• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ہم سب کسی نہ کسی دھوکے میں، مغالطہ میں، مکروفریب میں، شبہ میں، دغا میں اور غرض کے ہم غلط فہمیوں کے مارے لوگ ہیں،سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں اور بھاگتے ہی رہتے ہیں۔ اسی لئے ہماری آرزوئوں کے قتل ہوتے رہتے ہیں۔ قتل تو ہم سب باطن میں ہوتے رہتے ہیں۔ مغالطے، دھوکے کی اس قتل گاہ میں مقتول بھی بہت ہیں تو قابل بھی بہت سے ہیں۔ کسی ایک کو قاتل نہیں کہا جاسکتا قاتل بھی بہت ہیں۔ دھوکے کی ماری قوم کو آرزو پھیلانے کی عادت ہے۔ آرزو عیب بھی نہیں کہ کسی اچھائی کی توقع کرنا، مگر ہر آرزو کو اگر آرزوئے خام ہو تو کیا ہو۔ ایک عورت اپنی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کر رہی تھی اس سلسلے میں ہر رشتے دار اور دوست احباب کو کہہ سن رکھا تھا کہ مناسب سا بر دکھانا پھر وہ اپنی بیٹی کی تعریف شروع کردیتیں اور تعریف بھی وہ جو عام لوگ سنیں تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں بیٹی کی تعلیم اور سگھڑپن کی تعریف وہ کم کرتیں مگر اسے ساتھ بٹھا کر کہتیں کہ دیکھو میری بیٹی کے بال کتنے خوبصورت ہیں گھنیری زلف جیسے، پھر کہتیں ناک دیکھو کتنی ستواں ہے، آنکھیں بھی دیکھیں کتنی غزالی سی ہیں، ہونٹ تو گویا گلاب کی پنکھڑی ہوئے غرض ہر آئے گئے کے سامنے، پیچھے وہ اسی طرح زمین و آسمان کے قلابے ملادیتیں۔ یعنی عام سی شکل و صورت والی بیٹی کی خوف تشہیر کرتیں کہ دیکھنے والی آنکھ پھر اس میں وہی خوبصورتی ڈھونڈتی جو والدہ محترمہ نے بیان فرمائی تھی لوگ سوچتے کہ آخر اس کی ناک، بالوں میں اور مناسب سی شکل صورت، کہاں ہے خوبصورتی یا کشش؟ مگر اگر کوئی بار بار اپنی یا اپنے کسی کی یا پھر اپنے کاموں کی تعریف کرے تو لوگ مغالطے میں رہتے ہیں اور اس تعریف میں کچھ نہ کچھ خوبصورتی ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ مثال وہی ہے کہ
اس شہر میں جس نے بھی کہا جھوٹ کہا ہے
جو کچھ کوئی سمجھا ہے وہ معیار نہیں ہے
اسی طرح حالیہ حکومت کی طرف سے بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ رات دن کام کررہے ہیں ہماری حکومت نے کام کام اور صرف کام کو ایمان بنالیا ہے۔ بقول عمرانیات پڑھنے والوں کے کہ جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے اپنی فتح کا جشن بھی نہ منایا بلکہ اسی دن سے کام شروع کردیا جبکہ دوسری جماعتیں برسر اقتدار آنے کے بعد کئی دن تک جشن مناتی ہیں۔ عمرانیات والے کچھ بھی کہتے رہیں مگر 90دن یعنی تین ماہ کا حساب انہیں دینا ہوگا۔ کیونکہ جو حکومت بھی زیادہ بلند و بانگ دعوے کرتی ہے لوگ اسی کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں۔ سیاست ایک سربستہ راز ہے اس کو جاننے کے چکر میں عام لوگ چکر کھالیتے ہیں کیونکہ اس میں سیاستدانوں کیطرف سے مغالطے، مکروفریب ہیں اب دیکھئے کام کام کا شور ہے مگر کہنے میں کیا حرج ہے کہتے رہئے عوام تو شروع میں ہی پریشان ہوگئے ہیں بعض فیصلے حکومت وقت کے لوگوں کو پسند نہیں آئے ایک وہ جو افغانیوں کو پاکستانی نیشنلٹی دینے والا اور دوسرا افغانستان سے گندم درآمدکرنے والا، قحط زدہ ملک میں مزید قحط اس دم پڑتا ہے جب اپنے گھر کا اناج کسی دوسرے کو دے دیا جائے۔ ہم مغالطے میں ہیں کہ ہمارے پاس زرعی اجناس بہت زیادہ ہے اگر اتنی ہی ہے تو غریب عوام کا پیٹ بھر کے بوجھ ہلکا کردیا جائے یا پھر تھر کے لوگوں کا بھی احساس کرلیا جائے جہاں چپے چپے اور گلی گلی میں خشک سالی پورے سال ہی رہتی ہے جہاں کے قحط زدہ اور قحط کے مارے آئے روز مرتے ہیں اور مر رہے ہیں۔ شاید اس علاقے کے باسیوں کی ملک و قوم کو ضرورت نہیں تھر کے لوگ مریں یا جئیں ہم نے بس سوچ لیا کہ وہاں بھلے قحط سالی ہو، قحط ہو، قحط الرجال ہو دوسرے علاقوں اور شہروں میں رہنے والوں کو فرق نہیں پڑتا۔ آئے ہائے ! کوئی سیاسی جماعت، کوئی درد دل رکھنے والا لیڈر کوئی تو ان کا درد محسوس کرے آخر رعایا و سلطنت کے حساب کتاب میں وہ بھی آتے ہیں۔ حالیہ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ کے سوئس بنکوں سے رابطے میں ہیں کہ سیاسی لیڈران نے جو دولت جمع کی وہ واپس لاسکیں۔ دولت بھی واپس آجائے اگر سیاستدان بھی لوٹی دولت واپس کردیں پھر بھی کمر عام عوام ہی کی ٹوٹنی ہے یعنی مہنگائی تو ہو کر رہے گی، حالیہ حکومت سے لوگوں کی توقعات مختلف قسم کی تھیں یعنی سب اچھا اچھا ہوگا مر یہ بھی پہلی حکومتوں جیسی ہی ثابت ہورہی ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین نے تو ٹوئٹ بھی کردیا کہ مہنگائی زیادہ محسوس ہو تو 92کے ورلڈکپ کی جھلکیاں دیکھ لیا کریں کیونکہ اسکی وجہ سے خوش فہمی رہے گی آخر عوام دھوکہ کھانے ہی کیلئے رہ گئے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک سٹیج ڈرامے میں مختلف ڈائیلاگ سننے کو ملے۔ دو اداکر آپس میں سیاستدانوں کے بغض سے متعلق بات کررہے تھے کہ ’’اگر کوئی برسراقتدار حکومت سڑکیں بنانے کو سوچتی ہے اور کام بھی کافی مکمل ہوجاتا ہے مگر نئی حکومت آکر وہ تعمیر شدہ عمارتیں اور سڑکیں توڑ دیتی ہے۔‘‘ معلوم نہیں ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کسی پچھلے نے اچھا کام کیوں کیا۔ ملک کا بیشتر خزانہ یعنی قومی دولت کا خسارہ تو اسی توڑ پھوڑ کی نظر ہوجاتاہے ملک کیلئے جتنے بھی تعمیری کام ہوتے ہیں انہیں چلتے رہنے دینا چاہئے۔ ورنہ سیاستدانوں کی لوٹی گئی ملک کی دولت سے زیادہ نقصان تعمیری کاموں کا رک جانا یا اس منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ آجکل تو سی پیک معاہدے پر بھی عمران خان کی حکومت دوبارہ مذاکرات چاہتی ہے کیونکہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ زیادہ سے زیادہ چائنہ کے حق میں ہے اسی لئے اس پر زیادہ سے زیادہ نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ بات ہے کہ ہم نے چائنز لوگوں کو پاکستان میں داخل کرلیا ہے وہ یہاں جائیداد خرید رہے ہیں زیادہ سے زیادہ پھر اسی دھوکے میں ہم ان کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے وہی زمین ہمیں پھر ان سے خریدنی پڑے گی کسی قوم کو کمزور کرنے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے کہ اس ملک کی کافی اراضی خرید لی جائے۔ پہلے تو ہم لوگ چائنز کھانے کے بے حد رسیا تھے دیوانہ وار کھانے جایا کرتے تھے اس وقت بھی یہ لوگ اپنی بلڈنگ خرید کر پھر اس میں ریسٹورنٹ بناتے تھے، اور ہماری قوم جو ہر جھوٹ و فریب میں آجاتی ہے۔
تازہ ترین