• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ماہ کے آخر میںبرازیل میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 4برسوں کے دوران برازیل کا جو حشرہوا ہے، اُس نے وہ سارے سپنے خراب کردیے ، جو لاطینی امریکا کے اس اہم مُلک کی ترقّی سے متعلق اس کے رہنمائوں اور عوام نے دیکھے تھے ۔ گرچہ برازیل ’’برکس ترقیاتی بینک‘‘ کا حصّہ ہے، لیکن صرف برائے نام ہی، کیوں کہ آج اس کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور مُلک کے تقریباًتمام ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چُکے ہیں۔ نتیجتاً، برازیلین عوام بدحالی کا شکار ہیں۔ مُلک میں روزگار کے مواقع مفقود اور افراطِ زر انتہا پر پہنچ چُکا ہے۔ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ یہ سب برازیلین رہنمائوں ہی کا کیا دھرا ہے۔ برازیلین رہنما بڑے بڑے دعوے تو کرتے رہے، لیکن زمینی حقائق اُن کی نگاہوں سے اوجھل رہے، جس کے نتیجے میں آج برازیل عالمی اقتصادیات میں کوئی مقام نہیں رکھتا۔ سو، مُلکی معیشت کو بُحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرضے لینے سمیت دیگر آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔ آج کرپشن برازیل کا سب سے بڑا مسئلہ بن چُکا ہے اور شاید ہی کوئی سیاسی و انتظامی شخصیت بدعنوانی کے الزامات سے پاک ہو۔ مختلف اداروں کی جانب سے کرپشن کے اسکینڈلز عام ہیں، لیکن اس مسئلے کا حل کسی کے پاس نہیں۔ معیشت کی تباہی کا سب سے خوف ناک نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ برازیل میں امن و امان مفقود ہو گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے صرف 5برس پہلے یہاں غیر مُلکی سیّاحوں کا رش لگا رہتا تھا اور یہیں ورلڈ کپ فُٹ بال جیسا اہم عالمی ایونٹ منعقد ہوا، لیکن آج دُنیا کے 20پرُ تشدّد اور غیر محفوظ شہروں میں سے 7برازیل میں ہیں۔ نیز،صدارتی انتخاب میں حصّہ لینے والے ایک مقبول رہنما چاقو کے وار سے زخمی ہونے کے بعد اسپتال میں زیرِ علاج رہے اور وہیں سے اپنی ا نتخابی مُہم چلائی۔

برازیل: روایتی سیاست داں انتخابی دوڑ سے باہر
برازیل کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار

