives)اور سرگرمی (Actions) میں انسانی نقطہ نظر سے مخلص ہوں یا قومی مفادات میں خود غرض نہ ہوں تو ہو نہیں سکتا کہ رحمٰن و رحیم کی برکات و ثمرات سے محروم رہیں، خواہ ہمارا تعلق کسی نسل و مذہب قوم و علاقے سے ہو۔ تاریخ تہذیب انسانی مسلسل اس کھلے رازِ زندگی کی تصدیق ہزارہا سالوں سے کرتی چلی آ رہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشکلات و چیلنجز کہاں سے جنم لیتے ہیں؟ ان کی دو ہی اقسام ہیں، ہماری بیشتر مشکلات افراد و اقوام دونوں کی، انسانی رویے سے جنم لیتی ہیں، یہ منفی رویہ جو دوسرے انسانوں کے لئے مشکلات اور رکاوٹوں کی شکل اختیار کرتا ہے، بڑھتا بڑھتا اسٹیٹس کو کو جنم دیتا ہے جس میں بہتری کے حصول کے لئے حرکت اور سرگرمی دونوں کمتر ہوتے جاتے ہیں۔ اسٹیٹس کو کے پس پردہ (اور اس کے طاقت پکڑنے پر کھل کر) معدودے چند انسانوں کی خود غرضی، طمع اور اپنے غلبے اور برتری کے نفسیاتی امراض، منفی انسانی یا سماجی رویے کی وجہ کے طور پر موجود ہوتے ہیں جبکہ انسانی رویے کی تبدیلی انسان کے لئے سب سے کٹھن کام ہے۔ منفی رویے کی وجوہات کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ اس کی اپنی وجوہات ہیں۔ آگے علم نفسیات شروع ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی بالائی قومی زندگی میں ابتداء سے ہی خودغرضی اور طمع و لالچ کا عنصر غالب ہوا، اس سے پیدا ہونے والے اسٹیٹس کو نے مسلسل طاقت پکڑی ہے جس سے پاکستانی قوم کی بطور قوم اور افراد کی بطور شہری حرکت و سرگرمی کمتر ہوتی گئی جس سے قوم کمزور ہوتے ہوتے نحیف اور ایک بہت محدود طبقہ اس اسٹیٹس کو کا بڑا بینی فشری بنتا گیا اور اتنا طاقتور، چالاک اور مکار جس طرح آج اسرائیل وسائل سے مالامال کتنی ہی ’’دشمن‘‘ عرب اقوام کے مقابل مسلسل خطرناک حد تک غالب ہے اور ہمارے خوشحال ترین عرب بھائی اپنی دانش، خودی، شجاعت، علمیت اور تاریخی کمالات و معجزات سب ہی تو کھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ آج ان کی جغرافیائی بغل میں پھنسے اسرائیل کے پاس ہے۔

جب پاکستان بنا تو آزاد ہندوستان کے مقابل ہمارے پاس انگریز راج کا چھوڑا اثاثہ انتہائی محدود تھا۔ نومولود پاکستان متحدہ ہندوستان سے الگ ہو کر انسانی وسائل کے اعتبار سے کمتر تھا۔ ایسا نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کی تعمیر و ترقی کے لئے کوئی اجتماعی اور انفرادی کوشش نہیں ہوئی، جتنی ہوئیں وہ ہمیں آج کے پاکستان کے ہر مثبت پہلو میں واضح نظر آتی ہیں۔ صحت و تعلیم اور ماحولیات کے سوا کونسا شعبہ ہے جس میں ہم نے حرکت نہیں کی اور سرگرمی کا مظاہرہ کر کے نتائج حاصل نہیں کئے، وائے بدنصیبی ان ہی کامیابیوں کے متوازی ایک انتہائی محدود، ذمہ دار اور طاقتور طبقے نے بطور قوم خود کو ریورس میں رکھنے کے لئے اسٹیٹس کو کی تشکیل کر کے اپنی مالی، انتظامی اور سماجی حیثیت کو انتہائی خود غرضی سے ظلم اور نادانستہ وطن دشمنی کی حد تک بڑھایا۔ اس منفی رویے نے بڑی تیزی سے نیچے کے طبقات میں بھی گنجائش کے مطابق ٹریول کیا اور پوری قوم اپنی حرکت و سرگرمی اور قومی شعور اور جذبے کو محدود کرتی کرتی قومی امور سے لاتعلق، بے حرکت و بے بس ہوتی گئی۔ یوں اسٹیٹس کو کی طاقت اور غلبے نے آج کے پاکستان، جو مشکلات و چیلنجز میں گھرا ہوا ہے، کو اس حالت پر پہنچا دیا جس میں تبدیلی کے لئے پوری قوم کو اپنی ہائی ڈگری سیاسی سرگرمی سے قوم کو حرکت میں لانے والا وزیر اعظم قوم کو وارننگ دے رہا ہے کہ ’’شدت سے مطلوب ڈیمز نہ بنائے تو پاکستان خوراک کے بحران میں مبتلا ہو جائے گا‘‘۔ کسی قوم میں خوراک کا بحران تب پیدا ہوتا ہے جب اور بہت سے بحران موجود ہوں اور قوم انہیں حل کرنے کے قابل نہیں رہتی۔

