• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پیشتر میں نے اپنے ایک کالم میں تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود سے متعلق امور پر تبصرہ کیا تھا۔ مقصد اس کا صرف یہ تھا کہ ملکی ترقی کے اس اہم شعبے کے بارے میں متعلقہ افسران اور اداروں کی توجہ مبذول کرا سکوں کیونکہ ان کی عدم توجہ کی وجہ سے ہمارے طلباء و طالبا ت کا مستقبل سخت خطرے میں ہے اور تاریک ہورہا ہے اور وہ غلط کاموں مثلاً دہشت گردی، اخلاقی گراوٹ، منشیات اور سب سے بڑھ کر بے اعتمادی کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے متعلقہ قومی ادارے اپنا فریضہ صحیح طور پر انجام نہیں دے رہے اور حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ مشرف کے دور میں جہاں پاکستان کے وقار کو بین الاقوامی سطح پر خاک میں ملا دیا گیا وہیں قومی اہم اداروں کو کمزور کرنے کا ناقابل معافی کارنامہ ایک سوچی سمجھی گندی اسکیم کے ذریعے سرانجام پایا۔ موجودہ جمہوری حکومت نے مشرف کو بھی مات دے دی ہے۔ ان بڑے اہم اداروں میں ایف آئی اے، پی آئی اے، پولیس، اسٹیل ملز، ریلوے، واپڈا اور سرکاری اسپتال شامل ہیں۔ان تمام اداروں پر اخبارات، ٹی وی پروگراموں،اخبارات کے کالموں میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور حکمرانوں کی توجہ ان کے مسائل پر مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے مگر بے سود۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ میں اس کالم میں صحت اور نوجوان ڈاکٹروں کے مسائل پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صحت کے معاملے میں غفلت جان لیوا ثابت ہوتی ہے مگر جب تک نوجوان ڈاکٹر سڑکوں پر نہ آئے اور ہڑتال نہیں کی کسی نے ان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنیکی کوشش نہیں کی اور حقیقت تو یہ ہے کہ تمام ہڑتالوں اور سڑکوں پر آنے کے باوجود ان نوجواں ڈاکٹروں کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی اب تک کوشش نہیں کی گئی۔
چند ماہ پیشتر میں اپنے نہایت عزیز دوست اور ملک کے مایہ ناز معالج اور پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج ڈاکٹر جاوید اکرم کی دعوت پر مہمان خصوصی کے طور پر کانووکیشن میں شرکت کرنے لاہور گیا۔ راستے میں دیکھا کہ نوجوان ڈاکٹر سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں اور فرائض منصبی ادا نہیں کررہے ۔ کانووکیشن کی صدارت دوسرے عزیز دوست اور ملک کے مایہ ناز ماہر نفسیات ڈاکٹر ملک مبشر کررہے تھے۔ تقریب کے خاتمے پر ڈاکٹر مبشر نے تمام نئے ڈاکٹروں سے حلف لیا۔ اس حلف نامہ میں تقریباً 12 سے زیادہ نقاط تھے۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس حلف کو اٹھانے کے بعد ڈاکٹروں کو تو فرشتہ ہوجانا چاہئے مگر جو کچھ میں نے باہر دیکھا وہ اس کے بالکل برخلاف تھا۔ میں نے ڈاکٹروں کو مشورہ دیا کہ ان کا پیشہ ان کو ہڑتال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس ہڑتال سے 95 فیصد غریب بیمار متاثر ہوتے ہیں ، پیسے والے بآسانی پرائیویٹ اسپتال و کلینک چلے جاتے ہیں اسی طرح ایمرجنسی میں بمشکل ایک فیصد مریض آتے ہیں اور 99 فیصد OPD میں آتے ہیں۔ OPD بند کرنے سے غریب مریض سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ میں نے مشورہ دیا کہ ان کے رہنما PMDC کے افسران سے مل کر اپنے جائز مطالبات حکومت کو پہنچائیں اور صبر کا مظاہرہ کریں۔ ہڑتال کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ میرے مشورہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور چند دن کے وقفے سے پھر پورے پنجاب میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چند دن پیشتر لاہور سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) کے چار لیڈران لاہور سے مجھ سے ملنے آئے۔ ہماری دو گھنٹہ سے زیادہ ملاقات رہی اور میں نے ان کی تمام شکایات نہایت صبر و تحمل سے سنیں۔ مجھے احساس ہوا کہ ان نوجوان ڈاکٹروں کے مسائل کو جس طرح حکومت اور میڈیا نے عوام کے سامنے پیش کیا وہ حقائق سے مختلف تھا۔ پچھلے تقریباً 2 سال سے جاری ان کی اس جدوجہد میں ان کی صحیح غماضی نہیں کی گئی۔
مجھے بتایا گیا کہ ہیلتھ ریفارمز کے نام پر حکومت آہستہ آہستہ صحت کا فی کس بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کررہی ہے۔ بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کرنے کی وجہ سے اسپتالوں میں اکثر ادویات اور آلات کا فقدان ہے اور اچھے تجربہ کار اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز میسر نہیں ہیں اور اکثر جگہوں پر اسپتال ہی نہیں ہیں۔ ویسے تو حکومت بجٹ کی کمی کارونا روتی ہے لیکن وزرا، سرکاری افسران اور اسمبلیوں کے ممبران کو فوراً غیر ممالک بھجوا کر کروڑوں روپے صرف کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے ملالہ کی مثال دی اور کہا کہ اس سے زیادہ مستحق مریضوں کو دوائیں تک نصیب نہیں ہیں۔ ان ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں باقاعدہ سروس اسٹرکچر دیا جائے تاکہ ہر طرح کی بیماری کا اندرون ملک ہی علاج کیا جاسکے اور وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر تندہی اور لگن سے اپنے فرائض منصبی ادا کریں اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بہتر کرسکیں۔ انہھوں نے بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صحت جیسی بنیادی ضرورت پر کل بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ اس بنیادی مسئلے کی نشاندہی نہ ہی حکمراں کرتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کرتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن والے۔ اسپتالوں کی کمی، اسپتالوں میں ادویات کی غیرموجودگی، ڈاکٹروں کو نوکریاں نہ ملنا وغیرہ کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ 100 روپے کے بجٹ میں سے47 روپے قرضوں کے سود کی ادائیگی،26 روپے افواج پاکستان پر،17 روپے وزیروں کی افواج پر، ممبران اسمبلیاں اور افسر شاہی پر خرچ ہوتے ہیں باقی جو 10 روپے بچتے ہیں ان کو بجلی، تعلیم،ریلوے اور دوسرے لاتعداد محکموں پر خرچ کیا جاتا ہے اور انہی 10روپوں میں سے ان محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا ہوتی ہیں بلکہ کرپشن کے تمام لین دین بھی انہی10روپوں میں سے ہوتے ہیں۔ اس طرح صحت کے شعبے میں ایک فیصد سے بھی کم رقم میسر ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 100 سال پیشتر انگریز کے دور میں بھی عوام پر خرچ ہونے والی رقم کا صرف 10 فیصد ہی ہوتا تھا اور آج بھی وہی تناسب ہے۔ صحت کی طرح تعلیم اور توانائی کے شعبوں کی بھی کچھ یہی حالت ہے۔