برازیل میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابات آیندہ 4برس کے لیے مُلک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ ان انتخابات میں دونوں ایوانوں کے 700نمایندے منتخب ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی صدر کا براہِ راست انتخاب بھی ہو گا۔ واضح رہے کہ برازیل میں صدارتی نظامِ جمہوریت رائج ہے اور فرانس کی طرز پر صدارت ہی فیصلہ کُن اور طاقت وَر ترین عُہدہ ہوتا ہے۔ تاہم، ایوانِ نمایندگان کے پاس بجٹ سمیت بعض دیگر معاملات میں بہت سے اختیارات ہوتے ہیں اور وہ صدر کا مواخذہ بھی کر سکتے ہیں۔ آج سے 4برس قبل صدر منتخب ہونے والی، جیلیما روزوف کو مواخذے ہی کے نتیجے میں عہدۂ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور اُس وقت سے شروع ہونے والا سیاسی و معاشی بُحران آج تک جاری ہے۔ اب تک3برازیلین صدور مواخذے کی زد میں آ چُکے ہیں۔ گرچہ جیلیما روزوف پر کرپشن کے الزامات عاید تھے، لیکن وہ براہِ راست بدعنوانی میں ملوّث نہیں تھیں۔ وہ 2014ء میں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئی تھیں اور ان کے پہلے دَورِ صدارت کو ترقّی کے لحاظ سے برازیل کا مثالی دَور قرار دیا جاتا ہے۔ اسی زمانے ہی میں برازیل برکس میں شامل ہوا تھا اور اسے دُنیا کی تیز رفتاری سے اُبھرتی معیشتوں میں سے ایک معیشت کا اعزاز بھی ملا تھا۔ نیز، برازیل میں ورلڈ کپ فُٹ بال بھی اُسی دَور میں ہوا، لیکن اپنے دوسرے دَورِ صدارت کی ابتدا ہی سے جیلیما کو اپوزیشن کے جانب سے کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہو کر بغاوت پر اُتر آئی۔ نتیجتاً، خاتون صدر کے خلاف ایوانِ نمایندگان میں مواخذے کی کارروائی شروع ہو گئی۔ ابتدا میں جیلیما اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتی رہیں، لیکن جب اُن کی اپنی جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے نائب صدر، مائیکل ٹیمر نے اس بغاوت کی کمان سنبھالی، تو ان کے پاس عہدۂ صدارت چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچا، لیکن اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ صدر بننے کے بعد مائیکل ٹیمر بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں آگئے اور انہیں بھی عہدۂ صدرات سے ہٹا دیا گیا۔ صدارت سے معزولی کے بعد وہ بڑی مشکل سے قید سے بچ سکے کہ ان کے بعد بننے والے صدر نے انہیں معافی دے دی۔ جیلیما روزوف سے قبل صدر رہنے والے لولا ڈی سلوا ہی درحقیقت برازیل کی موجودہ اقتصادی ترقّی کے معمار ہیں، جو جیلیما کی ورکرز پارٹی کے صدر بھی تھے۔ وہ دو مرتبہ برازیل کے صدر رہے اور انہی کے دَور میں برازیل کی موجودہ اقتصادی پالیسی کے خدوخال تیار کیے گئے، جس نے برازیل کو دُنیا کے معاشی نقشے پر اہم مقام عطا کیا۔ تاہم، اب وہ بھی کرپشن کے الزامات کے نتیجے میں قید ہیں۔ ڈی سلوا نے اکتوبر میں ہونے والے الیکشن میں حصّہ لینے کا اعلان کیا تھا اور انتخابی مُہم بھی چلائی تھی، لیکن انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب ان کی پارٹی کے نام زد کردہ، فرنینڈو ہداد صدارتی امیدوار ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو اس وقت برازیل کے تمام تجربہ کار سیاست دان اور حُکم راں الیکشن میں حصّہ نہیں لے رہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہر پارٹی کی ’’بی ٹیم‘‘ ہی انتخابی میدان میں سرگرمِ عمل ہے۔

دوسری جانب برازیل میں ہونے والے انتخابات میں ایک نئے اور منفرد صدارتی امیدوار شامل ہو چُکے ہیں، جن کا نام ہے،جیئر بولسانارو۔ وہ خود کو عوام کے سامنے مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا بولسانارو کو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، فلپائنی صدر، دوارتو اور اطالوی صدر، سلووینی کی طرح دائیں بازو کے پاپولسٹ اور قوم پرست لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ مغربی میڈیا کا ماننا ہے کہ مُلک کی تباہ حال معیشت ایسے رہنمائوں کو اقتدار میں آنے کے زبردست مواقع فراہم کرتی ہے کہ وہ سابق حُکم رانوں پر کرپشن کے الزمات لگا کر عوام کی ہم دردیاں حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ ان سب کا نعرہ ‘‘تبدیلی‘‘ اور ’’سب سے پہلے اپنا مُلک‘‘ ہوتا ہے، حالاں کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو خود بھی نہیں پتا ہوتا کہ اس کا مطلب کیا ہے اور اس ہدف کو کس طرح حاصل کیا جائے گا۔ بولسا نارا نے ’’لاوا جاٹو‘‘ یا کار واش نامی اسکینڈل سے، جس نے پورے برازیلی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، بہت فائدہ اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ سارے روایتی سیاست دان کرپٹ ہیں اور ان کے علاوہ کوئی بھی قابلِ اعتبار نہیں اور نہ ہی کوئی اور رہنما مُلک چلا سکتا ہے۔ بولسا نارا کو جیلما، ٹیمر اور ڈی سلوا کی سزا سے کافی تقویّت ملی اور وہ ان کی کرپشن کی مثالیں پیش کر کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے برازیلین عوام کے دِلوں میں سابق صدور کے خلاف نفرت کو اس قدر اُبھارا کہ پورے مُلک میں اُن کی کرپشن کا چرچا ہے اور عوام اُن کے زمانے میں ہونے والی ترقی کو فراموش کر چُکے ہیں۔ کسی کو یہ تک یاد نہیں کہ ٓاخر برازیل جیسے پس ماندہ مُلک نے ترقّی کا سفر کیسے طے کیا اور ہر شخص معروضی حقائق نظر انداز کرتے ہوئے بولسانارو کے دکھائے گئے خوابوں میں گم ہے۔ کوئی فرد یہ نہیں سوچتا کہ اگر لیڈرز کرپٹ ہیں، تو اس میں عوام کا بھی قصور ہے۔ آخر وہ بھی تو ان کی پالیسیز پر عمل کرتے رہے اور فواید بھی سمیٹتے رہے۔ اندازوں کے مطابق، بولسانارو کی مقبولیت 28فی صد تک جا پہنچی ہے، جو انہیں صفِ اوّل کا صدارتی امیدوار بناتی ہے۔ تاہم، وہ اپنے مخالفین بالخصوص خواتین کے خلاف جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور ان کی مخالفت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ برازیل میں خواتین ووٹرز کی تعداد 52فی صد ہے اور ان میں سے زیادہ تر بولسانارو کی مخالف ہیں، جب کہ مردوں میں ان کی مقبولیت 37فی صد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بولسا نارا فوج کی طرح سخت گیر ہیں اور فوج کے پسندیدہ بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جرائم کو ختم کرنے کے لیے مزید افراد کو قتل کیا جائے اور جرائم پیشہ افراد سے غیر معمولی سختی برتی جائے۔ یعنی کوئی ماورائے عدالت حل نکالا جائے اور برازیلین باشندے، جو پُر تشدد واقعات سے تنگ آ چُکے ہیں، اس قسم کے حل پر کان بھی دھر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بولسانارو پر بھی انتخابی تقریر کے دوران چاقو سے حملہ کیا گیا اور انہوں نے اسپتال سے اپنی انتخابی مُہم چلائی، جس کی وجہ سے اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔

