سری نگر سے ہجرت کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ جہلم تھا اور گھر بھی بالکل دریائے جہلم کے کنارے یعنی بالکل ہی ایک سڑک چھوڑ کر سرخ اینٹوں والی ایک پکی گلی تھی۔ شاید وہ پورا علاقہ ہی ہندوؤں کا تھا کیونکہ اس میں بیشتر لوگ ہمارے جیسے مہاجرین ہی تھے اور جانے والوں کے آثار ابھی تک باقی تھے۔ گلی کے نکڑ پر بڑے سے پیپل کے درخت کے نیچے ایک پکی قبر تھی جس پر منتوں مرادوں کے چڑھائے ہار پھول، جلائے گئے دیے اور کچھ رنگین کترنیں اور دھاگے اب بھی موجود تھے۔ یہ قبر، ہمارا گھر اور تقریباً سارے ہی گھر شاید دریا کی متوقع طغیانی کے خیال سے کافی اونچائی پر بنائے گئے تھے اور آپ کو اپنے گھر میں داخل ہونے کے لئے ایک چبوترے کے دونوں طرف بنی چھ سات سیڑھیوں سے چڑھ کر اندر جانا پڑتا تھا۔
گھروں کے باہر ایسے چبوترے بعد میں، میں نے پرانے لاہور اور راولپنڈی کے کچھ علاقوں میں بھی دیکھے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ہندو آبادی کی اکثریت تھی۔ سنا ہے یہ چبوترے ایک طرح سے خواتین کے گیٹ ٹو گیدر کا سامان مہیا کرتے تھے۔ شام گئے یا سردیوں میں دھوپ کے اوقات میں خواتین اپنے اپنے چھوٹے موٹے کام لے کر ان چبوتروں پر براجمان ہو جاتی تھیں اور اڑوس پڑوس سے دنیا جہاں کی خبریں لیتی اور دیتی تھیں۔ یوں بھی پرانے علاقوں کے گھر اتنے قریب قریب اور جڑے ہوئے تھے کہ ایک گھر کی آواز دوسرے گر میں آسانی سے سنی جا سکتی تھی۔ اس لئے لوگ ایک دوسرے کے ہر معاملے سے باخبر رہتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ پرائیویسی نام کی کوئی چیز ان کے درمیان نہیں تھی۔ کس گھر میں میاں نے بیوی کو دھنک ڈالا یا کس بہو نے اپنی ساس کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور کس کی بیٹی پڑوسی سے آنکھ مٹکّا کرتی ہوئی پکڑی گئی۔ ان باتوں کی خبر گھر والوں سے پہلے محلے والوں کو ہوتی تھی۔پرائیویسی یعنی نجی اور ذاتی معاملات کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کا تصور دراصل تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ ہی پروان چڑھا ہے یعنی جیسے جیسے لوگ تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتے گئے انہیں لگا کر اپنے اپنے معاملات کو اپنے گھر کے اندر یا اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہئے اور ذاتی زندگی کو بیچ چوراہے میں بیٹھ کر موضوع گفتگو نہیں بنانا چاہئے بلکہ کچھ گھرانوں میں یا کچھ تہذیب یافتہ ملکوں میں تو گھر کے اندر بھی ہر فرد کی ایک اپنی بالکل پرائیویٹ زندگی ہوتی ہے۔ جس میں گھر کے دوسرے افراد کوئی داخل اندازی نہیں کرتے بلکہ یہ ایک فرد کا بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ بحیثیت ایک فرد، ماں، باپ، اولاد، بہن بھائی یا میاں بیوی، سب اپنے اپنے گرد سیتا کی طرح ایک حفاظتی دائرہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جسے آج کے دور میں اسپیس (SPACE) کا نام دیا جاتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں آپ کو بغیر اجازت دخل دینا منع ہے۔
شاید ایک حد تک، عزت نفس کے لئے یہ حفاظتی دائرہ ضروری بھی ہے لیکن انسان بھی عجب تضاد کا شکار چیز ہے۔ بہت کوشش سے اپنے لئے حفاظتی دائرے تخلیق کرنے کے بعد اچانک ہی اپنی ناسمجھی یا بے قوفی میں وہ ایک بار پھر سے اپنے ذاتی معاملات کو بھرے بازار میں لے آیا ہے۔ میرا اشارہ آج کے دور کی سوشل نیٹ ورکنگ کی طرف ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر اور اس طرح کے دوسرے سارے ذریعے مجھے تو اپنی ذاتی زندگی کو بیچ بازار میں لانے والی بات ہی لگتی ہے۔ تہذیب کی ترقی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں در آنے والی تنہائی کے مقابلے میں سوشل نیٹ ورکنگ یا سوشل میڈیا نے یقیناً بڑا مثبت رول ادا کیا ہے لیکن میرے جیسے پرانی جنریشن کے لوگ ہمیشہ سے اتنے کھلے عام اظہار پر اندر سے خوفزدہ ہی تھے اور یہ خدشات کتنے صحیح تھے اس کا اندازہ آپ کو حال میں انڈیا میں بال ٹھاکرے کے حوالے سے دو لڑکیوں اور ان کے عزیزوں پر گزرنے والے حالات سے ہو ہی گیاہوگا۔ بہت معصومیت اور بے خیالی میں فیس بک پر کئے گئے تبصرے پر کسی کا یہ حشر بھی ہو سکتا ہے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا لیکن سوچنے کا موقع تو امریکی سی آئی اے چیف کی زندگی میں بھی نہیں آیا ہوگا کہ محض ذاتی ای میل کے ذریعے ان کی ذاتی زندگی کی ہانڈی اس طرح چوراہے پر پھوٹے گی کہ انہیں اپنے منصب سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
یوں کہنے کو آپ کے پاس بہت سے حفاظتی اقدامات ہیں۔ ای میل ڈیلیٹ کی جا سکتی ہیں، موبائل پر موصول ہونے والے پیغامات بھی ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں سے ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ عام لوگ ایسا نہ بھی کر سکیں تو بھی ٹیکنالوجی کے ماہرین جو سیٹلائٹ کی مدد سے ایک انسان کی معمولی سے معمولی حرکت کو بھی نظر میں رکھ سکتے ہیں، ان کے لئے برقی تاروں کی مدد سے ادھرادھر بھیجے گئے پیغامات کو ڈھونڈ لینا کونسا مشکل ہے۔
مقولہ ہے کہ منہ سے نکلی بات پرائی ہوگئی پھر اس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا دوسرے جیسے چاہیں اسے استعمال کریں۔ کچھ یہی حال اب برقی پیغام رسانی کا بھی ہے۔ آپ نے تو محض اپنے دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لئے اور کچھ وقت گزاری کے لئے جو مرضی انٹ شنٹ بَک دیا۔ اب ان دوستوں کے دوست یا ان کے دوست یا پھر کوئی دوسری ایجنسی اپنے مطلب کے لئے آپ کی کہی گئی بات کو کیسے استعمال کرتی ہے اس کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ کی ہر بات کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں ضرور محفوظ رہتا ہے۔ میرا مطلب آپ کی اس گفتگو سے ہے جو آپ اپنے موبائل یا لینڈ لائن پر دوسروں سے کرتے ہیں وہ پیغامات جو آپ دن رات دوسروں کو بھیجتے اور وصول کرتے ہیں اور انٹرنیٹ پر جہاں جہاں آپ رابطے میں رہتے ہیں بلکہ کن کن ویب سائٹس پر آپ کلک کرتے ہیں ان سب کا ریکارڈ بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