الیکشن کمیشن نے اچھا کیا کہ انتخابی نشانات میں سے لوٹے کا نشان نکال دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوٹے کا نشان نکال دینے سے لوٹا بھی ختم ہو جائے گا؟سیاست سے لیکر طہارت تک لوٹے کی اہمیت سے کون انکار کر سکتااور پھر پاکستان کی سیاست کا مرکزی کردار ہی لوٹا ہے۔ یہ لوٹا کبھی ولن ہے ،کبھی ہیرو تو کبھی مزاحیہ اداکار۔ اگر پاکستانی سیاسی فلم میں سے لوٹے کے کردار کو نکال دیا جائے تو صرف دی اینڈ ہی بچتا ہے۔ یہ واحد فلم ہے جس میں قومی ترانہ کے بعد سے لیکر (To be Continued) تک ایک ہی کردار مختلف شکلیں بدل کر سامنے آتا رہے گا۔ کبھی یہ ہر دل عزیز رہنما ہو گا تو کبھی مضبوط اپوزیشن لیڈر اور کبھی کبھی کسی صوبے کا بڑبولا وزیر۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد اگر پاکستانی سیاست کو حماقت کی عینک اتار کر دیکھیں تو حیرانگی ہمیں مزید حیران کر کے رکھ دے گی۔ مختلف ادوار میں لوٹوں کی صرف قیمتیں بدلیں، لوٹے اپنی جگہ ویسے ہی ہشاش بشاش، تندرست و توانا، کامیاب و کامران رہے ۔ پاکستانی سیاست میں لوٹوں کا کردار بلکہ بھرپور کردار خواجہ ناظم الدین کے دور سے ہی سامنے آگیا تھا اور اس کے بعد اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ادوار میں اس صنعت نے بھرپور ترقی کی۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک دو لوٹوں کی پوری مسلم لیگ رات کو لیگ کا کمبل اوڑھ کر سوئی اور صبح وہ کئی اور پارٹی کے لحاف سے برآمد ہوئیں۔ لوگوں نے پاکستان میں اپنے ضمیر اتنی تیزی سے بدلے جتنی تیزی سے راکیل ویلیج، الزبتھ ٹیلر، جولیا رابرٹس حتیٰ کہ وینا ملک گانوں میں لباس نہیں بدلتیں۔ پاکستان کہ ان تاریخی لوٹوں نے سیاسی ضمیر فروشی کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ ان کے سامنے اہل کوفہ شرما جائیں۔ یہ ضمیر فروش لوٹے آغاز میں سول بیوروکریسی کے ہاں طواف کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ ملٹری بیوروکریسی نے پاکستانی سیاست پر اپنا رنگ جما لیا۔ ایوب خان کے دور میں اس صنعت نے شاندار ترقی کی یہاں تک کہ بابائے قوم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کرادیا گیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمارے نامی گرامی قائدین جو کسی نہ کسی طرح خود سونے چاندی کے لوٹوں کی شکل میں زندگی گزار چکے ہیں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ان کے قول وفعل کے تضاد نے پاکستان کو تباہی کے کس دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی تاریخ کے تمام ہیروز خود کسی نہ کسی شکل میں سیاسی وفاداریاں بدلنے سے خود کو محفوظ نہیں کر سکے۔ چھوٹے موٹے مٹی کے لوٹو ں سے کیا شکوہ خود پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ(ن) اس صنعت سازی سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ انتخابی نشانات کی فہرست سے لوٹا نکال دینے سے جمہوریت وانتخابی عمل باعزت ہو جائے گا لیکن کیا کوئی ایسا قانون بھی بنائے گا جس میں اچکنیں پہنے ، شیروانیاں پہنے، پینٹ کوٹ اور واسکٹ پہنے لوٹو ں کو انتخاب لڑنے سے روکا جا سکے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی ڈھٹائی کی شاید مثال نہ ملے اگر یہ معصوم اور بے ضرر برتن تحریک انصاف کے واش روم میں سجیں تو اس کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) انہیں اپنے سینے سے لگائے تو وہ جمہوری عمل ،عمران کے پاس جائیں اور وہ لوٹے واپس آجائیں تو مسلم لیگ (ن) کے پاپولر ہونے کی علامت۔ آپ چاہے ان لوٹوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں لیکن ان لوٹوں نے ہر دور میں عزت پائی۔ چند ٹکے کے اس برتن نے کروڑوں روپے اپنی قیمت لگائی اور پائی۔ ان کے لئے چھانگا مانگا سجائے گئے،کلرکہار کے ریسٹ ہاؤس اور مری کے گیسٹ ہاؤس ان کی خدمت کے لئے آراستہ کئے گئے اور وہاں ان کو اُن کے مزاج اور ذوق کے مطابق ”کھیلنے کی تمام اشیاء“ پہنچائی گئیں اور قوم کی آنکھوں کے سامنے لوٹوں کے پورے کے پورے کارخانوں کی قیمتیں لگیں۔ سلام ہے پاکستانی قوم کو جس کا حافظہ اس کے مثانے سے بھی کمزور ہے ۔ پاکستان میں لوٹا کریسی کو بام عروج تک پہنچانے والے آج جمہوریت کے عظیم علمبردار ہیں۔ اس بیچاری مخلوق جسے ہم احتیاطاً قوم بھی کہہ لیتے ہیں پر پابندی ہے کہ وہ یہ کبھی نہ سوچے کہ یونینسٹ پارٹی کس نے بنائی مسلم لیگ ،فنکشنل لیگ، یہ لیگ وہ لیگ فلاں لیگ بنائی۔ کون فیلڈ مارشل کو ڈیڈی کہتا رہا، کون جونیجو کو اپنا عظیم قائد قرار دیتا رہا۔ کون خود کو ضیاء الحق کا روحانی بیٹا قرار دیتا رہا۔ کون جنرل مشرف کو تاعمر صدر بنانے کی معصوم خواہش کا اظہار کرتا رہا ۔ کون بینظیر کے قاتل چوہدری برادران کو قرار دیتا رہا۔ کون ایم کیو ایم کے خلاف کیسز برطانیہ لے جانے کا اعلان کرتا رہا۔ قوم کو ایسی باتوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے کیونکہ اس سے اس کا ہاضمہ خراب ہونے کا امکان ہے ۔ ویسے بھی ”گندا ہے پر دھندہ ہے یہ“ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ انڈر ورلڈ میں ایک جملہ مشہور ہے کہ بے ایمانی کے کاموں میں بے ایمانی نہیں کرنی چاہئے۔ کوئی اس پر عمل کرے نہ کرے سیاست دان ٹھوک بجا کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ جس خوبصورتی سے ہمارے سیاست دان ، ہمارے عظیم رہنما اپنے موقف تبدیل کرتے ہیں اس پر انہیں سلام ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ حیرت ہے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی لگانے والے آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا اعلان کرنے والے ضیاء الحق کے ساتھی ان کے منہ بولے بیٹے آج مشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چلتے چلتے الیکشن کمیشن نے ایک اور عظیم کام کر دیا ہے کہ اس نے انتخابی نشانات میں سے بلی کا نشان بھی نکال دیا ہے ۔ اچھی بات ہے جب شیر اور بلی ایک سے لگنے لگیں تو عوام بھی کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مشغلہ کنفیوژن ہے اور اسی کنفیوژن کا فائدہ بھیڑیئے، لکڑبھگے اور کچھ ایسے جانور( جن کا یہاں نام لکھنے سے خود جانور مجھ سے ناراض ہو سکتے ہیں)۔ سب نے شیر کی کھال پہن کر شیر بننے سے انکار کر دیا ہے اور یہ دنیا کے واحد شیر ہیں جو کبھی جی ایچ کیو کی سائیکل کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں کبھی مشکل پڑے تو کسی شرمندگی کے بغیر ہلکی سی میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں۔ اچھا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کے جنگل میں شیر کو آزادانہ موقع دیا ۔ یہ جنگل شیروں ، چیتوں ، کتوں ، بھیٹروں، طاقت کے نشے میں جھومتے مست ہاتھیوں، عیار لومڑیوں اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ مارتے بندروں کا مسکن ہے اور اس جنگل میں عوام نامی ”بھنڈی ، توریوں“ کا کیا کام؟ سو اچھا کیا کہ الیکشن کمیشن نے بھنڈی توری کو بھی نکال دیا۔ جس ملک میں پچھلے64سالوں سے شیروں کا راج ہو، مٹی کے غلیظ لوٹے سونے کی قیمت میں بکیں ان کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہ ہو انہیں ان کی اصل منزل بیت الخلاء تک پہنچانے والانہ ہو تو پھر وہاں عوام کی حیثیت بھنڈی توری کی ہی رہ جاتی ہے۔ جسے کھانے میں لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں نہ خریدنے میں۔ لیکن فنا کا عمل کبھی نہیں رکتا، لوٹا چاہے ہیرے کا ہی کیوں نہ ہوں اس کی ایک مخصوص اوقات ہے۔ جانور چاہے شیر ہی کیوں نہ ہو اس نے ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے فیصلہ اس نے کرنا ہوتا ہے کہ اصل شیر کون تھے اور کون شیر کے بھیس میں ”گھس بیٹھیا “ہے۔ عوام کی یادداشت چاہے کمزور ہو تاریخ کی یادداشت کمزور نہیں ہوتی۔ تاریخ کے فیصلے کا انتظار کر لینا چاہئے۔