برازیل: روایتی سیاست داں انتخابی دوڑ سے باہر
مقبول ترین صدارتی اُمیدوار، جیئر بولسانارو

بولسا نارو کے قریب ترین حریف، فرنینڈو ہداد، جن کا تعلق ورکرز پارٹی سے ہے، سائو پولو کے مئیر رہ چُکے ہیں۔ انہیں مارکسسٹ ،اہلِ دانش میں شمار کرتے ہیں۔ تاہم، مشکل یہ ہے کہ اُن کی پورے مُلک میں سیاسی ساکھ یا مقبولیت نہیں، لیکن سابق معزول صدر، ڈی سلوا آج بھی عوام میں بہت مقبول ہیں، البتہ نا اہل ہونے کی وجہ سے وہ انتخابی دوڑ سے باہر ہو چُکے ہیں۔ تاہم، چوں کہ ڈی سلوا کا تعلق بھی ورکرز پارٹی سے ہے، اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ اُن کے چاہنے والے فرنینڈو کو ووٹ دے سکتے ہیں، مگر یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اس طرح وہ پہلے مرحلے میں 50فی صد سے زاید ووٹ حاصل نہ کر پائیں اور دونوں صدارتی امیدواروں کو دوسرے رائونڈ میں جانا پڑے۔ فرنینڈو تقریباً انہی پالیسیز کا پرچار کرتے ہیں، جو اُن کے پارٹی لیڈر اور سابق صدر، ڈی سلوا نے بنائی تھیں۔ فرنینڈو کا دعویٰ ہے کہ وہ کفایت شعاری کی بہ جائے خرچ کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے، کیوں کہ برازیلین عوام قربانیاں دے دے کر پہلے ہی عاجز آ چُکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ مالی ذمّے داری، آسان اقساط پر قرضوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو بحال کریں گے۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، یہ سب اتنا سہل نہ ہو گا، جتنا بتایا جارہا ہے۔

