• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں پچھلے دس برسوں میں ہر بیماری میں شدت کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہیپا ٹائٹس کے مرض کو ہی لے لیں۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ آج پاکستان کا ہر شہری جس کا نمبر دسواں ہے وہ ہیپا ٹائٹس بی/سی میں مبتلا ہوچکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔
ہیپا ٹائٹس بی جگر کی وہ خوفناک بیماری ہے جو جان لیوا ہے اس بیماری کا روٹ بھی تقریباً ایڈز سے ملتا جلتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ہیلتھ ایجوکیشن نام کی کوئی چیز نہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کہیں بھی کوئی مضمون ایسا نہیں پڑھایا جاتا جس میں جان لیوا امراض سے بچنے اور ان کے علاج کے بارے میں ٹھوس معلومات موجود ہوں۔جس طرح حکومت پنجاب نے ڈینگی کو نصاب تعلیم کا حصہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ہیپا ٹائٹس، دل اور گردوں کی بیماریوں کے بارے میں بنیادی معلومات کو لازمی طور پر نصاب میں شامل کرنا چاہئے۔
اعضاء کی پیوند کاری کے آرڈیننس کے بعد ہمارے ملک میں جگر کی پیوند کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی کے ادارہ برائے امراض جگر میں ایک پیوند کاری ہوئی مگر بدقسمتی سے وہ مریضہ مر گئی چنانچہ وہاں پر مزید آپریشن ملتوی کر دیئے گئے۔ لاہور میں شیخ زائد ہسپتال میں حکومت نے اپنے خرچ پر پانچ افراد کی جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کرائے جس میں سے ایک مریض انفکشن کے باعث مر گیا اور فی الحال شیخ زائد ہسپتال کے ماہرین اس انفکشن کے محرکات تلاس کر رہے ہیں اور مزید آپریشن ملتوی کر دیئے گئے ہیں جبکہ 200مریض جگر کی پیوند کاری کے لئے منتظر ہیں۔ جگر کی پیوند کاری پر پاکستان میں ایک وارڈ مریض پر 30/25لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ پانچ مریضوں کے آپریشن تو حکومت نے کرا دیئے یہ پانچوں مریض ضرورت مند تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو غریب جنہیں ہمارے روز بروز امیر سے امیر تر ہونے والے ڈاکٹروں نے جگر کی پیوند کاری کا مشورہ دیا ہو وہ یہ آپریشن کہاں سے کرائیں گے؟ پرائیویٹ کے اخراجات تو چالیس پچاس لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں آپریشن کے بعد مریض کو تاحیات ہر ماہ 28سے 30ہزار روپے کی ادویات لینا ہوتی ہیں۔ یہ کون ادا کرے گا؟ یہ کیسے ادا ہوں گے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور آپریشن کے بعد شروع کے چند ماہ تو ہر ماہ ساٹھ ہزار روپے کی ادویات لازمی طور پر لینا ہوتی ہیں۔ اگر ان ادویات کے استعمال میں کوئی بھی کوتاہی برتی جائے ، تو کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ امریکہ میں جگر کی پیوند کاری پر ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس بی، سی کا مرض غریبوں میں زیادہ ہے۔ سات فیصد آبادی ہیپاٹائٹس سی اور تین فیصد آبادی ہیپا ٹائٹس بی میں مبتلا ہوچکی ہے۔ امیر لوگ تو شوقیہ طور پر بھی اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ مثلاً کثرت شراب نوشی اور جسم پر ٹیٹو بنوا کر اور خواتین بیوٹی پارلرز سے بھی یہ بیماری لے کر آرہی ہیں۔
ہمارے ملک کے ڈینٹل سرجنز بھی اس بیماری کو پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ڈینٹل ہسپتالوں میں آلات کو جرا ثیم سے پاک کرنے کا کوئی موثر انتظام نہیں کیونکہ ہر سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی بھرمار ہے اور کسے پڑی ہے کہ وہ آلات جراحی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لئے وقت دے۔ مقررہ بین الاقوامی معیار کو فالو کرے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب روایت ہے کہ بیماری کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا جب بیماری حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر شور مچایا جاتا ہے اور علاج پر لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ اب ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسین ہے تو آپ سروے کرکے دیکھ لیں کہ کتنے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس نے یہ ویکسین کرائی ہے۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت ہر سٹوڈنٹس کو ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسین لگوانا پڑتی ہے۔ اسے وہ سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوتا ہے جس میں وہ اس ویکسین کو لگوانے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہر سرکاری اور پرائیویٹ سکول، کالج میں داخلے کے وقت ہر صورت والدین سے یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرے کہ ان کے بچے نے ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسین لگوائی ہے۔
اچھے وقتوں کی بات ہے کہ بڑے بڑے سرکاری سکولوں میں سالانہ میڈیکل چیک اپ ہوا کرتا تھا پھر جس طرح اس ملک سے ہر اچھی روایت نے دم توڑ دیا ہے یہ اچھی روایت بھی ختم ہوگئی ہے چیچک کا مرض اس ملک سے کیسے ختم ہوا تھا ہر تعلیمی ادارے میں چیچک کا لازمی طور پر ٹیکہ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ مرض ختم ہوگیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سکول میں ہر بچے کو ہیپا ٹائٹس بی کی لازمی طور پر ویکسین لگائی جائے۔ ابھی ہمارے ہاں اور باہر کی بھی دنیا میں ہیپا ٹائٹس سی کی ویکسین نہیں آئی اور اس کی ویکسین بنانے پر ریسرچ جاری ہے بہرحال آئندہ چند برسوں میں یہ ویکسین بھی آجائے گی فی الحال ہمیں ہیپا ٹائٹس بی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انتقال خون کے اداروں پر کڑی نظر رکھیں۔ سرجری کے لئے آنے والے مریضوں کو ہر صورت چیک کریں کہ انہیں کہیں ہیپا ٹائٹس بی ، سی تو نہیں۔ ان کے آلات جراحی علیحدہ رکھیں۔
ڈائیلسز کے لئے جو مریض ہیپا ٹائٹس بی، سی میں مبتلا ہوں ان کے لئے ڈائیلسیز کے لئے علیحدہ مشین ہونی چاہئیں جگر کے امراض کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جائے۔ جگر کی پیوند کاری کوئی سستا علاج نہیں۔ یہ ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا لہٰذا پرہیز علاج سے بہتر ہے، اس پر عمل کیا جائے۔
تازہ ترین