• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانیت اور جنگ و جدل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ماضی بعید میں جنگیں نیزوں ، تلواروں سے لڑی جاتی تھیں۔ پھر آتشیں اسلحے کا زمانہ آیا اور اب ایٹمی حملے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگی حربوں اور ہتھیاروں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ماہرینِ حرب کو مستقبل میں جنگوں کی نوعیت سے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ماہرین اس بات پرغورو فکر کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ہتھیار کس نوعیت کی تباہی پھیلائیں گے اور اس کے نتیجے میں اقوام اور معاشروں پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟ تاہم، ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقّی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بیش تر عسکری و سماجی ماہرین اس بات پر متّفق ہیں کہ آیندہ جنگوں میں ٹیکنالوجی اور ڈاکٹرائنز (نظریات) کا کردار مرکزی ہو گا۔ پھر مصنوعی ذہانت کی غیر معمولی ترقّی اور کام یاب سائبر وارز نے بھی یہ باور کروانا شروع کر دیا ہے کہ مستقبل میں جنگوں میں انسانوں کا کردار ثانوی حیثیت اختیار کر جائے گا اور ان کی جگہ مشینز لے لیں گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہی ہوا، تو پھر اُس جذبے اور حوصلے کا کیا بنےگا کہ جسے فوج اور ہتھیاروں کی تعداد سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے؟ وہ بڑی بڑی افواج کہاں جائیں گی کہ جو اپنی ریاست کی سالمیت، حفاظت اور دفاع کی ذمّے دار ہیں؟ بہادری کا پیمانہ کیا ہوگا اور جانوں کی قربانی کا کیا ہو گا؟ نیز، ماہرین یہ سوال کرنے میں بھی حق بہ جانب ہیں کہ کیا مستقبل میں جنگیں ایسی ہوں گی کہ جیسی ہم موویز میں دیکھتے ہیں۔ یعنی مشینزآپس میں لڑیں گی اور انسان تماشائی ہو گا۔

گرچہ جنگی ہتھیار اور نظریات ہر صدی میں بدلتے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں حربی حکمتِ عملی میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں، لیکن انیسویں سے بیسویں صدی کے دوران ان میں جتنی برق رفتاری سے بدلائو آیا، اس کی مثال معلوم تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ توپوں کے بعد ٹینکس اور پھر بم بار طیّاروں نے جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج نے مسلسل فضائی بم باری کر کے جرمن افواج کو شکست سے دو چار کیا۔اسی طرح 1967ء میں لڑی گئی عرب، اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی طاقت وَر فضائیہ نے عرب ممالک کی مشترکہ فوجی قوّت کو پہلے ہی دن ( 6جون کو) ناکارہ بنا کر اپنی جیت کی راہ ہم وار کر دی۔ تاہم، بعد ازاں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال نے جنگوں کی نوعیت میں جوہری تبدیلی پیدا کر دی۔ 1945ء میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں، ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسا کر لڑے بغیر ہی نہ صرف ہر محاذ پر فتح حاصل کی، بلکہ پوری دُنیا پر اپنی دھاک بھی بٹھا دی اور یوں ایٹم بم ایک فیصلہ کُن ہتھیار کی صورت اختیار کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج معمولی عسکری طاقت اور حربی ٹیکنالوجی کے حامل ممالک بھی ایٹم بم تیار کر کے بڑی طاقتوں تک کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں، جسے ’’بیلنس آف ٹیرر‘‘ (دہشت کا توازن) کہا جاتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جب کہ پاکستان اور بھارت نے بھی اپنی ایٹمی طاقت کے ذریعے خطّے میں طاقت کا توازن قائم کر رکھا ہے، لیکن چُوں کہ ایٹم بم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار ہے، لہٰذا ایٹمی طاقت رکھنے والا کوئی بھی مُلک اسے استعمال کرنے کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں۔ ایٹم بم نہ صرف دشمن مُلک کو ہدف بناتا ہے، بلکہ اسے استعمال کرنے والے مُلک کےتاب کاری کے زد میں آنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ نیز، حملے کی زد میں آنے والے مُلک کے گرد و پیش میں واقع ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔

تاہم، ایٹم بم جیسے مُہلک ترین ہتھیار کے وجود میں آنے کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اب عالمی جنگیں نہیں ہو رہیں۔ اب ترقّی یافتہ ممالک میں خاصا شعور آ چُکا ہے اور آج کوئی بھی بڑی طاقت ایٹم بم کے استعمال کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کےہول ناک نتائج دیکھنے کے بعد ترقّی یافتہ ممالک کے عوام جنگ کے نام سے بھی گھبراتے ہیں اور وہ پُر سکون اور معیاری طرزِ زندگی کے حصول کی جانب گام زن ہیں۔ آج ترقّی یافتہ ممالک کی تمام تر توجّہ معیارِ زندگی بہتر بنانے اور علوم کے حصول پرمرکوز ہے۔ صحت کی جدید ترین سہولتوں کی فراہمی سے انسانوں کی اوسط عُمر میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور تمام ممالک غُربت و جہالت کے خلاف جنگ میں متّحد ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرچہ امریکا، چین اور رُوس جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں، لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی میدان میں ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست جنگ پر آمادہ نہیں۔ تاہم، اب جنگیں خانہ جنگیوں میں بدل چُکی ہیں، جنہیں ’’ہائبرڈ وار فیئر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ 7برس سے شام میں جاری خانہ جنگی کی مثال دی جا سکتی ہے، جس میں اب تک 5لاکھ سے زاید شامی شہری ہلاک اور ایک کروڑ 20لاکھ سے زاید (شام کی نصف آبادی) بے گھر ہو چُکے ہیں۔ ہائبرڈ وار فیئر کی دوسری مثال افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور دہشت گردی ہے، جس سے کم و بیش ساری دُنیا ہی متاثر ہو رہی ہے، جب کہ پاکستان تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار سے زاید افراد اور اربوں ڈالرز کی قربانی دے چُکا ہے اور پاکستانی معیشت کی کم زوری کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، فرقہ واریت، شدّت پسندی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ اس نوعیت کی جنگوں میں مزید اضافہ کرے گا۔

عسکری ماہرین کے مطابق، فضائی برتری کا جنگی نظریہ عرب، اسرائیل جنگ تک تو خاصا مؤثر رہا، لیکن 1991ء میں ہونے والی خلیجی جنگ کے بعد اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ تب یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ اب امریکا اپنی حربی صلاحیتوں کے سبب، جو پریسیزن گائیڈڈ میزائلز، انٹیلی جینس کے جدید طریقوں اور خلا سے کنٹرول کرنے والی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی جیسے تین عناصر پر مشتمل ہیں، جنگوں میں کافی عرصے تک فیصلہ کُن حیثیت کا حامل ہو گا اور مغرب کسی بڑے جانی و مالی نقصان کے بغیر ہی جنگیں جیت لے گا۔ واضح رہے کہ پہلی خلیجی جنگ میں جانی نقصان نہ ہونے کے برابر تھا اور صرف فوجی تنصیبات ہی کو نشانہ بنایا گیاتھا۔ تاہم، سانحۂ نائن الیون کے بعد صورتِ حال بدل گئی اور اب زیادہ تر جنگیں شہری علاقوں ہی میں لڑی جا رہی ہیں، کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق، 2040ء تک دُنیا کی دو تہائی آبادی شہروں ہی میں مقیم ہو گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میگا سٹیز کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور اس عرصے میں ایسے 29شہر وجود میں آ ئے، جن کی آبادی ایک کروڑ نفوس سے بھی زاید ہے۔ ان گنجان آباد شہروں کا نظم و نسق سنبھالنا، حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے کہ یہ بہ ذاتِ خود چھوٹے چھوٹے ممالک کی شکل اختیار کر چُکے ہیں۔ اس ضمن میں کراچی کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے، جس کی آبادی 2کروڑ سے زاید ہے اور یہ مسائل کی آماج گاہ بن چُکا ہے۔ ماہرین کے مطابق، شہروں میں لڑی جانے والی جنگیں اس باعث پیچیدگی اختیار کر جاتی ہیں کہ یہ گلی کُوچوں میں لڑی جاتی ہیں اور اس کے لیے بڑی تعداد میں فوج درکار ہوتی ہے، جو بہ ذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔ پھر جنگ کے دوران املاک کی تباہی سے پورے مُلک کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں عراقی شہر، موصل اور شام میں حلب کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ خیال رہے کہ شام کی جنگ جیتنے کے بعد حلب سمیت دیگر بڑے شامی شہروں کی بحالی بشار الاسد انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، کیوں کہ اس مقصد کے لیے بے تحاشا سرمایہ درکار ہو گا اور ایران و رُوس جیسے شام کے حلیف ممالک اس کی ادائیگی کی سکت نہیں رکھتے کہ اُن کی اپنی معیشت ڈانواں ڈول ہے، جب کہ افغانستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے اور عالمی طاقتیں بھی قریب پھٹکنے کو تیار نہیں۔