واضح رہے کہ قیام پاکستان پر ہمارے پاس انگریز راج کا چھوڑا اثاثہ تو کمتر تھا لیکن قدرتی وسائل سے پاکستان بننے والا، برصغیر کا خطہ ارض مالامال تھا۔ قدرت کی بیش بہا مہربانیوں سے پاکستان دریائوں، برفانی پہاڑوں اور ہر قسم کے موسم والی زمین اور اس کے وسیع تر قطعات میں چھپی توانائی، معدنیات، گہرے سمندروں اور صحرائوں اور مقامی شاداب وسیع زرعی میدانی قطعات پر بنا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارا بہت بڑا چیلنج بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے اپنے دریائوں، سمندر اور دوسرے آبی ذخائر کو بچانا تھا، زرعی قطعات میں مزید وسعت لانا اور چٹانی زمین کا سینہ چیر کر نعمت ہائے خداوندی تک پہنچ اور اس کو عملاً وسائل میں ڈھالنا تھا، جس میں ہم یکسر ناکام رہے، بنیادی وجہ ہماری حکمرانوں اور حکمران طبقے کا منفی اجتماعی رویہ یہی رہا کہ عوام جاندار نہ ہونے پائیں۔ اس رویے میں تسلسل اور اضافہ ہوتا رہا۔

کالا باغ ڈیم کی منصوبہ بندی پھر اس کے لئے تقریباً کام کے آغاز تک پہنچ جانا ، ہمارے قومی شعور، مستقبل کا ہوش، آنے والی نسلوں کی فکر، زرعی اور توانائی کی ضروریات کا اہتمام، ہمارا بحیثیت قوم، حکمران اور معاونین کا قابل رشک رویہ تھا۔ منگلا و تربیلا کی تعمیر ہماری اسی حرکت و سرگرمی کا بابرکت نتیجہ تھا، اس میں بڑی کوتاہی کی سزا بھی ہم نے بھگتی اور بھگتیں گے ، لیکن جتنی حرکت کی ، سرگرمی دکھائی ، فکر کی اس کا حاصل بھی کوئی کم تو نہیں ہوا۔