ان تمام مسائل کی اصل وجہ یہ ہے کہ تقریباً 1990ء کی دہائی سے ورلڈ بینک کی سفارشات کے عین مطابق پاکستان کے بڑے بڑے اہم اداروں جیسے واپڈا، ریلوے، مواصلات اور اسپتالوں کو نجی شعبوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے اور ایک عیارانہ مرحلہ وار پالیسی کے تحت اسپتالوں اور واپڈا جیسے اہم اداروں کے کام کو نام نہاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے چلانے کا کام جاری ہے۔ ان بورڈز میں صنعت کار، اساتذہ، این جی اوز کے نمائندے، شعرا، ادیب اور گلوکاروں سمیت غیرمتعلقہ اور غیرتجربہ کار لوگوں کو بھر دیا گیا ہے۔ کہا تو یہ گیا ہے کہ اداروں کو خودمختاری دی گئی ہے لیکن اصل میں ان اداروں کو خود کماؤ، خودکھاؤ کی پالیسی پر مجبور کیا گیا ہے گویا حکومت نے صحت اور توانائی کے شعبوں کو رقم فراہم کرنے میں آہستہ آہستہ کمی کرنا شروع کردی ہے اور اس گندی پالیسی کو ورلڈ بینک کی جانب سے اصلاحات (Reforms) کا لازمی حصہ قرار دے دیا ہے اور یوں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کھچڑی اور ماہرین کی کمی اور بجٹ کی کمی کے باعث ان اداروں کی غیر اطمینان بخش کارکردگی کا پوری قوت سے پروپیگنڈہ کرکے عوام کے دلوں میں ان کی وقعت کم کرکے اپنا مقصد حاصل کرنے میں سہولت حاصل کرنا ہے۔ ہمارے یہاں پہلے سے ہی نجکاری کا عمل جاری ہے اور اس میں رشوت ستانی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی نتیجہ یہ نکلے گا (بلکہ نکل رہا ہے) کہ عوام کو بنیادی ضرورت انتہائی مہنگے داموں پر مل رہی ہیں اور اب صرف اصحاب استعداد ہی گیس، بجلی، اچھے علاج کی عیاشی کے متحمل ہورہے ہیں۔ ایک اسلامی فلاحی حکومت کا فرض ہے کہ امن و امان اور حفاظت کے علاوہ بنیادی ضروریات مثلاً روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار بھی اپنے عوام کو مہیا کرے۔ دیکھئے 20 ،25 سال پیشتر یہ ادارے حکومتی سرپرستی میں کام کر رہے تھے لیکن کرپشن کا رونا روتے ہوئے انہیں نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا اور سب جانتے ہیں (عوام کو کبھی بیوقوف مت جانو) کہ پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا کی بجلی پیداکرنے اور اس کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے کس نے بے حد فائدہ اٹھایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان اداروں میں رشوت ستانی کا سختی سے سر کچل دیا جاتا مگر حکومت نے ان اداروں کو مکمل برباد کرنے میں بے حد پھرتی دکھائی اور بجائے انڈے کھانے کے مرغی کو ہی ذبح کرکے کھا گئے۔ ایسی حکومت اور قیادت جو عوام کی بنیادی ضروریات کا فرض ادا نہ کرسکے اسے اخلاقی طور پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ غرباء کو علاج کے لئے نجی شعبے کے بے رحم ہاتھوں میں دینا اور صنعت و حرفت کو انتہائی مہنگی بجلی اور تعلیم کے لئے انتہائی کم بجٹ مختص کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اداروں کی بقاء سے ملکی بقاء وابستہ ہوتی ہے اور ان کی کمزوری سے ملک کمزور ہوجاتا ہے ۔ جب عوام کی ضروریات اور حفاظت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو عوام پھر حکمرانوں کی گردن میں پھندا ڈالنے میں حق بجانب ہوں گے۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہوگیا ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان اور باغیرت و محنتی افراد آئندہ الیکشن میں اپنا اہم فریضہ ادا کریں اور اچھے، قابل، ایماندار، دیندار اور تجربہ کار پڑھے لکھے امیدواروں کو سامنے لائیں، انہیں منتخب کریں اور اس پیارے ملک کو تباہی سے بچا کر امن و ترقی کی راہ پر ڈال دیں۔
نوجوان ڈاکٹروں کو یہی مشورہ ہے حکومت سے لڑیں مگر بیمار لوگوں کا علاج کرنے سے گریز نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے گا۔آپ کے پیشے میں ہڑتال کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔
تازہ ترین