عالمی اُفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کشمکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنہیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کردینے، صفحہٴ ہستی سے مٹادینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ امریکہ کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے جس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جرأت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔14نومبر2012ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں80 سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمدجعبری کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F-16 کے ذریعے غزہ پر تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آٹھ دن تک جاری رہا۔ اس اثنا میں اسرائیل نے 1500/اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو22دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔ ان آٹھ دنوں میں غزہ میں 163/افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیرسرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پُل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، اسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب 31.1 اور مالی نقصان کا تناسب 100.1 تھا۔
اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ ”اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا“۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہورہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔ فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہوجائیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیئے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی رائے بھی پیش کردیں تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمائندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی 14نومبر2012ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ ”کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس کی توقع کی جارہی تھی“۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی دانشور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری اخبار کاؤنٹر پنچ (16-18 نومبر 2012ء ) میں لکھتا ہے: اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔غزہ کی پٹی پر تنازعات کا ’آغاز‘ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ اور اس کے بعد ایک اور غیرضروری جنگ۔دی گارڈین لندن کا ایک اور مشہور کالم نگار سیوماس ملن اس راز کو، اگر اسے راز کہا جائے تو بالکل فاش کردیتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے دعوے دھوکے اور چوری اور سینہ زوری کی مثال ہیں۔مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اُکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیشتر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر آپس کا جھگڑا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لئے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گزشتہ اکتوبر میں 15 فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک 13سالہ بچے کوقتل کرنے اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لئے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کردیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملیاسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے اور حماس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کردیا جائیاور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو1948ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لئے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں بشمول فوجی مزاحمت کے(لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدوں پر اس کا کنٹرول ہے ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاددہانی سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہرموقع پر ایسا ہی خونیں ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ دسمبر2008ء- جنوری 2009ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات 22 جنوری 2013ء کو طے ہیں۔اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لئے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے”اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے“۔(اٰل عمرٰن ۳:۴۵)