اسی مثبت رویے کا فالو اپ یوں ہونا تھا کہ کوتاہیوں کا ازالہ کرتے اور حرکت کو قائم رکھتے، سرگرمی بڑھاتے اور وقت کے ساتھ ساتھ بمطابق ترجیح اہداف حاصل کرتے جاتے۔ ہم فالو اپ میں بھی گئے، جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی طرف مائل ہوئے۔ اس کے متوقع حاصل ثمرات اتنے زیادہ تھے ، اس پر ہم سے زیادہ دشمن چوکس ہو گیا ۔ وہ ابتدا میں ہی ہمارا نہری پانی روک کر ہراساں کر چکا تھا۔ پھر اس پراجیکٹ کا تعلق سرحدوں کے پار کیسے قائم ہوا،جو ہوا، وہ اب پاکستانیوں کے ایک بڑے حصے پر تو واضح ہے لیکن ایک اپنوں کا ہی بڑا طبقہ کامیاب ترین سیاسی بلیک میلنگ سے بے بس کر دیا گیا، ہماری موجود قومی فکر بڑی مکاری سے ختم کر دی گئی۔ اور ایک طبقہ ،بنے اسٹیٹس کو کا طاقتور ستون بن کر اپنے مائنڈ سیٹ اور انتہا کے قوم ہی نہیں انسان دشمن رویے پر حیران کن مظاہرہ کرتے ہوئے دھڑلے سے کالا باغ ڈیم کا مخالف بن کر قائم دائم ہے۔ خود کش ، مہلک علاقہ پرستی، اس کے عوام دشمن مفادات اور ان کی وطن دشمن اغراض کا محافظ ہے۔ بے تکی مخالفت، دلائل سے خالی اور ڈھٹائی سے اٹی کج بحثی اور ضد ان کے ہتھیار ہیں جسے استعمال کر کے یہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر تب بھی قائم تھے جب ان کے تو نہیں ان کے غریب ووٹروں کے گلے خشک ہوئے جاتے تھے جس کی وجہ سے خطرناک گدلے پانی کے استعمال میں ان کی جھجک ختم ہو چکی ہے کہ زندگی بچانے کے لئے انسانی زندگی کو ہی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

اس پس منظر میں اور ملک میں بڑھتی پیاس ، بجلی کی ضرورت اور خوراک پیدا کرنے کے چیلنجز سے نپٹنے کے لئے کالا باغ ڈیم جیسے بیش بہا مکمل اور یکساں قومی فوائد کے ناگزیر ترقیاتی پراجیکٹ سے اس لئے مزید نظریں نہیں چرائی جا سکتیں نہ اس پر بلیک میلنگ میں آتے ہوئے خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے کہ چند علاقائی سیاست دان اور پی پی اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ ہاں ڈائیلاگ ہو سکتے ہیں کھلے دل اور دلائل کے ساتھ۔ پیپلز پارٹی تو بھول جائے کہ وہ کالا باغ ڈیم پر بلاجواز مائنڈ سیٹ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا سب سے قیمتی کھویا ہوا امتیاز بطور ’’وفاقی جماعت‘‘ کے بحال کر سکتی ہے ۔ وہ تو اب مکمل علاقائی جماعت بھی نہیں، اگر کراچی اور حیدر آباد واقعی سندھ کا حصہ ہیں۔

جناب وزیر اعظم، جناب چیف جسٹس صاحب اور وہ اہم ترین اسٹیک ہولڈرز جو پانی کی ہوتی شدید قلت کے نتائج پر سخت پریشان ہیں ان کے لئے ملین ڈالر ٹپ یہ ہے کہ مائنڈ سیٹ یا مستقل نوعیت کے انسانی رویے کو تبدیل کرنے کا فقط اور مطلوب نتائج کا علاج صرف اور صرف کمیونیکیشن ہوتا ہے لیکن کیسی؟ یہ راز کمیونیکیشن سائنس کا ہے، لیکن بدستور گورننس اطلاقی علوم کو گورننس سے جوڑنے سے غافل ہے جو اسٹیٹس کو کا خطرناک رنگ تاہم قومی ضرورت اور اس کے ہولناک نتائج کے محتاط اندازے کے بعد ، اب ’’کالا باغ ڈیم‘‘ پر قومی مکالمے کو نہیں روکا جا سکتا۔ یہ تو کرنا ہی ہو گا کیونکہ مخالفین کالا باغ ڈیم، بھی سارا کاروبار اپنے ابلاغ سے ہی چلا رہے ہیں۔

دیکھنا ہے ڈیمز پر قابل تحسین ’’چینج ایجنٹ‘‘ کتنے

سمجھدار ہیں اور پیسے جمع کرنے کے علاوہ سائنسی حل کی طرف کب اور کیسے آتے ہیں، کیونکہ سسٹم تو موجود ہی نہیں کہ جاننے والے حل بتا کر ہوا میں تحلیل کر کے بس ماتم ہی کریں۔ وما علینا الاالبلاغ

تازہ ترین