• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا، ہٹلر نے خودکشی کرلی، جرمن فوج کا نام و نشان مٹ گیا۔ ملک مشرقی و مغربی جرمنی میں تقسیم ہوگیا۔ 114 چھوٹے بڑے شہر تباہ، 75 لاکھ افراد ہلاک، 70 فی صد عورتیں بیوہ اور 20 فیصد عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہوگئیں ،زراعت 65فیصد کم ہوگئی۔ بجلی بند، صنعتوں کا پہیہ جام، بندر گاہیں غیر متحرک، کرنسی ختم، لوگ بارٹر سسٹم کے تحت چیزیں دے کر چیزیں لینے پر مجبور ہوگئے۔ 1945ء سے 1955ء تک جرمنی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین رہے۔ 1962ء تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والادنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ پاکستان سمیت 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے۔ 60 کی دہائی تک جرمنی کی حالت یہ تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے 10 ہزار ہنر مند مانگے ہم نے انکار کر دیا۔ ترکی نے یہ درخواست قبول کرلی، ترک ہنر مند وہاں پہنچے، جرمنی کی مدد کی، آج جرمنی میں تیس لاکھ سے زائد ترک موجود ہیں اور اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت اور ہمارا کوئی نام و نشان نہیں۔ جرمنی کا جی ڈی پی اور سالانہ برآمدات دنیا کی بڑی معیشتوں کو شرمندہ کررہی ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔ جرمن حکمرانوں نے سادگی اختیار کی۔ وہ بڑے بڑے حکمرانوں کے سامنے بیٹھتے ہیں مگر احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے۔ سادگی ہی کو اپنائے رکھتے ہیں۔

یاد رکھیئے!معیشت کی ترقی و کامیابی کا دارومدار معاشی نظم و ضبط سے ہوتا ہے۔ جرمنی کی ’’سوشل مارکیٹ اکانومی‘‘ سرمایہ داری، سماجی پالیسیوںاور سوشل انشورنس کا مرکب ہے۔ اس نظام میں ایک طرف سرمایہ دارانہ مقابلے کی دوڑ ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ ریاست کو سماجی پالیسیوں میں بہتری کی ترغیب دیتی ہیں۔ جرمنی کی ’’سوشل مارکیٹ اکانومی‘‘ کی جڑیں انیسویں صدی سے جڑی ہیں۔ جرمن آئرن چانسلر نے اس دور میں ایسے قوانین جن میں پنشن کا قانون بھی شامل تھا وضع کئے جن کے تحت پنشن اور ہیلتھ انشورنس کی ماہانہ قسط کا نصف آجر اور نصف کام کرنے والا ادا کرتا ہے۔ ان قوانین کو دوسری جنگ عظیم کے بعد خاندانی امور ، سماجی امداد، اور دیگر کئی شعبوں کی پالیسیوں کا حصہ بنایا گیا ہے اور یہ آج تک رائج ہیں۔ لیبریونینز اور آجرین کے درمیان شراکت داری ہے جس کی وجہ سے جرمنی میں بہت کم ہڑتالیں ہوتی ہیں۔ دانیال کہنے لگا عرفان بھائی کچھ عرصہ قبل جرمن پارلیمنٹ میں یہ بحث شروع ہوئی کہ حکومت جرمنی کی مضبوط اکانومی اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا براہ راست عوام کو فائدہ منتقل کرے اور یہ طے پایا کہ غربت کی کم سے کم حد مقرر کی جائے جس میں عام شہری باآسانی زندگی گزار سکیں۔ یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ہر انسان کو بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق کسی صورت چھینا نہیں جاسکتا۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس رہنے کو چھت ہو، زندگی کی روزمرہ اشیاء اسے میسر ہوں اور صحت مند زندگی کے لئے ہر ہفتے اسے کچھ وقت تفریحی ماحول میں گزارنا چاہئے یعنی اگر وہ چاہے تو گھر کا کرایہ ادا کرنے کے بعد کسی سینما ہال جا کر فلم دیکھے یا کسی تفریحی مقام یا کلب میںوقت گزارے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کم از کم پندرہ سو یورو ماہانہ ہوں تو وہ باآسانی زندگی کی ان سہولتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ حکومت نے اس قانون کی منظوری دے دی اور فوری طور پر بے روزگاروں کے لئے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا گیا اور ساتھ ہی جاب سنٹرز قائم کئے گئے جہاں بے روزگار ایک درخواست دے کرچھ ماہ تک ماہانہ پندرہ سو یورو بے روزگاری الائونس حاصل کرسکتا ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط رکھی گئی کہ بے روزگار شخص ہر ماہ ملازمت کے حصول کے لئے کم از کم تین مختلف مقامات پر درخواستیں ضرور دے اور اگر اس عرصے کے دوران اسے ملازمت مل جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ مزید چھ ماہ کے لئے بے روزگاری الائونس میں توسیع کر دی جاتی ہے حتیّٰ کہ یہ گنجائش بھی رکھی گئی کہ اگر کوئی ملازمت پیشہ شخص ماہانہ پندرہ سو یورو نہیں کماتا تو جو رقم کم پڑتی ہے تووہ باقی رقم سنٹر میں درخواست دے کر وصول کرسکتا ہے۔ خاموشی سے دنیا پر راج کرتی صنعتی ترقی کا اگر راز جاننا ہو تو اس قوم کی جفاکشی اور ٹیکنالوجی پر مہارت بے مثال ہے۔ یہ جرمنوں کی خوبی ہے کہ وہ اپنی ترقی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے، بس اپنے کام کو خوب سے خوب تر کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ اسی جستجو کا نتیجہ ہے کہ کار سازی سے لے کر جہاز سازی تک ، الیکٹرانک سے لے کر انرجی کی صنعت تک ان کا ڈنکا بجتا ہے۔ یہی نہیں دفاعی صنعت میں جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور دفاعی ربوٹیک ٹیکنالوجی میں جرمن دنیا کا نمبر ون ملک قرار دیا جاسکتا ہے۔ wind mill energy کی سب سے بڑی کمپنیوں کا تعلق جرمنی سے ہے۔ heidelbrg, manroland پرنٹنگ مشینوںکا مرکز بھی یہی ملک ہے۔ بیئر پینے میں نمبر ون اور تین سو اقسام کی بیئرز کے برانڈ بنانے میں بھی جرمنی سب سے آگے۔ دنیا کی مشہور ترین کار ساز کمپنی جو کبھی پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوتی تھی۔ اس کی بنیاد جرمن لیبر فنڈ نے 1937ء میں رکھی۔ اس کا محرک نازی ہٹلر بنا۔ آج اس کمپنی کی چھتری تلے دنیا کی مہنگی ترین کار تیار ہوتی ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین کاروں کے برانڈبی ایم ڈبلیو، مرسڈیز اور لیمبرگینی جرمنی کے مشہور ترین برانڈ ہیں۔ آج یہ ملک پورے یورپ کی سب سے مضبوط معیشت کواپنے دامن میں لئے بیٹھا ہے اور یورپی یونین کے پلیٹ فارم پر فرانس، انگلینڈکے اشتراک سے دنیا کے کامیاب