آج عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی جنگ کا تصوّر صرف وہی کر سکتا ہے کہ جو خود کُشی پر آمادہ ہو۔ تاہم، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ چین اور رُوس دونوں ہی امریکا کو واحد سُپرپاور تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور یہ دونوں ممالک اپنی اپنی جنگی استعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چین اور رُوس نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، بلکہ ہر اُس مُلک سے تعاون پر بھی آمادہ ہیں کہ جو انہیں اسباب فراہم کر سکے۔ چین و اسرائیل اور رُوس و اسرائیل کے مابین فوجی تعاون کے معاہدے اس کی واضح مثال ہیں۔ گرچہ یہ دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کی نگہبانی کے لیے فوجی طاقت کے استعمال پر آمادہ ہیں، لیکن صرف منتخب علاقوں میں۔ رُوس نے کریمیا اور شام، جب کہ چین نے مشرقی ایشیا کے جزائر کے معاملے میں یہی حکمتِ عملی اپنائی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں میدانِ جنگ میں براہِ راست ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے بغیر ہی جنگ میں مصروف ہیں اور اسی کو ’’ہائبرڈ وار فیئر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ہائبرڈ وار فیئر سے مُراد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی، اقتصادی، سفارتی، جاسوسی اور کسی حد تک مجرمانہ سرگرمیوں کا مشترکہ استعمال ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ چین اور رُوس، امریکا سے براہِ راست جنگ کی خواہش تو نہیں رکھتے، لیکن امریکا کے لیے فتح کو مشکل ترین بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر چند کہ رُوس نے شام اور یوکرین میں اپنی اس حکمتِ عملی کو کام یابی سے استعمال کیا، لیکن اس کی قیمت اسے امریکا اور یورپ کی جانب سے خود پر عاید اقتصادی پابندیوں کی شکل میں چُکانا پڑ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، جوہری ہتھیار ’’دہشت کا توازن‘‘ قائم کرنے میں کام یاب رہے اور یہ سلسلہ رواں صدی کے آخر تک جاری رہے گا۔ امریکا اور رُوس اپنے اپنے طور پر کبھی کبھار ایٹمی حملوں کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ امریکی صدر، ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دیں۔ اسی طرح پیوٹن بھی وقتاً فوقتاً اپنے سب سے بڑے جوہری ذخیرے کا ذکر کرتے رہتے ہیں، حالاں کہ یہ ذخیرہ سوویت یونین کو انتشار سے نہ بچا سکا۔ یاد رہے کہ جوہری ہتھیار کنٹرول کرنے کے وہ معاہدے ایک عرصے سے بحالی کے منتظر ہیں، جن کی وجہ سے سرد جنگ، ایٹمی جنگ میں تبدیل نہ ہو سکی۔

مستقبل کی جنگیں
یوکرینی فوجی ڈرون چلانے کی تربیت حاصل کر رہا ہے

ماہرین کے مطابق، اس وقت عالمی طاقتوں کے درمیان ’’دہشت کا توازن‘‘ برقرار ہے، لیکن رُوس اور چین اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکا ان سے بھی زیادہ جدید جوہری ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا گزشتہ 10برس سے ایسے ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جن کی مدد سے وہ جوہری حملہ کیے بغیر ہی دشمن کے جوہری اثاثوں کو تباہ یا ناکارہ کر دے۔ اس قسم کے نظام کو’’Conventional Prompt Global Strike‘‘کہا جاتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے روایتی بم کو ہائپر سونک رفتار (آواز سے پانچ گُنا زیادہ رفتار) سے ہدف تک اس انداز سے پہنچایا جاتا ہے کہ وہ انتہائی منظّم دفاعی نظام کو بھی ناکارہ بنا دیتا ہے۔ اس سسٹم کے اہداف میں دہشت گرد، ایٹمی تنصیبات، اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار اور دشمن کا کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم شامل ہو سکتا ہے۔ چین اور رُوس کے فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سسٹم سے طاقت کا توازن بُری طرح بگڑ سکتا ہے اور اطلاعات کے مطابق وہ بھی ایسے ہی سسٹمز تیار کر رہے ہیں۔ اس سسٹم میں حملہ آور کی شناخت مشکل اور جوابی کارروائی ناممکن ہو گی۔ ماہرین کے مطابق، جوہری نظام کو تباہ کرنے کا ایک طریقہ ’’قاتل روبوٹس‘‘ بھی ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ گرچہ یہ ابھی ابتدائی شکل میں ہیں، لیکن ڈرونزکی شکل میں ان کی افادیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ روبوٹس صرف ایک بٹن دبانے پر انسانوں کا قتلِ عام کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دان ان کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں اسٹیون ہاکنز جیسے عالمی شُہرت یافتہ سائنٹسٹ بھی شامل تھے۔پھرایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ اس قسم کی ٹیکنالوجی سِول سیکٹر میں بھی ترقّی کر رہی ہے، جس پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں۔ امریکا میں تو پینٹاگون اس ٹیکنالوجی کو اپنے زیرِ انتظام لینے کا منصوبہ بنا چُکا ہے، لیکن باقی ممالک میں ایسا ممکن نہ ہو گا۔ لہٰذا، فی الوقت اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ مستقبل میں جنگوں کے دوران ایسے ہتھیاروں کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے اخلاقی اقدار اور انسانی جانیں ہی ہدف بنتی ہیں اور فتح کے حصول کی خاطر سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا مستقبل کی جنگوں میں ان عوامل پر قابو پانا ممکن ہو گا؟

تازہ ترین