آج برازیل کی اقتصادی صورتِ حال اس قدر دگرگوں ہے کہ اسے واقعی کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ جیلیما روزوف کے مواخذے سے لے کر اب تک ہر ادارہ بالکل مفلوج ہے اور مُلک میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہو چُکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام نئی حکومت کے منتظر ہیں کہ جس کے آنے سے مُلک میں خوش حالی کا دَور لوٹ آئے۔ تاہم، اب یہ سفر خاصا طویل اور کٹھن ہو گا، کیوں کہ مُلکی معیشت غیر معمولی حد تک دگرگوں ہے۔2014 ءسے 2016ء کے دوران جب جیلیما کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہو رہی تھی، تو تب برازیل کی جی ڈی پی10فی صد سے زیادہ سُکڑ چُکی تھی اور اس وقت بھی معاشی بحالی کے امکان دُور دُور تک نظر نہیں آرہے۔ ماہرین کے مطابق، ترقی پذیر معاشروں میں جب انسدادِ بدعنوانی سمیت دیگر مقبولِ عام نعروں کے ذریعے انتخابی مُہم چلائی جاتی ہے، تو الزامات، مقدّمات اور مواخذوں کے نتیجے میں معیشت اس قدر تیزی سے زوال پذیرہوتی ہے کہ اسے بحال کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ حُکم راں صرف نت نئی اسکیمز لا کر وقت گزارتے رہتے ہیں اور مسائل کا کوئی دیرپا حل نہیں نکل پاتا۔ برازیل میں اس وقت بے روز گاری کی شرح 10 فی صد سے تجاوز کر چُکی ہے، جس کی وجہ سے نوجوان شدید بے چینی کا شکار ہیں اور یہ تمام عوامل بولسانارو کی جانب سے دکھائے گئے خوش حالی کے خوابوں کو بہت سُہانا بنا دیتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ جن تبدیلیوں کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں، انہیں عملی شکل دینے کے لیے ان کے پاس تجربہ کار اقتصادی ماہرین کی ٹیم موجود نہیں ہے۔

برازیل: روایتی سیاست داں انتخابی دوڑ سے باہر
برازیل کی معزول صدر، جیلیما روزوف

اس لیے اندیشہ ہے کہ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد برازیل کہیں بہتری کی بہ جائے مزید ابتری کا شکار نہ ہو جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ برازیل میں ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ پُر تشدّد واقعات عروج پر ہیں اور مُلک کا کوئی علاقہ بھی شر پسندوں سے محفوظ نہیں۔ پھر برازیل کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس کا معاشرہ بہت زیادہ منقسم ہے۔ یہ برِ اعظم جنوبی امریکا کا اہم ترین مُلک ہے اور اس کی آبادی 23کروڑ سے زاید ہے، جن میں ووٹرز کی تعداد 14کروڑ 30لاکھ ہے۔ یہاں17سے 70سال کے عُمر کے افراد کو ووٹ ڈا لنے کا حق حاصل ہے۔ برازیل آبادی و رقبے کے لحاظ سے دُنیا کا پانچواں بڑا مُلک ہے، جب کہ معیشت کے اعتبار سے عالمی فہر ست میں ساتویں نمبر پر پہنچنے کے بعد نیچے آ چُکا ہے۔ نیز، دُنیا کا سب سے بڑا دریا، ایمزون بھی یہیں واقع ہے اور ایمزون کے جنگلات کو ماحولیات کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ برازیل کافی پیدا کرنے والا دُنیا کا سب سے بڑا مُلک ہے اور یہیں پُرتگالی زبان بولنے والے سب سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ اس نے7ستمبر 1922ء کو پُرتگال سے آزادی حاصل کی اور اس کا موجودہ آئین 1988ء میں تشکیل دیا گیا، جس کے تحت یہاں صدارتی طرزِ جمہو ریت ہے اور صدر کی مُدّت 4برس ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ جنوبی امریکا کے ممالک میں فوجی حُکم رانی عام سی بات ہے اور چِلّی، وینزویلا اور خود برازیل بھی اسے بُھگت چُکے ہیں۔ چلّی کے ڈکٹیٹر، پنوشے نے 1970ء کی دہائی میں نہ صرف اپنے مُلک پر حکومت کی، بلکہ اردگرد کے ممالک کو نقصان بھی پہنچایا۔ تاہم، برازیل اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ وہ اس صدی کے آغاز میں فوج کے اثرات سے نکلنے میں کام یاب رہا۔ اب بھی وقت ہے ، اگر برازیل کے سیاست دان ہوش کے ناخن لیں، تو برازیل کی معیشت بحال ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس مُلک میں ہر قسم کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ تاہم، اس مقصد کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے۔

تازہ ترین