ترین مسافر طیارے ایئر بس تیار کئے جارہے ہیں۔

میں دانیال کی باتیں سن رہا تھا اور ایک خوبصورت پاکستان کی تصویر کشی میرے خیالوں میں تھی کہ کیا میرا پاکستان بھی جرمنی جیسا خوش حال، صنعتی و معاشی طور پر مضبوط ہوگا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جرمنی اور پاکستان کی تاریخ، حالات کا دورانیہ ایک جیسا محسوس ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری حالت بھی جرمنوں جیسی ہی تھی مگر تاریخ کا یہ پہیہ ساٹھ کی دہائی میں ایسا اُلٹا گھوما کہ ہمیں لٹیرے اور آمر حکمران نصیب ہوئے جنہوں نے اس قوم کا بیانیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ہم جہادی کہلائے، کشکول لے کر دردر گھومے، دہشت گرد گردانے گئے، مگر ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کیںاور قومی وسائل کو لوٹ کر سرے محل بنائے، جاتی امرے آباد کئے، بنی گالے بنائے ، قول وفعل کے تضاد نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ سوچوں کے دروازے یہاں آکر بند ہو جاتے ہیں کہ ہم عمران خان کی شکل میں بدقسمت جمہوریت کی شایدآخری قسط دیکھ رہے ہیں اگر عمران ناکام ہوگیا تو پھر اس کے بعد کون؟ دانیال نے میری سوچوں کا دھارا بدلا اور کہنے لگا عرفان بھائی یہ دیکھیں برلن ٹی وی ٹاور 365میٹر اونچا ہے۔ یہ ہٹلر دور میں365 دنوں کی مناسبت سے بنایا گیا ہے۔ میں آپ کو برلن کے تاریخی مقامات اور ان کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہوں۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین